جادو انسان کو لاحق ہونے والے فتنوں اور خطرات میں سے ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ جادو کی تاریخ اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات بہت قدیم ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر102 سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جادو کے ذریعے میاں بیوی کے درمیان تفریق پیدا ہو جاتی اور اس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اسی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ جادوگر انسانوں کو جو نقصان پہنچاتے تھے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔ گویا کہ جادوگر بھی اللہ تعالیٰ کے حکم اور امر سے تجاوز نہیں کر سکتا‘ لیکن کسی حکمت کے تحت کئی مرتبہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس قسم کے اثرات کو انسانوں کی آزمائش کے لیے ان پر مرتب ہونے دیتے ہیں۔ قرآن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پالا بھی جادوگروں سے پڑا۔ جس وقت آپ ؑ فرعون کے پاس اپنے معجزاتی عصا اور یدِ بیضا کو لے کر آئے تو فرعون اور اس کے درباریوں نے اس کو جادوگری کا شاخسانہ قرار دیا اور سلطنت میں اس بات کی منادی کروائی گئی کہ جتنے جادو گر فرعون کی قربت چاہتے ہیں وہ فرعون کے دربار میں حاضری دیں تاکہ موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ کروایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بھی مقابلہ دیکھنے کی دعوت دی گئی؛ چنانچہ ایک بڑے میدان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کے مابین ایک مقابلے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مقابلے کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ اعراف، سورہ طٰہٰ، سورہ شعراء اور قرآن مجید کے دیگر مقامات پر کیا۔ اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ: ''میدان میں اترنے کے بعد جادوگروں نے فرعون کا نام لے کر اپنی رسیوں کو زمین پر پھینکا، رسیاں دیکھنے والی آنکھوں کے لیے حرکت کرنے والا سانپ بن گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس بہت بڑے جادو سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی کا نزول فرمایا کہ آپ اپنے عصا کو زمین پر ڈالیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنے عصا کو زمین پر ڈالا تو وہ ایک اژدھے کی شکل اختیار کرکے ساری رسیوں کو نگل گیا۔ اس منظر کو دیکھ کر جادوگر اس حقیقت کو بھانپ گئے کہ موسیٰ علیہ السلام کا عصا جادوگری کا مظہر نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک معجزہ ہے؛ چنانچہ جادوگروں نے فی الفور ایمان کے راستے کو اختیار کر لیا‘‘۔
نبی کریمﷺ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید کی دعوت کو لے کر آئے تو جہاں پر کافروں نے آپﷺ کی مختلف طریقوں سے مخالفت کی اور آپﷺ کو ایذا دینے میں کسی قسم کی کوئی کسر نہ اُٹھا کر رکھی‘ وہیںنبی کریم حضرت رسول اللہﷺ پر جادو کا وار کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ یہ جادو مدینہ میں واقع ہوا جبکہ وحی اور رسالت ثابت اور ٹھہر چکی اور قرار پکڑ چکی تھی اور نبوت کے دلائل اور رسالت کی صداقت قائم ہو چکی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرکے مشرکوں کو ذلیل و رسوا کر دیا تھا تو اس کے بعد یہودیوں میں سے ایک شخص جسے لبید بن اعصم کہا جاتا تھا‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درپے ہوا اور اس نے ایک کنگھی کے دندانوں اورکنگھی کئے ہوئے بالوں اور نر کھجور کے خوشہ کے چھلکا میں جادو کیا‘ تو اللہ رب العزت کی طرف سے ان کے پاس وحی آئی اور جو کچھ ہوا تھا انہیںاس کی خبر دی گئی۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے معوذتین دو سورتیں (قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) نازل فرما دیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان اشیا پر پڑھا جن پر جادو کیا گیا تھا تو سحر کے تمام اثرات زائل ہو گئے۔
اس جادو کے کیے جانے میں بنیادی طور پر جو حکمت معلوم ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے امت کو اس قسم کے فتنوں سے بچاؤ کے لیے تدابیر بتلائی جا سکیں۔ قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے جادو کی روک تھام کے لیے جو تدابیر معلوم ہوتی ہیں وہ درجہ ذیل ہیں:
1۔ ارکان اسلام کی بجا آوری اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی خصوصیت سے عبادت کا اہتمام کرنا: جب انسان عبادات اور ارکان اسلام کی بجا آوری کا خصوصیت سے اہتمام کرتا رہتا ہے اور بغیر تعطل کے تسلسل کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرتا رہتا ہے تو جادو کے اثرات بتدریج کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
2۔ طہارت کا اہتمام کرنا: جب انسان تزکیہ اور طہارت کا اہتمام کرتے ہوئے مسلسل ناپاکی سے دور رہتا اور تواتر کے ساتھ وضو اور غسل کا اہتمام کرتا رہتا ہے تو اس پر جادو کے اثرات کمزور سے کمزور تر ہوتے جاتے ہیں۔
3۔ سورہ بقرہ کی تلاوت: اسی طرح احادیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس گھر میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر میں تین دن تک شیطان نہیں گھس سکتا اور احادیث مبارکہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ جادوگر سورہ بقرہ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔
4۔ آیۃ الکرسی اور سورہ بقرہ کی آخری دو آیات: جو شخص پوری سورہ بقرہ کی تلاوت نہیں کرتا اسے یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ آیۃ الکرسی اور سورہ بقرہ ہی کی آخری دو آیات بھی جادو کے خلاف موثر اور مفید ہیں۔
5۔ معوذتین اور اخلاص کی تلاوت: سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھنے سے جادو کے اثرات زائل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر نماز کے بعد اور سونے سے قبل بھی آیت الکرسی اور معوّذات (سُوْرَۃُ الْاِخْلَاصِ، سُوْرَۃُ الْفَلَقِ، سُوْرَۃُ النَّاسِ) پڑھنی چاہئیں۔
5۔ احادیث میں مذکور معوذات: معوذتین کے ساتھ ساتھ احادیث میں بھی بعض معوذات مذکور ہیں‘ جن میں سے سرفہرست ''اعوذبکلمات اللہ التامات من شر ما خلق‘‘ ہے ان معوذات کو پڑھنے سے بھی جادو کے اثرات زائل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بعض دیگر اذکار بھی جادو کے اثر کو زائل کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ جن میں سے ''بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔‘‘سرفہرست ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص صبح سو مرتبہ ''لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔‘‘ ورد کرے تو اس پر اس دن شیطانی اثرات مرتب نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح ''اَعُوذُ بِاللہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَ نَفْخِہِ وَ نَفْثِہِ۔‘‘ بھی شیطانی اثرات کی روک تھام کے لیے موثر ہیں۔
6۔ مسنون طریقہ ہائے علاج: مسنون طریقہ ٔ علاج میں سے حجامۃ کروانا اور صبح نہار منہ عجوہ کھجور کھانا بھی جادو کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے موثر ہیں۔
قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کرانسان جادو جیسے فتنے سے بچ سکتا ہے۔ بعض لوگ طہارت کا اہتمام، ارکان اسلام کی پابندی اور مسنون اذکار کا اہتمام کرنے کی بجائے جلد اس تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لیے جعلی عاملین اور کاہنوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کے عقیدے، اعمال ،عزت وآبرو اور مال کے اتلاف کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہ عاملین انسان کو ایسے کاموں میں لگا دیتے ہیں جن میں سراسر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کے عناصر پائے جاتے ہیں؛ چنانچہ انسان اس تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لیے وہ اعمال کر بیٹھتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی آزمائش پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہو جاتی ہے اور وہ اپنی دنیا اورآخرت کی ناکامیوں کو خود اپنے ہاتھ سے سمیٹ لیتا ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس نے اپنے ماننے والوں کی زندگی کے ہر مسئلے میں کامل رہنمائی کی ہے؛ چنانچہ مسلمانوں کو اپنے ایمان، مال، عزت اور آبرو کو داؤ پر لگانے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کے ذریعے اس آزمائش کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی اذکار اور مسنون دعاؤں کے ذریعے دم کرنے کی اجازت دی ہے۔ کوئی ایسا شخص جو قرآن مجید کی آیات اور مسنون اذکار کے ذریعے دم کرتا ہو اس سے دم کروانا جائز ہے‘ لیکن ایسے اعمال کی بجا آوری جو شیطان کی پیروی اور بداعتقادی پر محمول ہوں اور انسان توحید باری تعالیٰ کی بجائے شرک کے راستے پر چل نکلے ان سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اعمال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