علمائے حق اور علمائے سُوء کی تقسیم ازل سے چلی آرہی ہے ، ابلیس جَہل کے سبب راندۂ درگاہ نہیں ہوا بلکہ عُجب واستکبار نے اُسے ذلیل ورسوا کردیا اور اُس نے عقلِ عیّار کو دلیلِ حق کے مقابل معیار بنایا اور اللہ تعالیٰ کے حضور اُس کے حکم کو رَدّ کرنے کے لیے عقلی دلیل کا سہارا لیا ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''(اللہ تعالیٰ نے )فرمایا: (آدم کو )سجدہ کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکا ؟، جب کہ میں تمہیں حکم دے چکا تھا ، وہ بولا: میں اِس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اِسے مٹی سے پیدا کیا ہے ،(الاعراف:12)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی مضمون کو سورۃ الحِجر :31-33اور بنی اسرائیل:61میں بیان فرمایا ۔اسی مضمون کا تفصیلی بیان ص:75-76میں ہے: ''(اللہ تعالیٰ نے )فرمایا: اے ابلیس! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا ، اُس کو سجدہ کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکا ؟ ، کیا تو نے تکبر کیا یا تو (ازل سے ) متکبرین میں سے تھا ، اُس نے کہا: (اے اللہ!)میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے بنایا ہے‘‘۔ پھر قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی شیطان کی سرکشی کا سبب بیان فرمایا: ''اُس نے انکار کیا اور تکبر کیااور کافر ہوگیا، (بقرہ:34) ‘‘۔یعنی ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے عقلی دلیل کا سہارا لیا اور باطل اجتہاد سے کام لیا ۔شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی نے کہا ہے:
تکبر عزازیل را خوار کرد
بہ زندان لعنت گرفتار کرد
کسی را کہ خصلت تکبر بود
سرش پر غرور از تصور بود
ترجمہ:''تکبر نے شیطان کو ذلیل ورسوا کردیا اوروہ ہمیشہ کے لیے ملعون ٹھہرا ۔ جس کی عادت تکبر بن جائے ، اُس کا دماغ اِسی کے تصور سے غرور سے معمور ہوجاتا ہے ‘‘۔چنانچہ اِسی خصلت کے سبب قرآن نے ابلیس کو راندۂ درگاہ (رجیم) اور قیامت تک لعنت کا حقدار قرار دیا ۔
قرآن نے یہ بھی بتایا کہ محض علم ہدایت کی ضمانت نہیں ہے تاوقتیکہ اُس کے ساتھ فضلِ الٰہی اور تائیدِ ربانی شامل نہ ہو ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :''پس کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنالیا ہے اور اللہ نے اُس کو علم کے باوجود گمراہ کردیا اور اُس کے کان اور اُس کے دل پر مہر لگادی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ،تو اللہ(کی توفیق سے محرومی ) کے بعد اُسے کون ہدایت دے سکتا ہے ، تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے ،(الجاثیہ: 23)‘‘۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ عقلِ عیّار بھی کبھی قبولِ حق سے حجاب بن جاتا ہے جیتی جاگتی آنکھیں بھی آیاتِ حق کو دیکھ کر عبرت پکڑنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔علامہ اقبال نے کہا ہے :
شوق تیرا اگر نہ ہو، میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے
عقل، غیاب وجستجو، عشق، حضور واضطراب
ترجمہ:''یارسول اللہ! اگر آپ کا شوق میری نماز کا امام نہ ہو ، تو میرا قیام بھی حجاب ہے اور میرے سجود بھی حجاب ہیں ، یعنی نگاہِ نبوت کے فیضان سے عقل اور نگاہوں سے پردے اٹھتے ہیں اور انسان حقیقت سے آشنا ہوتا ہے ،اسی کو بصیرت کہتے ہیں ۔ عقل جو حضوری سے محروم تھا ، لیکن اُس میں تلاشِ حق کی جستجو تھی اور عشق جو حضوری کی لذت پانے کے شوق میں پیچ وتاب کھارہا تھا ، یارسول اللہ! تیری نگاہِ پاک کے فیضان سے یہ دونوں بامراد ہوگئے اور دونوں حضوریٔ بارگاہِ رب العٰلمین کی روحانی لذت سے آشنا ہوئے ۔
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒاپنی ریاضت ومجاہَدہ کے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ایک دفعہ میںسیاحت کے دوران ایک ایسے جنگل میں چلا گیا جہاں پانی ناپید تھا، کئی دن پانی پیے بغیر گزر گئے، پیاس کی شدت حد سے بڑھ گئی۔ پھراللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بادل نمودار ہوا ،بارش ہوئی اور اس کے چند قطروں سے سکون ملا۔ اس کے بعد ایک نور ظاہر ہوا جس نے تمام افق کا احاطہ کرلیا اور عجیب صورت نمودار ہوئی، اس نے کہا: ''اے عبدالقادر! میں تیرا پروردگار ہوں، میں نے تمہارے لیے وہ سب چیزیں حلال کردی ہیں جو دوسروں کے لیے حرام کی ہیں، جو چاہو لے لو اور جو چاہو کرو‘‘۔ میں نے کہا: ''اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘،ملعون! دفع ہوجا ،یہ تو کیا کہہ رہا ہے ۔اچانک وہ روشنی تاریکی میں بدل گئی اور وہ صورت دھواں بن گئی اوراُس نے کہا: اے عبدالقادر! تو نے اللہ تعالیٰ کے احکام کے علم اور اپنے روحانی مرتبے کی رفعت کے سبب میرے اِس دائو سے نجات پالی ،ورنہ میں اس حربے سے ستّرایسے اہلِ طریقت کو گمراہ کرچکا ہوں، جنہیں دوبارہ وہ مقامِ رفعت نصیب نہیں ہوا۔ میں نے کہا: میرے علم نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان نے مجھے تیرے فریب میں مبتلا ہونے سے بچالیاہے، (اخبار الاخیار،فارسی، ص: 12)‘‘۔علامہ ابن تیمیہ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : حضرت شیخ سے کسی نے پوچھا : آپ نے کیسے جانا کہ یہ شیطان ہے؟،انہوں نے فرمایا: میں نے اُسے اُس کے اس قول سے پہچانا :''میں نے تمہارے لیے وہ سب کچھ حلال کردیا جو دوسروں پر حرام ہے‘‘ ،کیونکہ مجھے یقین تھا کہ محمد ﷺ کی شریعت نہ تو منسوخ ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے ۔اُس کی شناخت کی دوسری وجہ بھی اُس کا یہ قول تھا:'' میں تمہارا رب ہوں‘‘، وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ میں اللہ ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ،(فتاویٰ ابن تیمیہ ،ج:1،ص: 172،طبع سعودیہ)،(غنیۃ الطالبین مترجم، ص:30-31،فرید بک اسٹال ،لاہور)‘‘ غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی نوّرَ اللہ مرقدَھم کے اس واقعے سے عیاں ہوا کہ فریبِ نفس ،مکرِ شیطاں اور فکر کی کجی سے بچائو کے لیے محض علم کافی نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم اور اُس کی تائید وتوفیق کا شاملِ حال ہونا بھی ضروری ہے۔
علمائے حق اللہ تبارک وتعالیٰ کی توفیقات اور اُس کے رسولِ مکرّم کے فیضانِ نظر سے فیض یافتہ ہوتے ہیں ،انہیں تائیدِ باری تعالیٰ نصیب ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ اُن کی فکر کو زیغ (کجی) ، زلّۃ (پھِسلنے)، مکرِ شیطان، فریبِ نفس اور اِغوائے شیطان (شیطان کے گمراہ کرنے ) سے محفوظ فرماتا ہے اور وہ خَلقِ خدا کے لیے دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں ، وہ عُجب ،استکبار اور تعلّی سے بچے رہتے ہیں اور عَجز وانکسار کا پیکر ہوتے ہیں ۔تعلّی اور استکبار کے معنی ہیں:''خود بڑا بن جانا یا خود کو بڑا سمجھنا ‘‘،اِسی کو تکبر بھی کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو بندوں کا تکبّر واستکبار کسی بھی درجے میں پسند نہیں ہے ، کیونکہ اَلْعَزِیْزُ،اَلْجَبَّارُ اوراَلْمُتَکَبِّرْ اُس کے اسمائے صفات ہیں اور کبریائی صرف اُسی کی شان ہے ،حدیثِ قدسی ہے:
''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتا ہے : کبریائی میری رِدا ہے اور عظمت میری اِزار ہے ،سو جو اِن صفات (کا دعوے دار بن کر ) مجھ سے مقابلہ کرے گا، تو میں اُسے جہنم میں ڈال دوں گا، (ابن ماجہ: 4174)‘‘۔یعنی اللہ تعالیٰ نے کبریائی اور عظمت کو اپنی شان اور خصوصیت سے تعبیر کیا ، بندے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا مَجازی مَظہر بن سکتے ہیں ، لیکن کبریائی اور عظمت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو زیبا ہے اور اَلْمُتَکَبِّرْ صرف اُسی کی شان ہے ، بندے کے لیے کسی بھی صورت میں یہ صفات روا نہیں ہیں ، علامہ اقبال نے حق کہا ہے:
سروری زیبا فقط، اُس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری
اللہ تعالیٰ نے علمائے حق کو بڑا مقام عطا فرمایا ہے، آلِ عمران:18میں اپنی اَحَدِیّت اور معبودِ برحق ہونے کے حوالے سے اپنی شہادت ،ملائکہ کی شہادت کے ساتھ متصلاً اہلِ علم کی شہادت کو بطورِ حجت کے اِن کلمات میں بیان فرمایا :''اللہ نے گواہی دی کہ اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور فرشتوں نے اور اہلِ علم نے عدل پر قائم رہتے ہوئے گواہی دی‘‘۔یہ علمائے حق کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا اعزاز ہے ۔النساء :165میں اللہ تعالیٰ نے بعثتِ رسالت کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ انسانوں پر اللہ کی حجت قائم ہوجائے اور اُن کے پاس کفر وشرک ، ضلالت ، فسق وفجور ،معصیت اور بدی کی ہر صورت پر قائم رہنے کے لیے کوئی قابلِ قبول جواز اور دلیل باقی نہ رہے۔ اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علمائے حق کو توحیدِ باری تعالیٰ کی حجت میں شامل فرمایا ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے(1): ''علماء اللہ کی مخلوق پر اُس کے امین ہیں، (مسند الشہاب للقضاعی: 115)‘‘(2): علماء (تبلیغِ دین اور علمِ نبوت میں )بے شک انبیاء کے وارث ہیں ، انبیاء اپنی وراثت میں درہم ودینار چھوڑ کر نہیں جاتے ، انبیاء کی وراثت تو صرف علمِ( دین )ہے ، سو جس نے علمِ دین کو حاصل کیا ،اُس نے وراثتِ نبوت میں وافر حصہ پایا،(سنن ترمذی:2682)‘‘۔ (3)''بے شک اللہ اور اُس کے فرشتے اور اہلِ ارض وسما یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی بِلوں میں لوگوں کو دین کی تعلیم دینے والے کے لیے دعا کرتے ہیں ‘‘اور دوسری حدیث میں فرمایا: ''پانی میں تیرتی ہوئی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں ،(سنن ترمذی: 2685، 2682)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں، (فاطر:28)‘‘۔