تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-04-2017

تاریخ کا سبق

یہ ایک کشمکش کا آغاز ہے، طویل عرصے تک جو جاری رہے گی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس قدر فیصلہ کن مراحل کو فقط لیڈروں پر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ 
تمام انحراف بنیادی طور پر علمی ہوتے ہیں۔ تجزیہ غلط ہو جائے تو خرابی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ افراد ہوں یا اقوام، ارضی حقائق کو نظر انداز کر کے خیالات کی جنت جب وہ آباد کر لیتے ہیں۔ جب اس میں وہ رہنے بسنے لگتے ہیں تو یہ زوال کی ابتدا ہوتی ہے۔ پاکستان کے بارے میں بھارتیوں کا بنیادی تصور ہی غلط ہے۔ اوّل دن سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ ان خطوط پہ منصوبہ سازی کرتی رہی کہ ایک دن پکے ہوئے پھل کی طرح پاکستان ان کی گود میں آ گرے گا۔ پاکستانی ملّا اور ملحد کے اندازِ فکر کی حوصلہ افزائی وہ کرتا رہا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد دہلی کا اعتماد آسمان کو چھونے لگا۔ 
پاکستان کے کچھ کٹھ ملا اور بائیں بازو کے بعض بزرجمہر اپنے ہی وطن کے خلاف کیوں استعمال ہوتے ہیں؟ آدمی کا معاملہ عجیب ہے۔ بعض اوقات اپنے تعصبات کا وہ قیدی ہو جاتا ہے۔ یوں تو آدم زاد کی اکثریت اجداد کے عقائد پر جیتی ہے۔ نام نہاد نظریاتی اور انقلابی اور بھی زیادہ بے لچک ہوتے ہیں۔ سوویت یونین مر گیا۔ ربع صدی ہوتی ہے، روس میں سوشلزم کی بساط لپیٹ دی گئی۔ نجی ملکیت کا حق چین میں تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے باوجود تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں وہ لوگ موجود ہیں، کمیونزم کا جو گیت گاتے ہیں۔ اب بھی انہیں یقین ہے کہ انسانیت کی نجات نجی ملکیت کے انکار میں ہے۔ اب بھی وہ گمان کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک دن اپنے بوجھ تلے ڈھے پڑے گا۔۔۔ اور سوشلزم کا سرخ ستارہ طلوع ہو گا۔ منڈی کی معیشت اور سرمایہ دارانہ نظام کی اپنی خامیاں ہیں، بڑی بڑی خامیاں۔ اس کا مطلب مگر یہ کیسے ہوا کہ سوشلزم کو آدمی قبول کرے گا، اس مسترد نظام کو، خوب پرکھنے کے بعد جسے تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا گیا۔ اس کا مگر کیا کیجیے کہ کچھ لوگ ماضی میں زندہ رہتے ہیں۔
بھارتیوں کا مسئلہ یہی ہے۔ بھارت ماتا، اکھنڈ بھارت کا خواب، وہ زریں عہد، ہندوستان جب ایک وسیع و عریض ملک تھا اور ہندوئوں کی اس پر حکومت تھی۔ کب؟ تین ہزار برس پہلے۔ ایران اور مصر میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جو عہدِ رفتہ میں جیتے ہیں۔ چار سال ہوتے ہیں، سرزمینِ فارس کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ زاہدان سے تہران اور تہران سے مشہد تک، ایک بھی مسکراتا ہوا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ کسی بھی غیر ملکی پہ نگاہ پڑتے ہی مگر وہ تن جاتے ہیں۔ حقارت کی نگاہ اس پہ ڈالتے ہیں۔ خود مسلمان بھی ماضی میں زندہ رہتے ہیں۔ ''پدرم سلطان بود‘‘ اور یہ ان کی پسماندگی کا ایک بڑا سبب ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ سے منسوب ہے: دانا وہ ہے، جو اپنے عصر کو جانتا ہو۔ 
کلبھوشن یادیو کے لیے سزائے موت کے اعلان پر بھارتی اگر چیخ رہے ہیں تو یہ قابلِ فہم ہے۔ بہت دنوں سے ہندوستان کے مفکرینِ کرام اور دانشور یہ تاثر دینے میں لگے تھے کہ خطے پہ اب ان کاغلبہ ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کی حیثیت غلاموں کی سی ہے اور پاکستان کے خلاف وہ اس کے ساتھ متحد ہیں۔ دو برس ہوتے ہیں، وزیرِ اعظم مودی کے مشیر اجیت دوول نے ''را‘‘ کے افسروں کو خوش خبری سنائی کہ پاکستان اب دہلی کے رحم و کرم پہ ہے۔ طالبان کو جس طرح چاہیں، وہ استعمال کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کو بالآخر مشرقی پاکستان کی طرح کاٹ پھینکنے میں وہ کامیاب رہیں گے۔ نریندر مودی انہی دنوں بنگلہ دیش گئے اور اعتراف کیا کہ پاکستان کو دو لخت کرنے میں مرکزی کردار ان کا تھا۔
