تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     14-04-2017

عالمگیرخاندان کی واپسی !

صولت مرزا، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور عاصم حسین کے خوفناک انکشافات ، ایان علی ، شرجیل میمن کی دبنگ انٹری کے بعد اب پیش خدمت ہے عزیر بلوچ ۔ تاہم اس سارے کھیل میں آپ کہیں پیپلز پارٹی کی سابق وزیر عاصمہ ارباب عالمگیر اور ان کے خاوند ارباب عالمگیر کو نہ بھول جائیں جو لندن میں چینی کنٹریکٹرز سے بنکاک میں وصول کیے گئے پچیس لاکھ ڈالرز سے جائیدادیں خریدنے اورمحفوظ کرنے کے بعد ایک فاتح جنگجو کی طرح وکٹری کے نشانات بناتے بہت جلد وطن لوٹ رہے ہیں ۔ 
اس سے پہلے ہر کوئی پوچھ رہا تھا جناب عزیر بلوچ کا کیا بنا؟ کہاں گم ہوگیا تھا؟ دوبئی بھاگ گیا تھا ۔ پھر دوبئی سے پکڑ کر لایا گیا۔ ہمیں کہانیاں سنائی گئیں کہ وہ باہر نکلے گا تو تباہی لائے گا۔ زرداری کی تو بالکل خیر نہیں ہے۔ 
ایک دن خبر آئی وہ پکڑے گئے ہیں۔ پھر اس کی ویڈیوز باہر آنا شروع ہوگئیں کہ پیپلز پارٹی کے کون کون سے ارکان اسمبلی سے وہ اپنی وفاداری کا حلف لے رہے تھے۔ کون کون ان کے گھر ضیافتوں میں شریک تھا ۔ ایک عام نوجوان نے طاقتور ترین انسانوںکو یرغمال بنا لیا تھا ۔ ہر ایک سیاستدان کو ایک بدمعاش کی ضرورت تھی جو عزیر بلوچ پوری کر سکتا تھا ۔ 
عزیر بلوچ مجھے ہالی ووڈ کی ایکشن فلم American gangster کا کردار لگا...یا پھر ماریو پزو کے کسی ناول میں مافیا کا سربراہ جہاں سیاستدان، صحافی، بیوروکریٹس، پولیس ، سب ڈان کے دربار میں حاضری دیتے تھے جہاں ڈان یاگاڈ فادر سے ذاتی وفاداری ہی سب سے اہم تھی۔ مافیا کی دنیا میں دو ہی چیزیں اہم ہوتی ہیں ۔ ذاتی وفاداری اور غداری کی سزا موت۔ مر جائو لیکن زبان نہ کھولو۔ اٹلی میں مافیا نے اس کچلر کو Omerta کا نام دیا تھا ۔ جو مافیا کے صدیوں پرانے اس کوڈ کی خلاف ورزی کرتا ہے، اس کی سزا موت ہوتی ہے۔ 
ویسے یہ بھی عجیب بات ہے جو انسان جتنا اوپر جاتا ہے وہ اتنی ہی تیزی سے نیچے گرتا ہے، یہ کائنات کا اصول ہے جسے ہم عام زبان میں کشش ثقل یا انگریزی میں gravity کہتے ہیں کہ اونچائی پر رکھی چیز تیز رفتاری اور دھماکے سے نیچے گرتی ہے اور بہت سارا نقصان اپنے اردگرد کی چیزوں یا انسانوں کا بھی کرتی ہے۔ 
وہ عزیر بلوچ جو کبھی پیپلز پارٹی کے بڑوں کا لاڈلا تھا آج سب اس سے دور بھاگ گئے ہیں ۔ وہ نیچے گرا پڑا کراہ رہا ہے۔ 
لاڈلا سے میرے جیسے سب رنگ کے عاشقوں کو شکیل عادل زادہ کے بازی گر کا بابر زماں یاد آجاتا ہے۔ لیاری کا یہ لاڈلا اس لیے مارا گیا کہ شاید اس کے گاڈ فادر کردار بٹھل نے اسے چھوڑ دیا تھا یا پھر یہ لاڈلا کچھ زیادہ ہی اونچی اڑان اڑنے لگ گیا تھا کہ اپنے بٹھل سے ٹکر لے بیٹھا تھا ۔
