ایک گمراہ انسان کسی وقت بھی راہِ راست پر آ سکتا ہے اور اس کی کایا پلٹ ہو سکتی ہے۔ ایک سچے صحافی کا کام صرف تنقید کرنا نہیں بلکہ حکومت نے جو اچھے کام کیے ہوں اُن کی تعریف کرنا بھی ہے۔ ہم اپنے ماضی پر نہایت شرمندہ ہیں کہ اس حوالے سے اب تک طرفہ ٹریفک ہی چلاتے رہے ہیں لیکن الحمد للہ اب ہمارا سویا ہوا ضمیر انگڑائی لے کر جاگ اٹھا ہے جبکہ ہم نے اپنی عینک بھی تبدیل کر وا لی ہے ‘ سو‘ اس سے بھی اب چیزیں خاصی مثبت انداز دکھائی دینے لگی ہیں۔
سو۔ بسم اللہ ہم خادم اعلیٰ کے اس ایمان افروز بیان سے کرتے ہیں کہ کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں‘ پنجاب میں سفارش۔ اقربا پروری اور دھونس دھاندلی کے بُت توڑ دیے ہیںع
تری آواز مکّے اور مدینے
ایسا لگتا ہے کہ صاحبِ موصوف میں محمود غزنوی کی روح حلول کر گئی ہے لیکن محمود غزنوی نے بھی آخر کتنے بت توڑے ہوں گے۔ خادم اعلیٰ کے توڑے ہوئے بُت کچھ زیادہ ہی نکلیں گے۔ لیکن ابھی ہم اس بیان کی سرشاری ہی میں گم تھے کہ اخبار کے صفحہ اول پر چار کالموں تک پھیلی ہوئی یہ سرخی نظر سے گزری کہ وفاقی حکومت کے لیے 5اہم سربراہوں کی تقرری دردِ سر بن گئی۔ پیروں سے
وزیروں تک کی سفارش کی دوڑ۔ بیشک یہ وفاقی حکومت کا معاملہ ہے لیکن اس سے پنجاب حکومت کے بارے میں بھی کوئی اچھی رائے قائم نہیں ہوتی۔ آخر خادم اعلیٰ اپنے بھائی صاحب کو سمجھاتے کیوں نہیں۔ اگرچہ سکھیرا صاحب کے ریٹائر ہونے اور چارج چھوڑنے کے بعد بھی نئے آئی جی کا تقرر بھی کہیں انہی مسائل و مشکلات کا شکار تو نہیں؟ حد تو یہ ہے کہ ان کی جگہ قائم مقامی کے بھی اختیارات کسی کو نہیں دیے گئے۔ خدا نہ کرے یہاں بھی وہی سفارشوں والا سلسلہ ہی نہ چل رہا ہو۔ تاہم‘ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کی خبریں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پھیلائی جا رہی ہیں جس کا تدارک ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ایک خبر اور بھی ہے کہ لاہور کے شہریوں کو پانی کے نام پر زہر پلایا جا رہا ہے کیونکہ واٹر ٹریٹ منٹ کا پلانٹ 5سال سے تاخیر کا شکار ہے جبکہ تاخیر کے باعث منصوبے کی لاگت 5ارب سے 30ارب تک جا پہنچی ہے جبکہ یہ بجٹ واسا کے افسران مبینہ طور پر ذاتی استعمال پر خرچ کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اس صورتِ حال سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا ورنہ صورتِ حال ایسی نہ ہوتی اور اگر5ارب کے اس بجٹ کو واسا کے افسران ذاتی استعمال میں لا بھی رہے ہیں تو مہنگائی کا زمانہ ہے اور افسروں کا تنخواہوں پر گزارہ ہی کب ہوتا ہے۔ یہ خبر بھی مشکوک اس لیے لگتی ہے کہ آج تک ہم نے اس زہر سے کسی کو مرتے دیکھا ہے نہ سُنا ورنہ زہر پینے والا آدمی تو آن کی آن میں پُھڑک کر مر جاتا ہے۔
ایک گمراہ کن خبر اور بھی ہماری نظر سے گزری ہے اور وہ یہ کہ ایل ڈی اے کو 16کرڑو کا نقصان پہنچانے والے آٹھ ملازمین برطرف کر دیے گئے ہیں۔ اس خبر کی صداقت پر بھی ہمیں یقین نہیں ہے کیونکہ خادمِ اعلیٰ نے اگر کرپشن کا بت بھی پاش پاش کر دیا ہے تو ان لوگوں کو اس جرم کی جرأت ہی کیسے ہو سکتی ہے‘ اس لیے ان پر یہ الزام بھی جھوٹا اور انتقامی کارروائی لگتی ہے‘ اس لیے ان کی برخواستگی بھی غلط ہے اور سنو۔ ایک اور خبر کے مطابق پنجاب میں ہیپاٹائٹس کے دو کروڑ مریض ہیں اور حکومت ان سے لاعلم ہے۔ سچی بات ہے‘ اگر ایسی کوئی بات حکومت کے علم ہی میں نہیں لائی جاتی تو حکومت کو کیا اس کا خواب آ جانا چاہیے؟ چنانچہ ہیپا ٹائٹس تو ویسے بھی لاعلاج مرض ہے اور حکومت ان کی صحت یابی کے لیے دعا کر سکتی ہے۔
علاوہ ازیں یہ خبر آئی ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ تجارتی خسارہ23ارب 38کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے: بھلا یہ بھی کوئی خبر ہے؟ نفع اور نقصان تجارت میں ہوتے ہی رہتے ہیں‘ اب خسارہ ہوا ہے تو آئندہ منافع بھی ہو سکتا ہے۔
اس میں گھبرانے کی ایسی کیا بات ہے۔ویسے بھی تیز رفتار ترقی کے زمانے میں ایسے خساروں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔
ایک اور شر انگیز خبر کے مطابق چوروں اور ڈاکوئوں نے شہر میں ناکے لگا رکھے ہیں اور شہریوں کو دن دہاڑے بھی لوٹ لیا جاتا ہے۔ اول تو شہریوں کو نقدی یا کوئی قیمتی چیز لے کر باہر نکلنا ہی نہیں چاہیے۔ ہمارے خیال میں ایسا واقعہ انہی لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے جو زکوٰۃ نہیں دیتے‘ چنانچہ وہ یہی سمجھیں کہ ان کی زکوٰۃ نکل رہی ہے اور وہ خواہ مخواہ ثواب کما رہے ہیں۔ ویسے بھی‘ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آدھی پولیس تو سرکاری اور پرائیویٹ ڈیوٹیوں پر لگی ہوتی ہے‘ اس لیے عوام کو اپنی حفاظت خود کرنی چاہیے کیونکہ خدا بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی آپ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ‘ یہ زرو مال سب عارضی چیزیں ہیں اور آنی جانی بھی‘ اور سب کچھ یہیں پڑا رہ جائے گا اس لیے توکلّ سے کام لینا چاہیے اور اللہ جس حالت میں بھی رکھے‘ خوش رہنا چاہیے اور حکومت کے لیے دُعا گو بھی‘ کیونکہ حکومت کسی وقت بھی کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے جس سے ساری کی ساری کسر نکل جائے یعنیع
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ
اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہمیں حکومت سے کوئی طمع یا لالچ نہیں ہے‘ اگر وہ اپنے آپ کوئی مہربانی کر دے تو کر دے‘ ہم اس کے سامنے کبھی ہاتھ نہیں پھیلائیں گے کیونکہ ہم نے علامہ صاحب کا یہ شعر پڑھ رکھا ہے اور ہمیں زبانی یاد بھی ہے کہ ؎
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
اور‘ ہمارا ایمان ہے کہ ہر شخص کے لیے سونا چاندی تانبے یا لوہے کا کوئی نہ کوئی تاج کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے جو اُسے مل کر ہی رہتا ہے!
آج کا مقطع
وہ پاس پھٹکنے نہیں دیتا ہے ظفر کو
ظالم ہے کہیں اور بھی جانے نہیں دیتا