یہ خبر بڑی تیزی سے گردش کر رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے امریکہ میں مقرر کئے گئے پاکستانی سفیر اور آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی اور با اعتماد ساتھی الطاف حسین کیلئے امریکی شہریت اور شکاگو امریکہ میں مستقل قیام کی راہ ہموار کرنے کیلئے مبینہ طور پر سر گرم ہیں۔ اس میں وہ کہاں تک کامیاب رہتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن دنیا بھر کے سفارتی حلقوں میں یہ بات تسلیم کی جا چکی ہے کہ حسین حقانی کو پاکستان کے نیو کلیئر اثا ثوں کے بارے میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت سمیت مغربی ممالک کے بے بنیاد خدشات کو اپنے من گھڑت دلائل اور واقعات کے ذریعے ہوا دینے کا امریکہ میں موجود بہت سے انڈو امریکی لابی سے وابستہ تھنک ٹینکس نے مشن سونپ رکھا ہے ۔ حسین حقانی اور ان کے ماسٹر مائنڈ کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ اپنے لامحدود وسائل کو استعمال لاتے ہوئے کسی نہ کسی طرح پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں اور اس کے محافظوںکے کردار کو عالمی رائے عامہ کی نظر میں امن کا دشمن ثابت کرتے ہوئے نا قابل قبول بنا دیا جائے کیاحسین حقانی اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ را کی ایک منجھی ہوئی38 سالہ خاتون''اپرنا پانڈے‘‘ کو بھارت نے اس کے ساتھ بطور سیکرٹری تعینات کیا ہوا ہے اور وہ دونوں ایک سا تھ ہی محو سفر رہتے ہیں اگر حسین حقانی انکار کرتے ہیں تو کیاوہ اس سے انکار کریں گے کہ جنوری2016 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی جانب سے بھارت میں ویوک نند انٹر نیشنل فائونڈیشن(VIF) میں شرکت کرنے والوں کو پاکستان کے بارے میں علیحدہ کمرے میں خصوصی بریفنگ نہیں دی؟۔
بد قسمتی سے امریکہ جیسے انتہائی اہم ترین ملک میں پاکستان کیلئے سفار ت کے فر ائض انجام دینے والا یہی شخص میمو گیٹ کے ذریعے لکھائے جانے والے خط کے ذریعے امریکہ سمیت مغرب کو یہ باور کرانے کی کوشش کر تا رہا کہ اس وقت عالمی امن کو کسی وقت بھی کوئی خطرہ ہو سکتا ہے تو یہ پاکستان سے نہیں بلکہ اس کی فوج سے ہو گا جو وہاں کی سیا سی قیا دتوں کو کام کرنے سے روک رہی ہے۔ وہ اکثر یہی باور کرانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں سیا سی قیا دت کو فوج کے اثر و رسوخ سے آزاد کرتے ہوئے بااختیار بنا دیا جائے تو امریکی کانگریس کے اس فیصلے کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہو گا کہ80 ارب ڈالر کے بدلے پاکستان اپنے ایٹمی اثاثے منجمد کرنے کیلئے تیار ہو جا تا ہے تو دنیا کے امن پر ہر وقت پاکستان کے ایٹمی اثا ثوں کی صورت میں لٹکنے والی تلوار سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات مل سکتی ہے ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اور غیر سب مل کر ایک ہی مشن پر ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کی آئی ایس آئی، نیو کلیئر اثاثے اور افواج پاکستان کے پر کاٹ دیئے جائیں کیونکہ یہی تین ادارے بھارت اور اسرائیل کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹکتے رہتے ہیں اور اگر ان کے میڈیا، تھنک ٹینکس اور سیا سی اور فوجی قیا دتوں کے بیانات کی طرف دیکھیں تو ان کے آئے روز چھوڑے جانے والے شوشوں سے لگتا ہے کہ ان سب کی اسی ایک ایٹمی طاقت کے فکر سے سانسیں اٹکی ہوئی ہیں۔
ایک انتہائی با خبر اور مصدقہ اطلاع کے مطا بق موصوف 14 اگست کو پاکستان کے70 ویں یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کے بارے میں زہر پھیلانے کیلئے ایک کتاب شائع کرانے جا رہے ہیںاور ان کی لکھی جانے والی اس نئی کتاب کی تقریب رونمائی کی ابتدائی تیاریوں اور اس میں شرکت کیلئے ''بھارت کے چند مخصوص ادارے‘‘ دنیا بھر سے سیا سی ، عسکری اور میڈیا سے متعلق منتخب لوگوں کو مدعو کرنے میں مصروف ہیں۔اس نئی کتاب کا عنوان ۔۔۔Re-Imaging Pakistan: transforming a Dysfunctional Nuclear State"" دیکھنے سے ہی سمجھ آجا نی چاہئے کہ اس میں پاکستان کے بارے میں کیا کچھ لکھا اور لکھوایا گیا ہو گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی یہ کتاب بھارت کے بہت بڑے پبلشنگ ادارے '' ہارپر کولنز پبلشرز‘‘ کے بینر تلے شائع کرائی جا رہی ہے۔۔۔ایک بات حیران کن ہے کہ حسین حقانی مستقل طور پر امریکہ میں قیام پذیر ہیں اور ان کی امریکہ سمیت برطانیہ کے بہت سے اشاعتی ادارو ں سے ذاتی دوستیاں اور مفادات پر مبنی بہترین تعلقات بھی ہیں لیکن وہ اپنی یہ کتاب بھارت کے '' ہارپر کولنز پبلشرز‘‘ جیسے اشاعتی ادارے سے شائع کرانے پر کیوں بضد ہیں؟۔ حقانی کی اس کتاب کا مسودہ اور ٹائٹل ایک با خبر اطلاع کے مطا بق ہارپر کولنز اشاعتی ادارے کو مکمل ایڈیٹنگ کے بعد مارچ کے اوائل میں ہی بھجوا دیا گیا ہے لیکن یہ بات بہت سے شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے کہ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد ابھی تک اسے شائع کرنے میں دیر کس لئے کی جا رہی ہے؟۔
کیا حسین حقانی کی کتاب کا مسودہ بھارت یا دنیا کے کسی ایسے ادارے کے حوالے کیا جا چکا ہے جو شائد اس کی مزید نوک پلک درست کرتے ہوئے اپنے گھٹیا مقاصد کیلئے استعمال میں لا ئیں گے؟۔
حسین حقانی کو میں نے 1987 سے بہت قریب سے دیکھا ہے۔وہ میاں برادران کے ساتھ مل کر بے نظیر کے خلاف میڈیا مہم چلاتے رہے اور پھر اسی بے نظیر اور ان کے شوہر آصف زرداری کے ترجمان بن بیٹھے اور اب تو موصوف کی تان اسی ایک بات پر ٹوٹ رہی ہے کہ پاکستان بننے کا اسلامی نظریہ اپنے اندر کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ موصوف کی اگست میں شائع ہونے والی کتاب کے ایک باب کے بارے میں مستند ذرائع سے معلوم ہونے والی اطلاع کے مطا بق اس شخص نے بھارت کی زبان بولتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کو نقصان پہنچاتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کو اب کشمیر پر پاکستانی موقف سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ حسین حقانی اور اس کی بھارتی سیکرٹری ارپناپانڈے نے اس کتاب میں ان گنت اوٹ پٹانگ قسم کے حوالوں سے پاکستان کے کشمیر پر دعوے ، اس کی فوج اور ایٹمی اثاثوں کے بارے میں خوف اور بدگمانیاں پھیلانے کی آخری حد تک کوشش کی ہے۔