ہم لوئر مڈل کلاس کے لوگ کسی بھی بڑے اور مشہور آدمی کے ساتھ چند دن گپ شپ لگا لیں تو اپنی اوقات بہت جلد بھول جاتے ہیں اور زیادہ ہی اونچی اڑان اڑنے لگ گیا تھا ۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جس سطح پر پیپلز پارٹی نے جا کر ایان علی اور عاصم حسین یا شرجیل میمن کا مقدمہ لڑا ہے اور اس کے لیے ہر ادارے سے لڑنے مرنے کو تیار ہو گئی تھی ،وہ اب اپنے پرانے لاڈلے عزیز بلوچ کے لیے بھی لڑے گی؟ زرداری صاحب عزیر بلوچ کے لیے بھی پریس کانفرنس میں پرانی دھمکی دہرائیں گے ''آپ نے تین برس رہنا ہے اور ہم نے تاقیامت، اگر اپ نہ رکے تو پھر اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے؟‘‘ یا پھر وقت آگیا ہے کہ کشتی پر جو بوجھ بن گیا تھا اس سے چھٹکارہ پالیا جائے؟ مافیاسٹائل میں ان کو خاموش کردیا جائے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے پیپلز پارٹی اپنے لاڈلے کے لیے سٹینڈ کیوں نہیں لے رہی؟
کیا اس لاڈلے کے بیانات کی روشنی میں اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے طاقتور لوگوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے گا یا پھر صولت مرزا کا سا انجام ہوگا؟ ایک رات مرزا کی اعترافی بیان کی ویڈیو بنالو،اپنے قابل بھروسہ ٹی وی چینل پر چلوا دو اور پورے ملک میں رات گئے ہنگامہ مچانے کے بعد کسی رات خاموشی سے پھانسی پر لٹکا دو۔ جن بڑے بڑے اہم لوگوں کے بارے میں خوفناک انکشافات کیے گئے ہوں انہیںبالکل ہاتھ نہ لگائو۔ انہیں اپنا کانا کر کے رکھو۔ کسی وقت وہ کام آئیں گے...اس دوران کوئی نیا پنچھی پکڑ لو۔ 
جیسے عاصم حسین کو پکڑا تھا ۔ اس کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائو، سب کچا چٹھا کھول دو۔ وہ رپورٹ میڈیا میں لیک کردو۔ کچھ دن شور شرابا ہونے دو، پھر صولت مرزا کی طرز پر عاصم حسین کی بھی اعترافی ویڈیو چینلز پر چلا دو اور پھر چند روز اسے دبائو پر ہسپتال منتقل کر دواور پھر مکمل آزادی ...! پھر کوئی نیا شکار پکڑ لو اور وہی کچھ دہرائو جو صولت مرزا اور عاصم حسین کے ساتھ ہوا۔ 
صولت مرزا اس لیے مارا گیا کہ اس کے پیچھے اتنے طاقتور لوگ نہیں تھے جو خوش قسمتی سے عاصم حسین کو مل گئے تھے۔ ایک پھانسی پر لٹک گیا ،دوسرا دہشت گردوں کا علاج کرانے کے باوجود باعزت باہر لایا گیا اور پروٹوکول لے کروکٹری کے نشانات بنا کر ہنستا مسکراتا گھر چلا گیا۔ 
اب اور سنیں ۔ پیپلز پارٹی کے وزیر میاں بیوی ارباب عالمگیر اور عاصمہ ارباب عالمگیر تین سال لندن میں رہنے کے بعد لوٹ رہے ہیں۔ عاصمہ ارباب کی کہانی سے پتہ چلتا ہے پاکستانی ایلیٹ کس حد تک لوٹ مار میں ملوث ہوچکی ہے۔ میرے پاس موجود دستاویزات میں جو انکشافات ہیں وہ پڑھ کر حیران ہوجاتا ہوں۔ جب وہ وزیر تھیں تو اس وقت دو ہزار بارہ میں بنکاک میں ایک بینک میں پانچ پانچ لاکھ ڈالرز کے پانچ ڈرافٹ جمع کرائے گئے جو عاصمہ ارباب نے دوبئی میں اسی بینک کی برانچ سے نکلوائے۔ یہ دراصل ایک چینی کمپنی کو دیئے گئے ٹھیکے کا کمشن تھا کیونکہ ارباب عالمگیر مواصلات کے وزیر تھے ۔ تین ماہ بعد دو ہزار تیرہ میں لندن میں پندرہ لاکھ ڈالر سے ایک بلڈنگ میں فلیٹس خریدے گئے۔ میں نے یہ اسٹوری بریک کی تو موصوفہ میرے ٹی وی شو میں مکر گئیں بلکہ یہاں تک پیش کش کی اگر میں ان کے لندن فلیٹس کی ملکیت ثابت کردوں تو وہ چاروں فلیٹس میرے اور میرے کولیگ عامر متین کے نام کر دیں گی۔ میں نے لندن میں اپنے ذرائع کے ذریعے عاصمہ ارباب کے چاروں فلیٹس کی ان کے نام پر رجسٹری کی دستاویزات نکلوا لیں اور اپنے شو میں دکھا کر عاصمہ ارباب کو دعوت دی کہ وہ اب اپنا موقف دیں۔ انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ یہ دو سال پہلے کہ بات ہے۔ اس کے بعد انہوں نے میرا فون سننا بند کردیا ۔ 
اب وہ بھی شرجیل میمن کی دبنگ انٹری سے حوصلہ پا کر پاکستان لوٹ رہی ہیں۔ انہوں نے بھی عدالت سے حفاظتی ضمانت لے لی ہے۔ اب دیکھیے گا یہ سب کچھ بدل جائے گا ۔ پاکستان کی کرپٹ ایلیٹ کے کئی موسم ہوتے ہیں۔ ایک موسم وہ پاکستان میں لوٹ مار کرتے ہیں، دوسرا موسم لندن اور جدہ میں جلاوطنی کا شروع ہوتا ہے جہاں جائیدادیں خریدنے کے بعد مظلومیت کے رونے رئوے جاتے ہیں۔ پھر تیسرا موسم پاکستان کے عوام کو یہ یقین دلانے کا ہوتا ہے کہ اب انہوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھ لیا ہے اور اب کی دفعہ وہ ملک کو بدل کر رکھ دیں گے۔ اپنے اس جھوٹ میں وزن پیدا کرنے کے لیے وہ چارٹر آف ڈیموکریسی پر بھی دستخط کرتے ہیں اور پھر چوتھا سیزن ...جہاں یہ سب پاکستان لوٹ کر وہیں سے کام شروع کرتے ہیں جہاں سے چھوڑ کر گئے تھے۔
اب ایک پانچواں موسم شروع ہے... جو پاکستان سے دولت لوٹ کر لندن دوبئی بھاگ گئے تھے وہ لوٹ کر عدالتوں سے حفاظتی ضمانتیں کراکے نیب کے ساتھ ملی بھگت سے دوبارہ ہمارے مالک بنیں گے۔ کچھ دنوں بعد وہ ٹی وی چینل پر بیٹھ کر جمہوریت اور گڈ گورننس پر لیکچر دے رہے ہوں گے ۔
جہاں عاصم حسین ، ایان علی، شرجیل میمن کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکا وہاں عاصمہ ارباب عالمگیر اور ان کے شوہر کا کیا بگڑ ے گا ۔ باقی اس صلح صفائی کے کھیل میں میرے اور عامر متین کے لندن کے چار فلیٹس مارے گئے ہیں ۔ 
اپنے وعدے سے مکرنے والی عاصمہ ارباب عالمگیر صاحبہ کے لیے اردو غزل کے بڑے شاعر ظفراقبال کا ایک شعر عرض ہے۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
جو لوگ تاریخ کے مطالعے میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کے لیے یہ بات ہرگز حیراں کن نہ ہوگی کہ کچھ عرصہ سکون کے بعد جنگ و جدل ہونا ایک فطری عمل بن چکا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved