تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-04-2017

ٹوٹے اور سعود عثمانی کی شاعری

افترا ہے‘ جھوٹ ہے‘ بہتان ہے‘ الزام ہے
اخباری اطلاع کے مطابق سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور سرجیکل آلات کی خریداری میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی خبریں بلا ناغہ چھپا کرتی ہیں اور حکومت ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتی کہ ان جھوٹی خبروں کے قلع قمع کی کوئی صورت نکل سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑ دینے کے بیانات کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی کیونکہ کرپشن کو اگر جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہو تو اس کا وجود کیسے باقی رہ سکتا ہے ۔ افسوس تو ان اخبارات پر ہے جو آئے دن اس طرح کی من گھڑت خبریں شائع کرتے ہیںاور انہیں حکومتی عنایات کا بھی کوئی خیال نہیں آتا۔ مزید افسوس ناک اور بے حسی کا مظہر یہ ہے کہ حکومت ایسے بیانات کی مذمت تک نہیں کرتی آخر ہمارا کیا بنے گا؟
پنجاب میں نئے آئی جی کی تلاش
آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا ریٹائر ہو گئے اور اخباری اطلاع کے مطابق نئے آئی جی کے لیے تلاش شروع کر دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں سنیارٹی کی بنیاد پر تقرری کا رواج ہی نہیں ہے۔ اس لیے ایسے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں حالانکہ حکومت کو جس قسم کا آئی جی درکار ہے ایسے افسران کی فہرست اس کے پاس پہلے سے موجود رہنی چاہیے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سارے افسر ہی ایک جیسے ہیں جیسا کہ حکومت نے انہیں بنا رکھا ہے تو یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں تھا اور یہ کام پرچی نکال کر بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ نیکو کارا واحد آدمی تھا جو دوسروں سے مخلص تھا اور جو اپنے انجام کو پہنچا دیا گیا۔ اول تو کراچی سے حکومت اپنے محبوب آئی جی اے ڈی خواجہ کو یہاں لا سکتی ہے جس پر حکومت نے اتنا سٹینڈ لے رکھا ہے تاکہ کراچی والے بھی اپنی من مرضی کا آئی جی تعینات کر سکیں اور پنجاب ہی کی طرح حکومت چلا سکیں!
احتیاط! احتیاط! احتیاط
اب تو ایک بیان میں وزیر قانون پنجاب جیسے ذمہ دار شخص رانا ثناء اللہ خاں نے کہہ دیا بعض غیر مقبول سیاسی فیصلے قبول نہیں کرتے۔ اگرچہ حکومت تو بار بار کہہ چکی ہے کہ پانامہ کیس میں جو بھی فیصلہ آیا‘ قبول کیا جائے گالیکن سوال تو صرف عوام کا ہے‘ وہی اگر قبول نہ کریں گے تو حکومت بے چاری کیا کر سکتی ہے بے شک حکومت اس وقت غیر موجود ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی غیر مقبول فیصلے پر عوام اگر احتجاج وغیرہ شروع کر دیں تو اس سیلاب کے آگے کوئی بند کیسے باندھا جا سکتا ہے۔کیا اسی کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ کرتے وقت اس کے انجام و عواقب کا بھی خیال رکھا جائے اور اپنے نفع و نقصان کا بھی؟۔ نیز عدلیہ کو رانا صاحب کا مشکور و ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے ممکنہ حالات کی صاف نشاندہی کر دی یعنی ع
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
قابلِ ذکر حصہ!
لیجیے جناب اب تو خود وزیر اعظم نے بھی ایک اعترافی بیان میں کہہ دیا ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف کا انسدادِ دہشت گردی میں قابلِ ذکر حصہ ہے نیز انہوں نے اپنے وزراء کو بھی ہدایت کر دی ہے کہ اس موضوع پر کوئی بات نہ کی جائے اور گورنر سندھ نے جو کچھ کہا تھا اور مختلف وزرائے کرام نے اس پر اپنی رائے کا جو جو اظہار کیا تھا اُسے بھی رخت گزشت سمجھا جائے اور اسی کو کافی سمجھا جائے کہ اپنے دلی جذبات کے اظہار پر جمہوریت کے اس سنہری زمانے میں کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی چونکہ جنرل صاحب ریٹائر ہو چکے ہیں اس لیے ایک طرح سے وہ عام آدمی ہی ہیں بلکہ وہ جرنیل بھی عام ہی تھے کیونکہ خود انہوں نے خاص جرنیل ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا اس لیے گورنر سندھ کے بیان پر جنرل صاحب کو بھی بُرا نہیں ماننا چاہیے جب کہ منکسر المزاجی ایک نہایت پسندیدہ رویّہ ہے۔
سعودی عثمانی
سعودؔ عثمانی کے چند اشعار ہمیں موصول ہوئے ہیں اس سوغات سے آپ بھی لطف اندوز ہوں:
دُنیا سب آزمائی ہوئی ہے فقیر کی
دیکھی ہوئی‘ دکھائی ہوئی ہے فقیر کی
یہ زندگی ہے رات کی روٹی کا ذائقہ
روٹی بھی وہ جو کھائی ہوئی ہے فقیر کی
درویشِ خوش لباس و غنی دست سے بھی مل 
گدڑی میں کب سمائی ہوئی ہے فقیر کی
بہروپئے! فقیر سے کیا واسطہ ترا
یہ شکل کیوں بنائی ہوئی ہے فقیر کی
حُجرے کا یہ جراغ بھڑکتا ہے بار بار
اچھا تو آج آئی ہوئی ہے فقیر کی
کوزے میں آبِ تازہ‘ چنگیری میں نانِ خشک
دُنیا سے کیا رہائی ہوئی ہے فقیر کی!
آج کامقطع
آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے گزر جائیے‘ ظفر
ہوتا ہے اس نواح میں کیا کیا‘ نہ دیکھیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved