تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-04-2017

آپ کے خواب اور ٹوٹا وغیرہ

عمران خان کا خواب
کیا دیکھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ ہمارے حق میں کر دیا ہے جسے سُن کر شیخ رشید پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی ہے اور اُنہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے بھی فیصلہ سُن کر زور کا نعرہ مارا اور بے ہوش ہو گئے جنہیں تلوے وغیرہ مل کر ہوش میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان نے فوری طور پر ایک ایک ارب روپے پارٹی فنڈ میں جمع کرا دیے ہیں تاکہ فتح کا شایان شان جشن منایا جا سکے۔ فیصلہ سن کر دانیال عزیز‘ خواجہ آصف اور سعد رفیق پر وقفے وقفے سے غشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف پتھری کے آپریشن کے سلسلے میں پہلے ہی لندن جا چکے تھے۔ کئی دیگر وزراء کے چوری چوری مٹھائیاں تقسیم کرنے کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں جب کہ حکمرانوں اور ان کے بچوں کو ہمیشہ کے لیے سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔ ثبوت میں میری طرف سے جو اخباری تراشے عدالت میں جمع کرائے گئے تھے‘ اُنہیں قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے قومی عجائب گھر میں محفوظ کر نے کا حُکم بھی صادر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی نجم سیٹھی کے ساتھ مناسب سلوک کرنے کا اختیار بھی خاکسار کو دے دیا گیا ہے۔ فیصلے سے مولانا فضل الرحمن کو اس قدر دماغی صدمہ پہنچا ہے کہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔ امام کعبہ اُن پر دم درود کرنے میں مصروف ہیں۔ اتنے میں سراج الحق نے ہوش میں آ کر اتنے زور سے نعرہ مارا کہ میری آنکھ کُھل گئی۔
فیصلہ
اخباری اطلاع کے مطابق پاناما لیکس کا فیصلہ سنانے کے لیے اس ہفتے بھی بنچ نہ بنا۔ واضح رہے کہ ملکِ عزیز میں ہر فیصلہ قومی و ملکی مفاد میں کیا جاتا ہے‘ اور ہر کام میں خوفِ فسادِ خلق کا خیال ضرور رکھا جاتا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ قوم کے بہترین مفاد میں فیصلے کا اعلان مزید کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کر دیا جائے‘ جیسا کہ اصغر خان کیس سالہا سال سے سردخانے میں پڑا ہوا ہے اور اس سے ملک پر کوئی قیامت نہیں ٹوٹی بلکہ امن و امان کی صورت حال مستحکم ہوئی ہے‘ اس کے علاوہ بھی حکمرانوں کے خلاف کئی معاملات فائلوں میں دبے پڑے ہیں اور امن عامہ پر اس کے نہایت مفید اثرات مرتب ہو رہے ہیں جبکہ انتظامیہ کے فرائض میں ملک کو خواہ مخواہ کے جھگڑوں اور فسادات سے بچانا بھی شامل ہے اور اس نے اس معاملے میں ہمیشہ ہی بہترین کردار ادا کیا ہے ع
ایں کار از تو آید ومرداں چُنیں کنند
شکیلہ جبیں
پنجابی زبان کی صُوفی شاعرہ شکیلہ جبیں کا ابھی ابھی سیالکوٹ سے فون آیا ہے بہت جلد ملنے کے لیے آئیں گی ان کی کتابیں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں۔ یہی نہیں ان کی باتیں انسپائر بھی کرتی ہیں۔ دو شعری مجموعے چھپ کر اہل فن سے زبردست داد حاصل کر چکے ہیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
سلمیٰ اعوان
یہ خاتون خود نثر گار ہونے کے باوجود میری شاعری کی زبردست شیدائی ہیں ان کی گفتگو سے بھی ایسا لگتا تھا تاکہ نثر میں شاعری کر رہی ہیں یعنی نثری نظم لکھ رہی ہیں حسبِ وعدہ اس ہفتے کی غزل حاضر ہے جو سلمیٰ اعوان ہی کے نام ہے:
یہی خطا ہوئی اپنا جہاں بناتے ہوئے
زمیں کو بُھول گیا آسمان بناتے ہوئے
ڈرا ہُوا تھا کہیں آگ ہی نہ لگ جائے
میں سانس لینے کی خاطر دُھواں بناتے ہوئے
ہوا کی طرح ٹھکانہ کہیں نہیں ہے‘ سو میں
مکیں بھی ڈھونڈ رہا ہوں مکاں بناتے ہوئے
وہ ماجرا کہ ہُوا ہی نہیں کہیں اب تک
گُزر گئی ہے اُسے دوستاں بناتے ہوئے
جہاں بھی ہوتا ہوں سب کچھ بگاڑ بیٹھتا ہوں
یہاں بناتے ہوئے یا وہاں بناتے ہوئے
روانہ ہوں سفرِ شوق پر قدم بہ قدم
میں واپسی کے لیے اک نشاںبناتے ہوئے
مجھے بھی چھوڑ کے چل دیں گے راستے میں کہیں
میں سوچ ہی نہ سکا کارواں بناتے ہوئے
میں اپنی بات سمجھنے کی سعی میں ہوں ابھی
اسی گُمان میں گُم تھا زباں بناتے ہوئے
ستارہ اپنا ہی بن پا نہیں رہا تھا‘ظفرؔ
سو‘کام چھوڑ دیا کہکشاں بناتے ہوئے
آج کا مطلع
حدِ سفر مری کیا ہے تجھے بتا سکتا
یہ بارِ دوش اگر اور بھی اٹھا سکتا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved