تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-04-2017

زعمِ تقویٰ

درویش سے پوچھا گیا: شیطان آدمی کو گمراہ کرتا ہے یا اس کا نفس؟ فرمایا: شیطان ایک کاشتکار ہے جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔
مذہبی لوگوں کے اندازِ فکر میں کیا خرابی ہے کہ جہاں وہ بالادست ہو جائیں خلق خدا کی جان پہ بن آتی ہے۔جب سے ملاّکو اقتدار ملا ہے،ایران سہما نظر آتا ہے۔ افغانستان میں صورت حال اس سے بھی بدترہے۔ برسوں کی خانہ جنگی کے بعد‘ افغان عوام نے طالبان کو گوارا کیا۔ تاجکوں‘ ترکوں اور وسطی افغانستان کے ہزارہ عوام کی زندگی انہوں نے دشوار کر دی۔ ملّا عمر اور ان کے ساتھیوں سے متاثر پاکستانی طالبان نے بے دردی کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کا خون بہایا۔ امام بارگاہیں‘ مساجد‘ مارکیٹیں اور مزارات خاص طور پر ان کا ہدف تھے۔ فوجی دفاتر اور تنصیبات پر انہوں نے یلغار کی۔ لگ بھگ ساٹھ ہزار شہری اور چھ ہزار فوجی زندگیاں ہار گئے۔ اس سے انہیں کیا حاصل ہوا؟
خوف زدہ کرکے‘ ریاستی اداروں کو تباہ اور معطل کرکے‘ وہ اقتدار کے متمنی ہیں۔ سوات میں صوفی محمد کے تمام مطالبات مان لیے گئے تھے۔ شرعی عدالتی نظام نافذ کر دیا گیا تھا۔ فوراً بعد صوفی محمد نے ایک جلسۂ عام سے خطاب کیا کہ وہ پارلیمان‘ عدالت اور آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ یاد ہے کہ ٹیلی ویژن کے ایک مذاکرے میں مسلم نامی ان کے کمانڈر سے سامنا ہوا تو یہ سوال ان سے پوچھا کہ معاہدہ کرنے کے بعد وہ کیسے مکر سکتے ہیں۔ جواب ان کا یہ تھا کہ وہ بینکوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ان میں سود کا لین دین ہوتا ہے۔ عرض کیا: یہ فرمائیے کہ رسول اکرمؐ نے‘ جو ہمارے لیے حتمی نمونہ عمل ہیں‘ سود کی ممانعت کا حکم کب صادر کیا تھا۔ بولے: قرآن کریم کی آیات نازل ہونے کے بعد۔ گزارش کی کہ ایسا نہیں۔ صدیوں سے عرب سود کی لعنت میں گرفتار تھے۔ دو چار‘ دس فیصد‘ یہ بینکوں کے سود کی مانند نہیں تھا بلکہ آج کے ذاتی طور پر قرض دینے والوں کی طرح۔ مقروض کا جس میں خون نچوڑ لیا جاتا۔ سود پر پابندی کے لیے قرآنی احکامات قطعی اور فیصلہ کن تھے۔ سودی کاروبار کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ قرار دیا گیا۔ بڑی ہی سخت وعید تھی‘ لرزا دینے والی۔ اس کے باجود آپؐ نے مہلت دی تاآنکہ حجۃالوداع کا دن آ پہنچا۔ اس روز آپ نے ارشاد کیا: آج سے دورِ جاہلیت کے سارے سود میں باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے‘ اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود۔
ان مہ و سال میں پیہم اخلاقی تربیت سے‘ عربوں کے مزاج کو آپؐ نے بدل ڈالا۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت اور خیر و برکت سے انہیں آشنا کیا۔ انہیں بتایا کہ خیرات کی دس نیکیاں ہیں تو قرض حسنہ کی اٹھارہ۔ صدیوں سے بخل کے مارے معاشرے کو سکھایا کہ بہشت بریں کا راستہ‘ ایثار سے طے ہو گا۔ ہدایت ان کے لیے ہے جو غیب پر ایمان لاتے‘ نماز پڑھتے اور جو کچھ اللہ نے انہیں دیا ہے‘ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔''یو ثرون و لو کان بھم خصاصہ‘‘ ایثار کرتے ہیں‘ خواہ تنگ دست ہوں۔ دن رات خرچ کرنے والوں کو بے کراں رحمت کی بشارت دی۔ قرآن نے کہا کہ اللہ کے وہ دوست شمار کئے جائیں گے‘ خوف اور غم سے آزاد کر دیے جائیں گے۔ فرمایا: نماز پڑھو‘ زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دیا کرو۔ ارشاد ہوا کہ جس بستی میں کوئی بھوکا سو رہا اس کی حفاظت سے اللہ بے نیاز ہے۔ صدقات کا نظام تعمیر ہو چکا۔ دنیا کی محبت دلوں سے اٹھ گئی تو سود کی ممانعت کا حکم جاری ہوا۔
ڈاکٹر اسرار کی اللہ مغفرت کرے۔ عمر بھر قرآنِ کریم کا دیتے رہے۔ اس راز سے وہ آشنا تھے کہ علما براہ راست اگر سیاست میں حصہ لیں۔ در در ووٹ مانگیں تو ان کی بات نہ سنی جائے گی؛ چنانچہ ان کی پذیرائی ہوئی۔ باایں ہمہ عربی زبان کی معمولی شد بد ہی رکھتے تھے۔ اخبار میں ایک مضمون لکھا: الدین نصیحہ‘ دین نصیحت کا نام ہے؛ چنانچہ ہم خلق خدا کو نصیحت کرتے ہیں۔ عرض کیا: ڈاکٹر صاحب‘ نصیحت‘ عربی میں خیر خواہی کو کہتے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے‘ علما کی بڑی تعداد جسے نظر انداز کرتی ہے۔ شرعی قوانین کے نفاذ سے معاشرہ اسلام کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتا۔ خلقِ خدا کو تعلیم دینا ہوتی ہے؛ تاآنکہ دل و جان سے وہ قائل ہو جائیں۔ محض عبادت ہی نہیں‘ خیر خواہی اور نرمی کو شعار کر لیں۔ عمل کا نمونہ بن کر دوسروں کے رہنما ہوں۔ اقبالؔ نے کہا تھا: ؎
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم
2007ء کی پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے عمران خان پر حملہ کیا۔ طلبہ کو وہ پرویز مشرف کے خلاف متحرک کرنے آئے تھے۔ حسن ظن رکھنے والے بہت سے لوگ‘ اس پر حیرت زدہ رہ گئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کو عمران خاں پہ کیا اعتراض تھا؟ کچھ بھی نہیں‘ فوجی آمر کے خلاف احتجاج میں وہ خود بھی شریک تھے۔ پنجاب یونیورسٹی‘ ہمیشہ جمہوری تحریکوں کا مرکز رہی۔ جمعیت کے وابستگان ایک تاریخی کردار کے حامل تھے۔ اس کے باوجود اس آدمی پر وہ کیوں پل پڑے‘ جو ان کا حلیف تھا؟ سادہ ترین الفاظ میں یہ اقتدار کا گمراہ کرنے والا نشہ تھا۔
نشہ خودی کا چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگاؔنہ مگر بنا نہ گیا
اندازِ فکر ان کا یہ تھا کہ جامعہ پنجاب کی حدود میں‘ ان کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہ مارے۔ اساتذہ ان کی مرضی سے بھرتی ہوں‘ طلبہ کا داخلہ ان کی اجازت سے۔ جامعہ کی پالیسیاں ان سے پوچھ کر تشکیل دی جائیں۔ تقریبات کے لیے ان سے اجازت طلب کی جائے۔ قاضی حسین احمد کو اس واقعے سے صدمہ پہنچا۔ ایک تو اس لئے کہ عمران خان کے وہ قائل تھے۔ دوسرے اس لئے کہ جمعیت ہی نہیں جماعت اسلامی بھی رسوا ہوئی۔
1970ء میں حافظ محمد ادریس اور ان کے ساتھیوں نے نرم خو وائس چانسلر‘ علامہ علائوالدین صدیقی کے گھر پہ یلغار کی تو سیدنا ابوالاعلیٰ مودودی سکتے میں تھے۔ ایک اخباری بیان انہوں نے جاری کیا: ان لوگوں نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کر دی۔ اس کے باوجود‘ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو تشدد کا ارتکاب کرنے والوں سے ہمدردی تھی۔ 2007ء کے سانحہ میں بھی‘ پارٹی کے لیڈر تاویل کرتے رہے‘ حتیٰ کہ ان کی صاحبزادی راحیلہ قاضی نے بھی اخبار نویسوں کی مذمت کی‘ تنقید کی جنہوں نے جسارت کی تھی۔ فرمایا: کل تک ہماری خوشامد کرنے والے آج ہمارے منہ آتے ہیں۔
خبطِ عظمت اور زعمِ تقویٰ‘ یہ ہے مذہبی لوگوں کا مسئلہ۔ دوسروں کو وہ حقیر جانتے ہیں۔ معاشرے کو مجرم سمجھتے ہیں کہ ان کی طرح پارسا نہیں۔ تحقیر کرتے اور بدگمانی پالتے ہیں۔ کبھی شاعر اس راز کو پا لیتا ہے‘ بڑے بڑے دانشوروں کی‘ جس تک رسائی نہیں ہوتی۔ بے سبب حسرت موہانی رئیس المتغزلین قرار نہ پائے۔ انہوں نے کہا تھا ؎
کچھ بھی حاصل نہ ہوا زہد سے نخوت کے سوا
شغل بیکار ہیں‘ سب تیری محبت کے سوا
عصر رواں کے عارف نے کہا تھا: سچا مسلمان وہ ہے‘ دوسروں کو جو ہمیشہ رعایت دے‘ مگر اپنے آپ کو کبھی نہیں۔ عمران خان والے سانحہ کے بعد تین چار دن تک اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن اخبار نویسوں کو دھمکیاں دیتے رہے۔ آخرکار ان کے ناظم اعلیٰ نے ایک ایک سے معافی مانگی۔ خادم نے ان کی خدمت میں عرض کیا: معاملے پہ آپ غور کیوں نہیں کرتے۔ اپنے لوگوں کی اصلاح کا منصوبہ کیوں نہیں بناتے۔ 
21 مارچ کو پختون طلبہ کے اجتماع پر اسلامی جمعیت طلبہ کے حملے نے آشکار کیا کہ اب بھی خود تنقیدی پر وہ آمادہ نہیں۔ خود اپنا جائزہ لینے کے لیے ہرگز وہ تیار نہیں۔ عامی سے زیادہ خطرہ پارسا کو ہوتا ہے۔ جب اس کا فریب خوردہ نفس‘ شیطان کا شکار ہوتا ہے۔ ان مذہبی لوگوں کو جو اپنی اصلاح کے آرزو مند ہوں‘ ابنِ جوزیؒ کی ''تلبیسِ ابلیس‘‘ اور سیدنا علی بن عثمانی ہجویریؒ کی کشف المحجوب پڑھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ خود فریبی کا شکار‘ آدمی کیسے ہوتا ہے‘ کیسے بچ سکتا ہے۔ 
درویش سے پوچھا گیا: شیطا ن آدمی کو گمراہ کرتا ہے یا اس کا نفس؟ فرمایا: شیطان ایک کاشتکار ہے جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved