تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-04-2017

اندھیرے والا

حیرت انگیز طور پر صرف قدیم افریقی زبان میں یہ واقعہ درج ہے ۔ کس زمانے کی یہ داستان ہے ، یہ معلوم نہیں لیکن سب سے پہلے افریقہ ہی میں انسان پیدا ہوا تھا۔ طویل زمانے تک یہیں وہ آباد رہا ؛حتیٰ کہ ایشیا ، یورپ اور دیگر برِ اعظموں کی طرف اس نے ہجرت کی ۔ ہوا یہ کہ شیطان نے ایک انسانی بچّہ اغوا کیا ۔ اس کامنصوبہ یہ تھا کہ پیدائش سے موت تک ، اس بچّے کی زندگی مکمل طور پر لا علمی میں گزرے ۔ اس دوران اسے وہ اسباق پڑھائے جائیں ، جس سے شیطان کے لیے اس کے دل میں ہمدردی اور خود انسان کے لیے نفرت پیدا ہو ۔ ا س بات پر وہ ایمان لے آئے کہ ابلیس کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے ۔ یوں اپنے دشمن کی زبان سے اپنے حق میں گواہی لے کر وہ ایک انوکھی مسرت سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ شیطان کی چال کس قدر بھیانک ہوتی ہے ، یہ ہم سب جانتے ہیں ۔ 
انسانی بچہ ، بعد میں جو ''اندھیرے والا ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ، کی ساری زندگی زیرِ زمین مکمل طور پر گھپ اندھیرے میں بسر ہوئی ۔ ساری زندگی شیطان کے سوا کبھی کسی سے اس کا واسطہ نہیں پڑا۔ وہ اسی کو اپنی ماں اور اسی کو باپ سمجھتا تھابلکہ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ماں اور باپ دو الگ ہستیاں ہوتی ہیں۔ شیطان نے اسے اپنی مظلومیت کی بہت سی داستانیں سنائی تھیں ۔ اسے یہ بتایا تھا کہ اہل میں تھا، حق تو میرا تھا ، خدا نے دو ٹانگوں پر چلنے والے جاندار کو چن لیا، خلافت اسے سونپ دی۔ابلیسیت کی انتہا یہ کہ اندھیرے والے بچّے کو شیطان نے یقین دلا دیا تھا کہ وہ دو ٹانگوں والا نہیں بلکہ چار ٹانگوں والا ہے ۔ زیرِ زمین جس عمارت میںاسے رکھا گیا تھا، اس کی چھت صرف اڑھائی فٹ اونچی تھی ۔ یوں اسے کبھی سیدھا کھڑا ہونے کا موقع ہی نہیں ملا بلکہ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ دو ٹانگوں پر سیدھا کھڑا ہو سکتاہے ۔ 
شیطان نے اسے یہ بتایا تھا کہ جس طرح کی جگہ پروہ زندگی گزار رہا ہے ، کائنات بس اسی طرح کی ہے ۔ بہت بڑے فاصلوں پر اسی طرح زیرِ زمین پناہ گاہیں ہیں ،جن میں اسی طرح سے لوگ زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس بات کا مقصد یہ تھا کہ تخلیق کرنے والے کے خلاف اس کے دل میں جذبات بھڑک اٹھیں کہ یہ کیسی کائنات اس نے بنائی ہے ۔ شیطان یہ بھول گیا تھا کہ خدا جب تک کسی کو ہدایت کا پیغام نہ پہنچا دے، تب تک اس پہ حکم لگاتا ہی نہیں ۔ دوسری طرف اندھیرے والا آخرکو انسان تھا ، جس کے دماغ میں بے انتہا تجسس خدا نے تخلیق کیا تھا۔ ہوا یہ کہ ایک دن جب ابلیس واپس گیا تو تالا لگانا بھول گیا۔ اس روزتیز ہوائیں چلیں ، دروازہ ذرا سا کھل گیا۔ روشنی کی ایک کرن زیرِ زمین اتری اور اندھیرے والے پر پڑنے لگی۔ ٹانگوں اور بازوئوں پر چلتا ہوا، وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا اور پھر اس نے پہلا قدم باہر رکھا ۔ اس نے کبھی روشنی کو دیکھا تک نہیں تھا اور یوں پہلی بار اچانک جب اس کا واسطہ پڑا تو اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا ۔ وہ کئی گھنٹے آنکھیں بند کیے بکری کے بچّے کی طرح بیٹھا رہا۔ 
بالآخر اس نے آنکھیں کھولیں ۔اس کے سامنے دو پہاڑ تھے ۔ مکمل طور پر سرسبز درختوں سے ڈھکے ہوئے ۔ ان میں سے بہت سوں پر سرخ اور نیلے پھول کھلے تھے ۔خوشی اور حیرت سے وہ مبہوت ہو گیا۔ پہلی بار اس نے پانی دیکھا ۔ آبشار کی صورت گرتے ہوئے ،چشمے کی صورت پھوٹتے ہوئے اور ندی کی صورت بہتے ہوئے ۔ بلّی کا ایک بچہ کہیں سے بھاگتا ہوا آیا اور اندھیرے والے کے جسم سے اپنا سر رگڑنے لگا۔ یہ اس قدر خوبصورت اور نرم و نازک لمس تھا، ساری زندگی وہ جس سے محروم رہا تھا۔ خوشی کی شدت میں ، وہ رونے لگا۔ بلی کے بعد تتلی آئی اور اس کے ہاتھ پر بیٹھ گئی ۔ پہلی بار اس نے کوئل کی آواز سنی تو حیران رہ گیا۔ اس سے پہلے اس نے صرف شیطان کی چیختی ہوئی مکروہ آواز ہی سن رکھی تھی ۔ 
پہلی بار اندھیرے والے نے جانوروں کو دیکھا ۔ وہ چار ٹانگوں پہ چل رہے تھے ۔سب اپنے آپ میں محو ، غمگین کوئی بھی نہ تھا۔ جب چمپینزی کو اس نے دو ٹانگوں پر چلتے دیکھا ایک بار ڈر گیا۔ وہ یہ سمجھا کہ دشمن آگیا ہے لیکن پھر جب اس نے خود اپنا جائزہ لیا اورکئی گھنٹے کی مشقت کے بعد جب خود وہ دو ٹانگوں پر کھڑا ہوا تو یہ خوف ختم ہو گیا ۔ 
اندھیرے والے نے سر اٹھایا ۔ دور ہر انتہا تک نیلا آسمان پھیلا ہوا تھا ۔ درمیان میں سفید بادل تھے ، کہیں کہیں جو سورج کی روشنی منعکس کرتے ہوئے سرخ ہو رہے تھے ۔ خوشی سے وہ تالیاں پیٹنے لگا ۔اس کے بعد جو ہوا، وہ اندھیرے والے کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ رنگا رنگ پروں والا ایک مور وہاں آٹپکا، پر پھیلائے ، وہ ناچنے لگا۔مور ناچا تو ساتھ اندھیرے والا بھی ناچنے لگا۔ 
سورج غروب ہوا لیکن چاند نکلا اور وہ بھرپور جوبن پر تھا۔ مطلع صاف تھا ،قطبی ستارے کی رہنمائی میں ستارے جھلملا رہے تھے ۔ ہلکی خوشگوار ہوا اس دوران پانی کی طرح بہتی رہی ۔ وہ دیکھتا رہا، سوچتا رہا۔ اس بات میں شک و شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی کہ ساری زندگی اسے دھوکے میں رکھا گیا تھا۔ تخلیق کرنے والے کی عظمت اس پہ ظاہر ہو چکی تھی ۔ فطرت کے مناظر دیکھتے ہوئے، ابتدائی سرمستی کے عالم سے وہ نکل آیا تھا اور مسلسل غور و فکر کر رہا تھا۔ اس غور و فکر کے لیے کافی ڈیٹا اب اس کے پاس موجود تھا ۔ بلی کا وہ بچّہ اب ذرا فاصلے پر اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا ۔ 
کہا جاتا ہے کہ یہ صبح کا وقت تھا ، جب شیطان واپس آیا۔اس کی آمد سے پہلے ہی اندھیرے والا سورج طلوع ہوتے دیکھ چکا تھا۔ پہاڑوں کے دامن میں ، رنگا رنگ پھولوں ، چشموں ، بلیوں اور چڑیوں کی موجودگی میں صبح کا منظر کیسا ہو سکتاہے اور وہ بھی اس شخص کے لیے ، جس نے ساری زندگی ایک قید خانے میں گزاری ہو، اس کا تصور ہی کیا جا سکتاہے ۔ کہا جاتا ہے کہ صرف 17گھنٹوں کے اس سفر میں ، اندھیرے والا ایمان لا چکا تھا، اس ہستی پر جس نے یہ سب بنایا۔ رہا وہ سب جھوٹ ، جو شیطان خدا کے بارے میں بولتا رہا ، اس کی حقیقت اس پہ کھل چکی تھی ۔ اندھیرے والے کو عبادت کا طریقہ نہیں آتا تھا لیکن زمین پر لیٹ کر اپنے تئیں وہ ایک ادھورا سا سجدہ کر رہاتھا، جب شیطان وہاں پہنچا ۔ اس نے یہ سب دیکھا اور یہ کہتے ہوئے لوٹ آیا : یہ آدم زاد بڑے ہی احسان فراموش ہوتے ہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved