واقعہ رجیع میں چار صحابہؓ کی شہادت کے بعد دو صحابہ زخمی حالت میں گرفتار کرلیے گئے۔ یہ تھے حضرت خبیب بن عدیؓ اور حضرت زید بن دثنہ ؓ جن کو بنو ذھیل نے مکے جا کر فروخت کر دیا۔ صفوان بن امیہ نے حضرت زیدؓ کو خرید لیا تاکہ اپنے باپ امیہ بن خلف کے بدلے میں انتقاماً قتل کر سکے۔ حجیر بن ابی وہاب نے حضرت خبیب بن عدی کو خرید کر اپنے بھانجے عقبہ بن حارث بن عامر کے حوالے کر دیا تاکہ وہ انہیں اپنے باپ کے بدلے میں قتل کرکے آتش انتقام ٹھنڈی کر سکے۔ قریش کے لوگوں نے ان دونوں اسیروں کو اس انتظار میں قید کر دیا کہ حرام مہینے گزر جائیں تو انہیں قتل کیا جائے۔ قید کا یہ زمانہ بھی بڑا یادگار تھا اور جاں نثار ان رسول کی شہادت کے واقعات بھی عظمت کا نمونہ اور روشنی کے مینار ہیں۔
زید بن دثنہؓ کو حدود حرم سے باہر لے جا کر ایک مجمع عام کے سامنے تلواروں سے شہید کیا گیا۔ صفوان بن امیہ نے اپنے غلام نسطاس کو حکم دیا جس نے ان کا سر قلم کر دیا۔ زید بن دثنہؓ کی شہادت سے پہلے قریشی سرداروں نے ان سے کہا ''اے زید! ہم تم سے خدا کے نام پر پوچھتے ہیں، سچ بتاؤ اب تو تم چاہتے ہو گے کہ تمہاری جگہ محمدؐ پکڑا جائے، اس کی گردن اڑا دی جائے اور تم اس کے بدلے میں چھوڑ دیے جاؤ۔‘‘ حضرت زید کا جواب تھا '' خدا کی قسم میں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ آنحضورؐ کے پاؤں میں کانٹا چبھے اور اس کے بدلے میں میری جان بچ جائے۔‘‘ سیرت ابن ہشام میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے ابوسفیان کا قول یوں نقل کیا گیا ہے ''خدا کی قسم میں نے دنیا میں کہیں ایسے لوگ نہیں دیکھے جو کسی شخص سے اتنی محبت رکھتے ہوں جتنی محمدؐ کے ساتھ اس کے ساتھی رکھتے ہیں۔‘‘
سیدنا خبیبؓ کا ابتلاء زیادہ تفصیل کے ساتھ مؤرخین نے نقل کیا ہے۔ مکہ میں قید کے دوران میں انہوں نے اپنے اخلاق و کردار سے لوگوں کے دلوں میں اسلام کی عظمت بڑھا دی اور اپنی ثابت قدمی اور استقامت سے دشمنوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو اپنے فرشتوں کے ذریعے سے رزق بھی پہنچایا اور ان کے دل کو مضبوطی بھی عطا کی۔ جس گھر میں حضرت خبیبؓ کو قید کر دیا گیا اس گھر کی ایک کنیز ماویہ جو مسلمان ہو چکی تھیں مگر اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں، بیان کرتی ہیں ''میں نے ایک دن کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا تو خبیبؓ کے ہاتھ میں تازہ انگور کا ایک گچھا تھا۔ اتنے موٹے اور خوبصورت انگور میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے اور یہ انگوروں کا موسم بھی نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر میرا دل پکار اٹھا، خدا کی قسم یہ خبیبؓ کی کرامت وعظمت ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اسے رزق بہم پہنچایا گیا ہے۔‘‘(تفصیلات کے لیے دیکھیے طبری جلد دوم ص ۵۴۱، البدایہ و النہایہ جلداول، ص ۷۰۴)
قید ہی کے دوران صاحب مکان کا بچہ کھیلتا ہوا اس کمرے میں داخل ہو گیا جہاں حضرت خبیبؓ کو نظربند کیا گیا تھا۔ اس وقت حضرت خبیبؓ کے پاس استرا تھا۔ بچے کی ماں کو اپنے بچے کا خیال آیا تو وہ گھبرا گئی مگر بچہ بڑے اطمینان سے خبیبؓ کی گود میں کھیل رہا تھا۔ خبیبؓ اس سے کیوں پیار نہ کرتا آخر وہ بچہ مستقبل کا مجاہد اور اسلام کا سپاہی بننے والا تھا۔ خبیبؓ نے ماں کی پریشانی دیکھی تو فرمایا ''تمہیں اپنے بچے کی فکر لاحق ہو گئی ہے، میں اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا کیونکہ میں مسلمان ہوں۔‘‘ گھر کی مالکہ یہ سن کر حیران رہ گئی اور بندہ مومن کے یہ الفاظ اسے زندگی بھر یاد رہے۔ اس مصیبت کی گھڑی میں بھی خبیبؓ مکمل طور پر پر سکون اور مطمئن تھے نہ جھنجھلاہٹ نہ مایوسی۔
دونوں صحابہ کو تنعیم کے مقام پر شہید کیا گیا تھا۔ خبیب کو پھانسی کے لیے لایا گیاتو مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب یہ منظر دیکھنے کے لیے موجود تھے۔ جب ان سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی تو فرمایا مجھے تھوڑی سی مہلت دو کہ میں دو رکعت نفل ادا کر لوں۔ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا ''میرا خدا جانتا ہے کہ میں لمبی نمازیں پڑھا کرتا ہوں اور آج بھی میرے دل میں خواہش تھی کہ آخری نماز لمبے رکوع و سجود اور لمبے قیام و قعدہ کے ساتھ ادا کرتا مگر میں نے جلدی نماز مکمل کر لی کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ میں موت سے ڈر گیا ہوں۔‘‘
جا ںنثارِ رسول نماز سے فارغ ہوا تو تختۂ دار تیار تھا۔ پھانسی کے پھندے کو چومنے کے لیے خبیبؓ تختہ دار کی جانب بڑھے۔ جب تختہ دار پر کھڑے کر دیے گئے تو مجمع عام پر ایک نظر ڈالی۔ کسی شخص کے چہرے پر رحمدلی کے آثار نہیں تھے۔ یہ دیکھ کر خبیبؓ نے کہا ''اے اﷲ! یہاں کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو تیرے رسول تک میرا سلام پہنچا دے۔ پس تو خود ہی میرے آقا کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دے۔ اور جو کچھ ہم پہ گزری اس کی آپؐ کو اطلاع دے دے۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ اس لمحے آنحضورؐ اپنے صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے، آپ کے لب ہلے اور آپ نے فرمایا ''وعلیک السلام‘‘ (ایک روایت میں وعلیکم ا السلام کے الفاظ بھی نقل کیے گئے ہیں جس کا معنی ہے کہ آنحضور نے حضرت زید بن دثنہؓ اور حضرت خبیب بن عدیؓ دونوں کے سلام کا جواب دیا) یہ سلام ربّ کائنات نے جبریلؑ کے ذریعے اپنے حبیبؐ تک پہنچایا۔ صحابہ کرام کے استفسار پر آپ نے اپنے جاںنثاروں پر گزرنے والی قیامت کی تفصیل بتائی اور فرمایا ''خبیب نے مجھے تختۂ دار سے سلام بھیجا ہے۔‘‘
تاریخ اسلام میں خبیب پہلے شہید ہیں جنہیں پھانسی دی گئی۔ خبیب ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے موت سے پہلے دو رکعت نفل ادا کرنے کی سنت قائم کی۔ آنحضورؐ نے اس سنت کو اپنی سنت قرار دیا اور اپنی امت کو تلقین کی کہ جب بھی کسی شخص کو ایسی صورت حال پیش آ جائے تو وہ خبیب کی طرح موت سے پہلے اﷲ کے حضور دو رکعت نفل ادا کرے۔
حضرت خبیبؓ کو پھانسی لگانے سے پہلے تختہ دار پہ کھڑا کرکے چالیس نوجوانوں کو جن کے باپ بدر کے میدان میں قتل ہوئے تھے، نیزے اور تلواریں دی گئیں اور کہا گیا یہ شخص ہے جس نے تمہارے باپوں کو قتل کیا تھا۔ ذرا اسے مزہ چکھاؤ۔ جب ہر جانب سے حضرت خبیب پر حملہ ہوا تو وہ اپنی جگہ ثابت قدمی سے کھڑے رہے اور انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی:
اللّٰھم احصِہم عددًا وَاقْتُلْہم بددا ولا تُغَادِرْ منہم احدا۔ ''اے اﷲ! ان سب کو خوب گن لے اور انہیں پراگندہ کرکے موت کے گھاٹ اتار دے اور ان میں سے کوئی بھی تیری پکڑ سے نہ بچ سکے۔‘‘
ان کے ان الفاظ کو سن کر کافروں پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ ان میں سے بہت سے میدان سے بھاگ نکلے۔ مؤرخ ابن اسحاق معاویہ بن ابوسفیان کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ ابوسفیان کے ساتھ خبیب کے مقتل میں موجود تھے۔ خبیب کی دعا سن کر جب لوگ بھاگے تو ابوسفیان نے انہیں (امیر معاویہ کو) زمین پر لٹا دیا۔ (مشرکین عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ کسی کی بددعا سے بچنے کے لیے زمین پر لیٹ کر اپنے جسم کو خاک آلود کر لیا جائے تو بددعا کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ ابوسفیان کو اپنے بیٹے کے بارے میں سخت فکر لاحق ہوئی کہ کہیں اس پر کوئی وبال نہ آ پڑے)
حضرت خبیب نے اپنے قاتلوں سے تختہ دار پر کھڑے ہو کر یہ مطالبہ کیا کہ انہیں قبلہ رخ کر دیا جائے۔ مگر مشرکین نے ان کا یہ مطالبہ رد کر دیا جس پر آنجناب نے فی البدیہہ نظم کہی جس کے اشعار تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں منقول ہیں۔ اس موقع کے دو اشعار ملاحظہ فرمایئے:
فلست ابالی حین اُقْتَلُ مسلمًا
علی اَیِّ جَنْبٍ کان فی اﷲ مصرعی
و ذلک فی ذات الا لٰہ و ان یشاء
یُبَارِکْ علی او صالِ شلوٍ مُمَزّعٖ
ترجمہ: ''جب میں اﷲ کی راہ میں اس کے مطیع فرمان (بندے) کی حیثیت سے قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے اس بات کی کیا پروا ہے کہ میرا جسم موت کے گھاٹ اترنے کے بعد کس پہلو زمین پر گرے گا۔ یہ ساری قربانی اﷲ کی راہ میں ہے اور اگر وہ ذات بابرکات چاہے تو کٹے ہوئے اعضاء کو بھی بابرکت بنا دے۔‘‘
پوری نظم کا ایک ایک شعر حب الٰہی، عشق رسولؐ اور طلب آخرت کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ شعری اور ادبی لحاظ سے یہ نظم عربی زبان میں نہایت بلند مقام رکھتی ہے۔
تفصیلات کے لیے دیکھیے ابن ہشام ج۲، ص ۱۶۹-۱۷۴، البدایۃ والنہایۃ، ج۱، ص۷۰۳-۷۰۶، ہماری کتاب روشنی کے مینار میں بھی تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔ واقعہ رجیع کو ابن سعد اور بعض دوسرے مؤرخین نے ''سریہ مرثد بن ابی مرثد‘‘ کا عنوان بھی دیا ہے۔ (طبقات ابن سعد، ج۲، ص۵۵-۵۶)
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن!