تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     15-04-2017

ایک سینئر سٹیزن کو زندگی سے کیا چاہیے؟

میری عمر 67 سال ہے؛ چنانچہ میں ایک سینئر سٹیزن ہوں۔ میں زندگی سے کیا چاہتا ہوں؟ مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ میری نوجوانی کے وقت اس ملک میں بہت سی سادہ خوشیاں دستیاب تھیں لیکن بطور ایک قوم ہماری تاریخ کچھ اس نہج پر ڈھلی کہ ہم نے اُن خوشیوںکو تحلیل ہوتے دیکھا۔ اب تو خواب و خیال بھی اُن کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
اپنی نوجوانی میں، میں راولپنڈی جانے والی بس پکڑتا، چند گھنٹے صدر میں گزارتا، لندن بک کمپنی جاتا اور اگر جیب میں پیسے ہوتے تو چند ایک کتابیں خریدتا، صدر کے سینمائوں اوڈین، پلازہ اور سیروز میں سے کسی ایک میں لگی ہوئی کوئی اچھی سی انگلش فلم دیکھتا، اور رات گئے بس میں بیٹھ کر واپس چکوال آ جاتا۔ میں تھکا ہوا لیکن قدرے خوش ہوتا۔ اُس وقت صدر ایک خوبصورت علاقہ تھا جہاں شور اور ٹریفک برائے نام تھی۔ وہاں آپ پیدل چل سکتے تھے، اور اگر آپ نے راجہ بازار جانا ہوتا تو آپ یا تو تانگہ لیتے (تانگہ سٹینڈ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس بس سٹاپ سے اگلی سڑک پر تھا) یا ٹیکسی، اور ٹیکسی ڈرائیور آپ سے کوئی سوال کیے بغیر میٹر آن کر لیتا۔ اب وہ پُرسکون دن کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ 
میں اُس وقت بہت نوعمر تھا اور پھر پنڈی کلب جانے کے لیے وسائل بھی نہیں تھے، لیکن سنا تھا کہ وہاں حلق تر کرنے کا سامان ہوتا ہے اور آرمی آفسیرز وہاں جمع ہو کر افسروںکی طرح شامیں گزارتے ہیں۔ جب اس سرزمین پر نیکی اور پرہیز گاری کی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں تو پنڈی کلب کی رونق ماند پڑ گئیں اور یہ ایک طرح کا آرمی میس بن گیا۔ جب جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے تو سننے میں آیا تھا کہ پنڈی کلب کو کسی اور چیز میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بن گیا ہے، تو میں نے لکھا تھا کہ اسے اس کی پرانی حالت میں محفوظ کر لینا چاہیے۔ لیکن بات یہ ہے کہ چلیں عمارت کے ساتھ جو بھی کر لیں، اس میں رقص کناں سرور کی فضا کیسے واپس لائی جائے گی؟ کیا کبھی دوبارہ گلاسوںکی کھنک سنائی دے گی یا بار کے گرد افسران کا ہجوم دکھائی دے گا؟
اب فوج، اور دیگر تمام ادارے اُس دور، جو عموماً جنرل یحییٰ خان اور ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ افراد سے منسوب کیا جاتا ہے، سے کہیں زیادہ پارسا بن چکے ہیں۔ اب وہ حب الوطنی کے جذبات اور کچھ دوسرے معاملات کا شغف رکھتے ہیں۔ اُن دنوں صرف ایک ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی ہوتی تھی، اور وہ کراچی میں تھی اور دیگر رہائشی کالونیوں کی طرح کی ایک ہائوسنگ سوسائٹی تھی، لیکن الحمدللہ آج اس کی مشروم گروتھ دکھائی دیتی ہے۔ نیز پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کے بعد اُنہیں آئینی تحفظ بھی حاصل ہو چکا ہے۔ 
راولپنڈی کا صدر اب کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔ پرانے سینما ختم ہو چکے، کتابیں قصہ ٔ پارینہ بن چکیں، پرانا شیزان ریستوران غائب ہے، آج کا پی سی (پرل کانٹی نینٹل) کبھی انٹر کانٹی نینٹل ہوا کرتا تھا اور پرانے لغزش آمیز لیکن پُرمسرت دنوں میں اس کے بار کے گرد کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں ہوتی تھی، خاص طور پر جب ''Happy Hour‘‘ میں نرخ نصف کم کر دیے جاتے تھے۔ اب پی سی میں داخل ہوتے ہی آپ دبائو کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ پی سی سے تھوڑے فاصلے پر Flashman's تھا‘ جہاں آپ پیدل بھی جا سکتے تھے، لیکن اب یہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ وہ تمام پرانے مقامات ویران ہو چکے ہیں‘ جہاں سے کبھی قہقہے اور پُرلطف گپ شپ کی آوازیں آیا کرتی تھی۔ اس دوران قوم مجموعی طور پر نیکی، پرہیز گاری اور نجات کی راہوں پر چل نکلی ہے۔ 