وقت کا دھارا ایک اور سمت میں بہہ رہا تھا۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار، ایم کیو ایم تباہی کے راستے پر گامزن تھی۔ کراچی میں رینجرز کی شاندار کامیابیوں نے الطاف حسین کو پاگل کر دیا۔ سیاسی طور پہ انہوں نے خود کشی کر لی۔ فاروق ستار کی قیادت میں یہ پارٹی خواہ اتنی ہی سیٹیں جیت لے، ہمیشہ اس کا رویّہ معذرت خواہانہ رہے گا۔ ہمیشہ اپنی حبِ الوطنی کے ثبوت پیش کرنے پر وہ مجبور رہے گی۔ آبادی کے تمام دوسرے گروہوں، سندھیوں، پنجابیوں، پشتونوں، بلوچوں، کشمیریوں، کوہستانیوں اور چترالیوں میں ذہنی تحفظات باقی رہیں گے۔ ہوش مند مہاجروں میں بھی، جن کی قیادت مصطفی کمال کے ہاتھ میں ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ جن کی قوت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پاک فوج کی شاندار حکمتِ عملی کا نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک پسپا ہو گئی۔ اتنی کمزور کہ ابھر نہیں سکتی۔ بھارت نے بے پناہ سرمایہ کاری کی، افغانستان میں فراریوں کو تربیت دی گئی۔ ظاہر ہے کہ امریکہ بہادر کی آشیرباد سے۔ برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے غدّار بلوچ لیڈروں کو پناہ دی۔ دستِ الفت نے اپنا کرشمہ دکھایا۔ جنرل ناصر جنجوعہ کی نرم روی نے وہ کام کر دکھایا، جنرل اعظم جو مشرقی پاکستان میں کرنا چاہتے تھے اور کر نہ سکے تھے۔ 
دہشت گردی کم سے کمتر ہوتی جا رہی ہے۔ کراچی ہی نہیں، قبائلی پٹی میں بھی۔ پاک افغان سرحد پہ باڑ لگانے کا فیصلہ ہو چکا۔ کئی مقامات پہ خندقیں کھودی جا چکیں۔ اس عمل کی تکمیل کے ساتھ امن کی بحالی اور بھی زیادہ سہولت، اور بھی زیادہ تیز رفتاری سے ممکن ہو گی۔ اس کے باوجود کہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں سول قیادت ناکام رہی۔ اسی شدّ و مد سے کرپشن کا سلسلہ جاری رہا، بدلتے ہوئے داخلی اور عالمی حالات نے پاکستانی معیشت میں نمو کے امکانات کو جنم دیا ہے۔ دوسرے عوامل کے علاوہ چین کے جنوبی سمندروں میں عالمی کشمکش نے پاک چین تجارتی راہداری کے ثمر خیز ہونے کا امکان بڑھا دیا۔ انسانی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو گا کہ ایک پڑوسی ملک کی معاشی مجبوریوں نے دوسری سرزمین پر منفعت کے دروازے اسی طرح چوپٹ کھول دیے ہوں۔ 
پاکستان پہ اللہ مہربان ہے۔ اس کا میزائل اور ایٹمی پروگرام حریف سے بہتر ہے۔ اس کی مسلّح افواج اور بھی زیادہ۔ فوجی قوت کے بل پر دشمن ہمیں زیر نہیںکر سکتا۔ ایک تخریب کاری کا حربہ تھا، وہ بھی انشاء اللہ ناکام ہو گا۔ کلبھوشن یادیو کو پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ محض ایک قانونی اقدام نہیں۔ محض پاکستان کی اخلاقی فتح کا مظہر ہی نہیں، بھارت کی نفسیاتی بالاتری تمام کرنے کے عمل کا آغاز ہے۔ آخری تجزیے میں جو تاریخ ساز ثابت ہو سکتا ہے۔ 
افواہوں کا بازار گرم ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیا گیا تھا؛ حالانکہ سرعام پاکستانی شہریوں کو اس نے قتل کر ڈالا تھا۔ سیاسی ہی نہیں، عسکری قیادت نے بھی ہتھیار ڈال دیے تھے۔ بھارت مگر امریکہ نہیں۔ اس قدر دبائو دہلی نہیں ڈال سکتا۔ سرجیکل سٹرائیکس کے اس کے عزائم اور دعوے پہلے ہی خاک میں ملائے جا چکے۔ سول قیادت سے مگر اندیشے لاحق ہیں۔ چھ سات ماہ کا عرصہ ضائع کر دیا گیا۔ ایک کلبھوشن یادیو ہی کیا، وزیرِ اعظم نے کشمیر پر عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت بھی کبھی محسوس نہ کی۔ کہنے کو وہ ایک عظیم مدبر ہیں۔ عملی طور پہ مگر اپنی ذات، اپنا خاندان ہی عزیز ہے، ملک اور قوم کا مستقبل نہیں۔ 
یہ ایک کشمکش کا آغاز ہے، طویل عرصے تک جو جاری رہے گی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس قدر فیصلہ کن مراحل کو فقط لیڈروں پر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved