ندامت کی طرف؟
ایک اطلاع کے مطابق میٹرو ٹرین منصوبے کا 75فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور حکومت ابھی تک عدالت کو مطمئن نہیں کر سکی کہ اس کی لرزش سے قدیمی عمارات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ظاہر ہے کہ اب تک اس پر اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں اور اگر عدالت بالآخر اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس سے ان ثقافتی ورثوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اور اگر کوئی دوسرا روٹ اختیار کیا گیا تو اس کے لیے ارب ہا روپے مزید درکار ہوں گے اور اگر اس منصوبے کو ختم بھی کرنا پڑتا ہے تو ان اربوں روپوں کی تو کوئی بات نہیں کیونکہ اس کے علاوہ بھی ناقص منصوبوں پر کثیر رقوم ضائع کی جا رہی ہیں‘ سوال تو وزیر اعلیٰ پنجاب کے جذبات کا ہے جنہیں زبردست ٹھیس پہنچے گی اور جس کا پہلا ردعمل یہ ہو گا ک موصوف اپنی تقریروں کے دوران بھرّائی ہوئی آواز میں زیادہ شعر پڑھنا شروع کر دیں گے اور یہ اشعار رفتہ رفتہ بے وزن بھی زیادہ ہوتے جائیں گے۔
عدلیہ کے اس بارے نظریات سر آنکھوں پر لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان کھنڈر نما عمارتوں کو اتنی قیمت پر بچا کر ندامت اور ماضی پرستی کا ثبوت نہیں دے رہے؟ جبکہ زمانہ مستقبل کی طرف بڑھنے کا ہے۔ آخر ان کھنڈرات کو مسمار کر کے ان کی جگہ پلازے کیوں نہیں کھڑے کیے جا سکتے تاکہ کاروبار میں فراوانی ہو اور تاجر طبقے کے لیے بھی کچھ سہولت پیدا ہو سکے اور اگر ان ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کاوجود اتنا ہی ضروری ہے تو انہیں گرا کر نئے سرے سے کیوں تعمیر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر پرانی انارکلی کے ساتھ ساتھ نئی انارکلی بھی چل رہی ہے اور پرانے لاہور کے ہمراہ نیا لاہور بھی موجود ہے تو نئی چوبرجی ‘ نیا شالیمار باغ او نیا جی پی او کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ بلکہ ان نئی عمارات کو دیکھنے کے لیے نسبتاً زیادہ لوگ آیا کریں گے بلکہ ان کی خوبصورتی میں کئی طریقوں سے اضافہ ہو سکتا ہے مثلاً چوبرجی کی جگہ پانچ برجی تعمیر کی جا سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دنیا ترقی کی طرف جا رہی ہے اور ہم لکیر کے فقیر بنے بیٹھے ہیں‘ آخر ہمارا کیا بنے گا؟
ایک تجویز
ایک اور اطلاع کے مطابق پی ٹی آئی نے سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کے خلاف پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کے لیے قرار داد جمع کرا دی ہے۔ دراصل تو یہ حکومت ہی کے نقطۂ نظر کی ترجمانی لگتی ہے کیونکہ اس نے بھی جنرل راحیل شریف کی سروس میں سربراہی کو دل پر پتھر رکھ کر ہی قبول کیا تھا اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ جنرل مذکور کی ملک کے اندر اور باہر ضرورت سے زیادہ مقبولیت ہی چلی آ رہی ہے جس پر گورنر سندھ نے بھی اگلے روز کُھل کر اظہار خیال کیا تھا اور کچھ دیگر وزرائے کرام نے بھی اس میں حصہ ڈالا تھا ۔ اس کے علاوہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے یہ بھی کہا ہے کہ ابھی تک این او سی کے لیے جنرل صاحب نے حکومت کو درخواست نہیں دی ۔ چنانچہ اس موضوع پر مزید بدمزدگی پیدا ہونے سے پہلے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اس فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے حکومت کسی اور ریٹائرڈ جرنیل کی خدمات پیش کر دے جبکہ جنرل (ر) کیانی اس کے لیے بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں۔
فیصلے میں تاخیر
جوں جوں پانامہ کیس کے فیصلے میں تاخیر ہو رہی ہے ایک تو حکمرانوں کا خون اتنی ہی تیزی سے خشک ہو رہا ہے جس رفتار سے ملک میں ترقی ہو رہی ہے یا جس ذوق و شوق کے ساتھ کرپشن اور اقرباء پروری کے بُت پاش پاش کیے جا رہے ہیں اور اتنی ہی تیزی سے حکمران لیگ کے لوگ ق لیگ وغیرہ میں شمولیت اختیارکرتے چلے جا رہے ہیں اور اگر اس فیصلے میں ایک ماہ کی بھی مزید تاخیر ہو جاتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ میں میاں برادران کے علاوہ صرف وزرائے کرام اور ارکان اسمبلی ہی باقی رہ جائیں گے حالانکہ اس تاخیر پر پہلے پہل حکمرانوں نے ایک طرح سے سکھ کا سانس ہی لیا تھا جو اب رفتہ رفتہ دکھ کے سانس میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ جہاں ہر کوئی بشمول حکومت‘ عدلیہ کے ہر فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان کر رہا ہے وہاں ہمارے کرم فرما رانا ثناء اللہ جیسے ذمہ دار حضرات مخالف فیصلے کے نتائج و طوالت سے بھی عدلیہ کو مطلع کرتے رہتے ہیں۔
ایک مخولیہ خبر
ایک اور مضحکہ خیز خبر یہ بھی شائع ہوئی ہے کہ سندھ کی ایک بڑی درسگاہ میں بدترین مالی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے جس کے مطابق کروڑوں کی گرانٹ دو سال تک انتظامیہ کے سرکردہ افراد کے اکائونٹ میں جمع ہوتی رہی جبکہ یومیہ لاکھوں نقد بھی نکلوائے جاتے رہے۔ حیرت ہے کہ جب کرپشن کے بُت توڑے جا چکے ہیں تو اس طرح کی وارداتوں کا ارتکاب کیونکر ہو سکتا ہے۔ اس طرح کی ''شر انگیز اور من گھڑت ‘‘خبریں حکومت کے خلاف کسی گہری سازش کا نتیجہ لگتی ہیں۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ ان افراد سے پوچھ گچھ کی بجائے اس حیرت انگیز خبر جاری کرنے والوں کی سرکوبی کے لیے انکوائری کی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کی خبریں جاری اور شائع والوں کا قلع قمع ہو سکے۔ نیز یہ کہ جب سے خادم اعلیٰ نے کرپشن کا بُت توڑنے کی خوشخبری سنائی ہے‘ کرپشن کی کسی خبر پر کوئی یقین ہی نہیں کرتا۔ تاہم‘ یہ ضروری ہے کہ اس بُت کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے ان کی نمائش کا اہتمام کیا جائے تاکہ جن لوگوں کو اس کے ٹوٹنے پر اب بھی شک ہے‘ اُن کی تسلی ہو سکے۔ مزید برآں کرپشن کا کوئی بُت اگر باقی رہ گیا ہو تو اس کی فوری اطلاع صاحبِ موصوف کو دی جائے تاکہ وہ اسے بھی پاش پاش کر کے قوم کو ایک اور خوشخبری سنا سکیں۔
اور‘ اب انٹر نیٹ پر موصول ہونے والا اسلم عارفی کا یہ خوبصورت شعر ؎
ہمت نہ ہار صُبح کا تارا قریب ہے
لہریں بتا رہی ہیں کنارا قریب ہے
آج کا مطلع
وہ پھول ہے یا سنگ‘ بتانے نہیں دیتا
ملتا ہے مگر ہاتھ لگانے نہیں دیتا