راوی، ستلج اور بیاس تو ہاتھ سے جا ہی چکے لیکن چناب، جہلم کے بعد اب دریائے سندھ پر بھی بھارت پاکستان کو نچوڑنا شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان کے سدا بہار دریائے سندھ کو رواں دواں رکھنے کیلئے دریائے کابل سے آنے والے25 فیصد سے زائد پانی کو روکنے کیلئے بھارت افغانستان کو مشورے دیتے ہوئے دریائے کابل پر مختلف مقامات پر ڈیم بنانے کے منصوبے تیار کر رہا ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گیا تو سردیوں میں پانی کی جس کمی کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑے گاکاش کہ کوئی ایک پاکستانی اس کا اندازہ کر سکے! پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف بالآخر یہ تسلیم کر لیا کہ'' کشن گنگا کی تعمیر سے پاکستان میں بننے والا نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ متاثر ہو گا‘‘۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کے بارے میں ہمارے آبی ماہرین گزشتہ دس سالوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ اگر کشن گنگا کو نہ روکا گیا تو نیلم جہلم بجلی کی پیداوار کا ذریعہ بننے کے بجائے ایک گھونسلہ بن کر رہ جائے گا۔ اور صرف نیلم جہلم ہی خشک نہیں ہو گا بلکہ ہماری زمینیں بھی ایک دن بنجر ہو کر رہ جائیں گی ۔
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف آبی ماہر جان بریسکو‘ جو ورلڈ بینک کی جانب سے ایک دہائی سے بھی زیا دہ پاکستان اور بھارت میں انڈس واٹر ٹریٹی کے حوالے سے خدمات انجام دیتے رہے‘ نے اپنی رپورٹ میں پانچ سال قبل ہی لکھ دیا تھا کہ پاکستان واحد ملک ہے جسے احساس ہی نہیں کہ وہ دن بدن خشک ہوتا جا رہا ہے اور جب کبھی بھی کسی وطن دوست حکومت نے اس کا احساس کیا تو پاکستان اور بھارت میں آبی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔
ہماری حکومتوں کی ملک کو درکار پانی کا ذخیرہ یقینی بنانے میں کس قدر دلچسپی ہے س کے بارے میں جان کر سب حیران رہ جائیں گے۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں جب'' واٹر ڈے‘‘ منایا جا رہا تھا تو اس کی مناسبت سے سابق چیئر مین واپڈا ظفر محمود (جو اب روزنامہ دنیا سے بطور کالم نگار منسلک ہیں) نے بھی واپڈا ہائوس آڈیٹوریم لاہور میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا تھا‘ جس میں مجھ سمیت میڈیا سے متعلق چند دوسرے لوگوںکو خطاب کا موقع دیا گیا۔ اس سیمینار میں میں نے واضح کیا تھا کہ وطن عزیز کو کرپشن اور دہشت گردی کے بعد آج اگر کسی بہت بڑے خطرے اور بحران کا سامنا ہے تو وہ ہماری زندگیوں کیلئے پانی کی فراہمی ہے چاہے یہ ہماری زراعت ہو یا انسانی و آبی حیات۔ پانی کے ایک ایک قطرے کو بھارت ہم سے آہستہ آہستہ چھینتا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ چھپ چھپا کر نہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر ہو رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھارتی پنجاب کے ایک جلسہ عام میں کہہ چکا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب بہنے والے دریائوں کا ایک ایک قطرہ چھین لے گا۔
واپڈا ہائوس میں ہونے والے اس سیمینار میں وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا لیکن وہ مصروفیات کی وجہ سے نہ آ سکے یا ہو سکتا ہے وہ اس معاملے کو اہم نہ سمجھتے ہوں۔ اڑھائی ماہ ہوئے‘ 17 جنوری کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں بھارت کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی کی پے در پے خلاف ورزیوں اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو در پیش مشکلات پر غور کرنے اور کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے کیلئے ملک بھر کے آبی ماہرین نےHydro politics around Pakistan کے موضوع پر سیمینار کا اہتمام کیا۔ بدقسمتی دیکھئے کہ ملک بھر کے آبی ماہرین تو اس سیمینار میں شریک ہوئے لیکن پانی جیسے اہم ترین موضوع پر ہونے والے اس سیمینار میں ایک مرتبہ بھی حکومت پاکستان کے کسی نمائندے نے شرکت کرنا گوارہ نہ کیا‘ اور سول حکومت کا وہ محکمہ جس کا بنیادی کام ہی یہی ہے کہ ملک کو درپیش آبی وسائل کی قلت کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی پائیدار حل تلاش کرنا ہے‘ اس سیمینار سے جان بوجھ کر دور رہا۔ سوال یہ ہے کہ اہم معاملہ پر اس طرز تغافل کا کیا مطلب ہے؟
گزشتہ برس جب واپڈا ہائوس میں پانی کے عالمی دن پر ہونے والے سیمینار سے وفاقی وزیر پانی و بجلی نے عین موقع پر شرکت سے معذوری ظاہر کی تو اس وقت کے چیئرمین واپڈا ظفر محمود اور واٹر ونگ کے افسران اور ماہرین خاصے دل گرفتہ ہوئے لیکن ان کے اندر کا سچا پاکستانی وزارت پانی و بجلی کی عدم توجہی سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے دشمن کے عزائم کو بے نقاب کرنے کیلئے یہ کہتے ہوئے خم ٹھونک کر میدان عمل میں کود پڑا کہ '' کوئی تو پرچم لے کر اٹھے اپنے گریبان کا جالب۔۔۔ چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں‘‘ ظفر محمود نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور ملک کو درپیش پانی کی خوفناک قلت پر اخبارات میں ایک درجن سے زائد مضامین لکھے‘ جو قومی اسمبلی میں ''اپوزیشن لیڈر‘‘ اور پی پی پی کے لیڈر سید خورشید شاہ اور ان کے چیئرمین کو سخت ناگوار گزرے اور ان کی جانب سے ان مضامین سخت احتجاج کیا گیا کہ ایک سرکاری ملازم ہونے کے باوجود چیئرمین واپڈا کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے درپردہ عوامی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم محمد نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ چیئر مین واپڈا ظفر محمود کے مضامین پر اپنی وضاحت پیش کریں‘ جس پر۔۔۔۔ جناب ظفر محمود کو پاکستان کے مفاد پر اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 17 جنوری 2017 کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں انڈس واٹر ٹریٹی پر ہونے والے سیمینار میں نئے چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین بھی شریک تھے لیکن وزارت خارجہ اور پانی و بجلی کے کسی ذمہ دار نے شرکت کرنا گوارہ نہ کیا‘ جسے چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے بری طرح محسوس کیا۔ دنیا بھر کے آبی ماہرین بھارت کو HYDRO-HEGEMON کے نام سے پکار تے ہوئے پاکستان کو خبردار کئے جا رہے ہیں کہ ہوش کے ناخن لو اور اپنے پانی کی حفاظت کرو‘ اگر تم لوگوں نے اسی طرح اپنی آنکھیں بند رکھیں تو ایک دن ایسا آئے گا تم ایک طرف پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسو گے تو دوسری جانب تمہاری 20 کروڑ سے بھی زائد آبادی روٹی کے ایک ایک لقمے کو ترسے گی!!