تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-04-2017

کہانی پوری فلمی ہے!

ایک زمانہ تھا جب بیشتر فلموں کے کلائمیکس میں رائٹر اور ڈائریکٹر کو ہیرو یا ہیروئن کی یادداشت واپس لانا ہوتی تھی۔ کسی فلم میں بچھڑے ہوئے بھائی یا بھائی بہن کوئی چیز (مثلاً لاکٹ یا تصویر) دیکھ کر ایک دوسرے کو پہچان لیتے تھے۔ بہت سی فلموں کے کلائمیکس میں ہیرو یا ہیروئن کو پیانو کا سہارا لینا پڑتا تھا یعنی کوئی گیت گایا جاتا تھا جسے اُسے سن کر یادداشت واپس آتی تھی! 
ہماری سیاست میں یہ فلمی کہانی اب تک چل رہی ہے۔ سیاست دان چار سوا چار سال تک سب کچھ بھولے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر اچانک یادداشت واپس آجاتی ہے۔ سب کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ مینڈیٹ کا آخری یعنی پانچواں سال شروع ہوتے ہی اُنہیں یاد آتا ہے کہ اِس ملک میں عوام نام کی مخلوق بھی پائی جاتی ہے اور یہ کہ اِس مخلوق کے پاس اِنہیں واپس بھی جانا ہوتا ہے۔ 2018 انتخابات کا سال ہے۔ یعنی سال رواں میں اب جتنے بھی دن بچے ہیں وہ عوام کو یاد کرنے کے ہیں۔ سیاست دانوں کو اچانک قدم قدم پر ملک اور قوم کا غم ستانے لگا ہے۔ اگر ہمارے بس میں ہو تو ہم ملک اور قوم دونوں سے کہیں کہ بھئی، درد مند دل رکھنے والوں کو اِتنا ستانا بھی ٹھیک نہیں! ایک طرف شدید گرمی سے دماغ پگھلنے لگے ہیں اور دوسری طرف قوم کے غم میں اِن بے چاروں کے دل بھی پگھل، بلکہ گُھل رہے ہیں! 
محترم سید ناصرؔ زیدی کہتے ہیں ؎ 
کوئی ہنگامہ چاہیے ناصرؔ 
کیسے گزرے کی زندگی خاموش 
بس یہی سوچ کر ہنگامہ برپا کرنے کی مساعی جاری ہیں۔ از خود نوٹس کے تحت خود کو رہبری کے منصب پر فائز سمجھنے والے مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کی بھرپور توجہ پائیں، ایک بار پھر اُنہیں بیلٹ باکس تک آنے پر آمادہ کریں۔ 
آپ سوچیں گے، بلکہ کہہ بھی گزریں گے کہ اِس میں نیا یا حیرت انگیز کیا ہے۔ انتخابی سال میں ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ فلمی کہانیوں کی طرح سیاسی کہانیوں کے جیتے جاگتے کرداروں کی یادداشت بھی اچانک لوٹ آتی ہے، انہیں اپنے اطراف عوام دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اور ''قائدین‘‘ کو اپنے درمیان پاکر عوام کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ 
ملک بھر میں عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ آدھی سے زیادہ آبادی کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ یہی حال صحتِ عامہ سے متعلق بنیادی سہولتوں کا بھی ہے سرکاری اسپتالوں کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ لوگوں کو مزید بیمار کرنے کے ارادے سے بنائے گئے ہیں اور اِسی ارادے کے تحت چلائے بھی جارہے ہیں۔ بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ پروگرام نام کی کسی سہولت کے بارے میں سوچنا دیوانے کے خواب جیسا ہے۔ لوگ کام پر جانے اور شام کو گھر واپس آنے کے عمل سے ادھ مُوئے ہو جاتے ہیں۔ اور کچھ کچھ ایسا ہی حال صوبوں اور ایک ہی صوبے کے شہروں کے درمیان چلائی جانے والی بس سروس کا ہے۔ معمولی فاصلے کے لیے بھی خطیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اور وہ بھی اچھی خاصی زحمت کے ساتھ۔ بس ذرا اچھی حالت میں ہو تو کرایا دگنا وصول کیا جاتا ہے۔ 
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام کو چار برس مکمل ہونے والے ہیں۔ اِن چار برس کے دوران عوام نے کیا پایا یہ بتانا اپنے آپ کو شرمندہ کرنے کے مترادف ہے اور کیا کھویا یہ بتانے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں۔ گویا ؎ 
کہاں تک سنوگے، کہاں تک سناؤں 
ہزاروں ہی شکوے ہیں، کیا کیا بتاؤں 
چار برس کی اِس مدت کا بڑا حصہ تو بے ذہنی کے بطن سے پیدا ہونے والے احتجاج میں گزر گیا۔ جس جماعت کی اٹھان سے لوگ خوش اور پُرامید تھے وہ انصاف کے لیے تحریک کیا چلائے گی، اپنے وجود سے بھی انصاف نہ کر پائی۔ عمران خان سیاسی افق پر ایک چمکتے دمکتے تارے کا درجہ رکھتے تھے مگر یہ تارا کچھ ایسے بے ڈھنگے پن سے ٹوٹ کر گِرا ہے کہ دیکھنے والوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا۔ نادیدہ و مقتدر قوتوں نے عمران خان کو جتنی تیزی سے بلند کیا تھا اُتنی ہی تیزی سے خاک چاٹنے پر بھی مجبور کردیا۔ ان چار برسوں میں وہ خیبر پختونخوا پر خاطر خواہ توجہ دینے کے بجائے لاحاصل سرگرمیوں میں یوں گم رہے ہیں کہ اپنے لیے مزید امکانات تو خیر کیا پیدا ہوں گے، جو امکانات دسترس میں ہیں اُنہیں بھی برقرار رکھنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔ 
عوام کے لیے ایک بار پھر آزمائش کی گھڑی آگئی ہے۔ ہر سیاسی جماعت دعوٰی کرتی ہے کہ عوام باشعور ہیں مگر بنیادی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام باشعور نہیں۔ اگر وہ باشعور ہوتے تو ایسے بہت سے لوگ ہمیں کہیں دکھائی نہ دیتے جو ایوان ہائِ اقتدار میں دکھائی دیتے رہتے ہیں۔ میڈیا کو بھرپور اور منظّم ڈھنگ سے استعمال کرکے عوامی شعور کا گراف نیچے لانے کی کوششیں اب تک تو کامیابی سے ہم کنار ہیں۔ عوام بہت کچھ دیکھ اور جھیل کر بھی اب تک کسی نہ کسی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ کہیں ووٹ زبان کے نام پر ڈالا جارہا ہے اور کہیں صوبائیت کے نام پر۔ جو جماعتیں وفاقی سوچ رکھنے کا دعوٰی کرتی ہیں وہ بھی موقع ملتے ہی اپنے فکر و عمل کو محدود کرتے ہوئے ووٹ بینک بچانے لگتی ہیں! 
کاش کہ اِس بار ہماری سیاسی فلم کی کہانی میں کوئی مثبت اور انقلاب آور تبدیلی رونما ہو اور ملک کے لیے خیر کی راہ پر گامزن ہونا ممکن ہو۔ کچھ تو ایسا ہو جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ کچھ نیا پن ہے، کہانی پوری فلمی نہیں!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved