سندھ کے گورنر کوئی روایتی سیاست دان نہیں ہیں۔ انہیں ایک ٹیکنوکریٹ سمجھا اور مانا جاتا ہے۔ ان کی تعلیم اور تجربہ دونوں اِس پر دلیل ہیں۔ وہ سیاست میں اتفاقیہ آ گئے ہیں یا شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہاں قدم رکھا ہے‘ اس بارے میں کوئی واضح بات تو وہ خود ہی بیان کر سکتے ہیں، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ سیاست کے جراثیم ان کے اندر ضرور موجود ہوں گے، جو انہیں مسلم لیگ(ن) میں کھینچ لائے۔ ان کے والد میجر جنرل غلام عمر اگرچہ کہ ایک جرنیل تھے؛ تاہم سیاست سے دلچسپی ان میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں سیاسی رہنمائوں سے رابطے انہی کے ذمے بتائے جاتے تھے۔ ان دِنوں اُن سے کوئی براہِ راست ملاقات حافظے میں نہیں کہ ہماری جوانی اپنی دیوانگی میں مگن تھی۔ ان کا نام البتہ سننے میں آتا رہا۔ ان دنوں مجید نظامی مرحوم کے اخبار ''ندائے ملت‘‘ کے چیف رپورٹر برادر عزیز عبدالقادر حسن نے (انہی دِنوں) بتایا تھا کہ کونسل مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہو رہا تھا، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ صدارت فرما رہے تھے۔ ایک بڑے لیگی رہنما کو بار بار فون آتا، اور وہ اُٹھ کر اسے سننے کے لیے جاتے۔ ان دِنوں موبائل تو ایجاد ہوا نہیں تھا۔ ٹیلی فون کہیں کسی کمرے میں پڑا رہتا۔ بڑے لوگوں کے ہاں اُس پر باقاعدہ ایک شخص بھی مقرر ہوتا تھا، جو ابتدائی طور پر اسے سنتا اور پھر اُس شخص (یا گھر کے فرد) کو بلاتا، جس سے بات کرنا مقصود ہوتی۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد جو حالات پیدا ہوئے، وہ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہے تھے۔ جنرل یحییٰ خان کے کارندے بھاگ دوڑ میں لگے تھے۔ بھٹو مجیب کشمکش شروع تھی، قومی اسمبلی کے اجلاس کا ڈھاکہ میں انعقاد مسئلہ بن چکا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اس کے التوا پر تُل گئی تھی، جبکہ بھٹو صاحب کے علاوہ اکثر سیاست دانوں کو اس کا التوا منظور نہیں تھا۔ کونسل مسلم لیگ کے اجلاس میں اس صورت حال پر ایک قرارداد منظور ہونا تھی۔ مذکورہ بالا لیگی رہنما کو جنرل عمر کا فون آ رہا تھا، اور وہ اُٹھ اُٹھ کر جا رہے تھے۔ واپس آ کر وہ قرارداد کے کسی نہ کسی فقرے کو تبدیل کرنے کی تجویز دے دیتے... بالآخر میاں دولتانہ مرحوم نے بھنّا کر کہا: اوئے چودھری، ایدھے وچ کوئی انگریزی وی رہن دے... جنرل غلام عمر کو اُس وقت سیاست دان جرنیل سمجھا جاتا تھا کہ وہ (مبینہ طور پر) سیاسی معاملات کی شُدبُد اپنے رفقا سے زیادہ رکھتے تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے اثرات ان پر مرتب ہوئے۔ بنگلہ دیش میں انہیں بھی جنگی جرائم کا ملزم قرار دیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے انہیں طویل عرصہ گھر میں نظر بند رکھا۔ آخری دور میں ان سے خاصہ قریبی تعلق قائم ہو گیا تھا کہ وہ اُردو کو سرکاری زبان بنانے کی تحریک چلائے ہوئے تھے۔ اورینٹ ایڈورٹائزنگ کے ایس ایچ ہاشمی مرحوم کو بھی یہ لگن لگی تھی۔ میجر جنرل غلام عمر ان دِنوں لاہور آتے تو ان سے ملاقات رہتی۔
بات اور طرف نکل گئی، کہنا یہ مقصود تھا کہ زبیر عمر لاکھ ٹیکنوکریٹ سہی، لیکن سیاست کے کچھ نہ کچھ جراثیم ان کو ورثے میں ضرور ملے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی لیبارٹری میں ان کی افزائش ہوئی، اور اب وہ اپنے آپ کو سیاست دان قرار دینے میں حق بجانب ہیں۔ 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران وہ اپنی جماعت کی معاشی اصلاحات اور میڈیا سے متعلق کمیٹیوں کے رکن رکین تھے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی ذہانت کا نقش جماتے رہے۔ ان کے بھائی اسد عمر بھی کارپوریٹ سیکٹر کی ایک انتہائی ممتاز شخصیت تھے (اور ہیں)، آئی بی اے، لمز اور ایسے ہی ممتاز تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے تو وہ رول ماڈل تھے (اور ہیں)... اینگرو سے ان کی دھاک تحریک انصاف میں جا بیٹھی۔ مسلم لیگ(ن) ان سے کیسے محروم رہی، یہ بھی تاریخ کا ایک دلچسپ باب ہے، لیکن اس سے قطع نظر اسد عمر کا خلا مسلم لیگ(ن) میں زبیر عمر نے پُر کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد وہ پرائیویٹائزیشن کمیشن کے سربراہ بنائے گئے، میڈیا کے محاذ پر بھی دادِ شجاعت دیتے رہے۔ دلیل سے بات کرنے والوں میں ان کا نام ممتاز رہا۔ ان کے ایک بھائی منیر کمال پاکستان سٹاک ایکسچینج کے سربراہ اور نیشنل بینک کے چیئرمین ہیں۔ اپنے فن میں یکتا اور شعری ذوق سے مالا مال۔
پرائیویٹائزیشن کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ سیاست کے سپیڈ بریکر نے گاڑی کی رفتار بڑھنے نہیں دی، سو وزیر اعظم نے زبیر عمر کو سندھ کے گورنر ہائوس میں بٹھا دیا۔ سیاست کا چسکہ، مگر ان کی زبان کو لگ چکا ہے، اس لیے آئینی ذمہ داریوں تک محدود نہیں رہ سکتے۔ چند روز پہلے کراچی آپریشن کا سہرا انہوں نے اپنے ممدوح کے سر اس طرح باندھا کہ جنرل راحیل شریف کی پگڑی اتار لی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو بھی یوں قطار میں بٹھایا کہ کسی شمار قطار میں نہ رہیں۔ فرمایا، کراچی میں جو ہوا، اس کا سو فیصد کریڈٹ وزیر اعظم کو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی (بظاہر) جنرل راحیل شریف سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے جو کچھ کہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ بھائی، آپ ان سے بڑی بڑی توقعات لگائے کیوں بیٹھے ہو۔ وہ اسی طرح کے جرنیل ہیں، جس طرح کے دوسرے کئی ہیں۔ انہوں نے اپنے استحقاق کے مطابق اراضی الاٹ کرا لی تو اس پر اعتراض ہونے لگے۔ وہ اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے نامزد ہوئے تو اس پر انگلیاں اٹھائی جانے لگیں۔ آپ انہیں ''مافوق الفطرت‘‘ کیوں سمجھتے ہو۔ وہ تو وہی کریں گے، جو ان جیسے دوسرے کر رہے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔ عام سے جرنیل سے عام سی توقعات لگائی جانی چاہئیں، سو شوق سے لگا لو۔ اس پر جنرل راحیل شریف کے حامیوں کو اُسی طرح غصہ آیا، جس طرح وزیر اعظم نواز شریف کے مخالفوں کو آیا ہے۔ انہوں نے گورنر صاحب کے خوب لتّے لیے، لیکن انہیں اس سے کچھ فرق پڑنا تھا نہ پڑا۔
جنرل راحیل شریف اب ریٹائر ہو چکے ہیں، وہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔ اس لئے ان کے بارے میں ہر بات بے دھڑک کہی اور لکھی جا سکتی ہے۔ ان کے ساتھ وہ کچھ کیا جا سکتا ہے جو ان کے دور میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ ہوتا رہا (بشرطیکہ جنرل قمر باجوہ اس طرف سے آنکھ بند کر لیں) جب ان کا طوطی بول رہا تھا، تو بڑے بڑوں کی ''سٹی‘‘ گم ہو جاتی تھی۔ پروٹوکول کے اعتبار سے چیف آف آرمی سٹاف کا نام وزرائے کرام سے خواہ بعد میں آتا ہو، سرکاری اجلاسوں میں وہ وزیر اعظم کے بعد (بلکہ ان کے ساتھ) جگہ پاتے تھے۔ وزیر دفاع کو ان کے سامنے آنے میں حجاب رہتا تھا، اور ان سے بالا ہی بالا شریفین کے درمیان کھسر پھسر جاری رہتی تھی۔ جنرل صاحب کا قد بڑا کرنے پر ذہین باوردی افسر مامور تھے۔ ان کی مثالی کارکردگی کو مزید مثالی بنانے اور اسے بڑھاوا دینے میں وہ یکتا تھے۔ جنرل صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی وجاہت عطا کر رکھی ہے۔ وہ ایک بارعب اور متحرک شخص تھے۔ دُنیا میں جہاں جاتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ خارجہ پالیسی ان کی محتاج معلوم ہوتی تھی، اور دفاعی پالیسی بھی ان کی انگلی پکڑ کر چلتی تھی۔ ہمسایوں سے تعلقات ان کے اشارۂ ابرو کے محتاج تھے۔ 39 ملکی اسلامی اتحاد کی سربراہی کے لیے ان کے چنائو سے ان کے ستارے نئی چال چل گئے ہیں۔ اب انہیں عام سا آدمی کہہ کر کوزے میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے تو وہ سارے سوال پوچھے جائیں گے، جو خواص سے پوچھے جاتے ہیں۔ اگر وہ خواص کی طرح ہی طرح دیتے رہیں تو ان کی مرضی۔ یہاں کسی اور کا کیا بگڑا ہے، جو ان کا بگڑ جائے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)