اُن دنوں کوئی افغان جہاد نہ تھا، سڑکیں سکیورٹی کے لیے لگائی گئی رکاوٹوں سے ناآشنا تھیں، عمارتوں کے گرد اونچی حفاظتی باڑوں کی کوئی ضرورت نہ تھی، اور پاکستان کے شہری کلاشنکوف کی شکل سے بھی واقف نہ تھے۔ جنرل ضیا دور کے ماسٹرز نے پاکستانی قوم کے ہاتھ میں افغان جہاد کا پرچم تھما دیا، اور قوم کو بتایا کہ وہ ابھی پوری طرح دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہیں، اُنہیں مزید اسلام پسندی کی ضرورت ہے؛ چنانچہ اسلام کا نفاذ قومی ہدف قرار پایا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں کوئی بہتر تبدیلی رونما ہوئی یا نہیں، ایک بات یقینی ہے کہ انھوں نے قومی ماحول کو نام نہاد اسلامی بیانیے سے گہرا کر دیا۔ مذہب کے بارے میں بات کرنی ہو تو کون ہے جو گفتار کے ان غازیوں کے سامنے ٹھہر سکے۔ 
صرف راولپنڈی صدر کا ہی ذکر کیوں، میں لاہور بھی اکثر جاتا آتا رہتا ہوں۔ میں جس لاہور سے واقف ہوں، وہ مال اور اس سے ملحق علاقے ہیں۔ بطور ایک نوجوان مجھے یاد ہے یہ سڑک کیسی دکھائی دیتی تھی۔ اس پر لاہور ہائی کورٹ سے لے کر موجودہ پی سی اور آواری تک چائے خانے اور ریستوران ہوا کرتے تھے۔ سہ پہر کو شیزان، لارڈز، انڈس اور گارڈینیا چائے پینے والوں سے بھر ے ہوتے تھے۔ خوش لباس افراد فٹ پاتھ پر واک کرتے، اور جب شام کے سائے گہر ے ہونے لگتے تو چائے خانوں کا منظر تبدیل ہو جاتا۔ اب زندگی کے قدم مخصوص مشروبات فراہم کرنے والے مقامات کی سمت اٹھنے لگتے۔ ذرا اُس سانولے، مدھ بھرے ماحول کا تصور کریں جب آپ دن ڈھلے نہایت فراغت سے چائے اور دیگر مشروبات کا لطف اٹھاتے ہوئے پُرسکون انداز میں گپ شپ کرتے تھے۔ 
آج اُن وقتوں کو یاد کرکے میں سوچتا ہوں کہ پاکستان پر کس آسیب کاسایہ پڑ گیا ہے۔ تمام ریستوران ختم ہو چکے ہیں۔ انڈس ابھی تک موجود ہے، لیکن ایامِ رفتہ کی سی رونق اب کہاں۔ آج پورے مال پر آپ کو کپڑے اور جوتوں کی دکانوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ریگل چوک پر کتابوں کی ایک شاندار دکان ہے‘ جہاں پرانی کتابوں کا اچھا انتخاب مل جاتا ہے، لیکن اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ نہ کوئی آرٹ گیلری، نہ کوئی میوزک ہال، 'کوئی ویرانی سی ویرانی ہے‘۔ ہرکوئی اپنی دھن میں غرق، اپنے امکانات سے لطف اٹھانے کوشش کرتا ہے۔ کمرے کی تنہائی میں قریبی دوست، نجی تفریح، نجی پارٹیاں، نجی رقص کی محفلیں، لیکن عوامی سطح پر تفریحی سرگرمیاں دم توڑ چکی ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے شہری مقامات ویرانوں کا سا منظر پیش کرتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو دل چاہتا ہے کہ لاہور سے پنڈی تک بس میں سفر کروں، ٹیکسی لوں، شہروں کے مختلف مقامات کا سفر کروں۔ میرا خیال ہے کہ ان چیزوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر آپ ٹیکسیوں میں میٹر نصب نہیں کرا سکتے، شہروں اور قصبوں میں چلنے والے رکشوں کو کسی قانون کے تحت نہیں لا سکتے، گلیوں سے کوڑا کرکٹ نہیں اٹھا سکتے یا کوڑے کے ڈھیروں سے پلاسٹک بیگ کی موجودگی کو کم نہیں کر سکتے، اور ہمیں اپنے شہروں کی صفائی کے لیے ترک یا چینی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں تو پھر یہ سوچنا حماقت ہو گی کہ ہم کوئی معرکہ مارتے ہوئے پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا دیں گے۔ 
ہمارے پاس ہر قسم کی عسکری قوت ہے جس کے پاس بہت سے دولت مند اور خوشحال ممالک سے زیادہ توانا دفاعی نظام ہے۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں۔ ہم ٹینک اور لڑاکا طیارے بنا لیتے ہیں، اور یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں‘ لیکن ہم چھوٹے چھوٹے معاملات کو درست کیوں نہیں کر سکتے؟ میں ہر صبح پانچ اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں، لیکن ان میں یاد رکھنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ ہماری زندگیوں میں شاعری، موسیقی اور دیگر خوبصورتیاں کیوں نہیں ہیں؟

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved