تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     16-04-2017

مشال کو انصاف چاہیے

مردان یونیورسٹی میں سفاکی سے قتل کیے جانے والے طالبِ علم مشال خان کا نوحہ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔سوشل میڈیا کی گلی میں صفِ ماتم بچھی ہے ۔ ہزاروں نوجوان آنسو بہا تے ہیں تو یہ بے سبب نہیں ۔ وہ انہی کے قبیلے کا جوان تھا۔ کالج اور یونیورسٹیوں کے لاکھوں طلبہ مشال خان کی تصاویر میں اپنا آپ دیکھ سکتے ہیں ۔مذہبی طلبہ تنظیموں کے خلاف بیزاری بلکہ نفرت کے جذبات لبرل طبقات میں پائے جاتے ہیں ۔ مشال خان کے قتل سے اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی لینا دینا نہیں لیکن اس واقعے کو مذہب پسندوں کی طرف سے تشدد کے واقعات کا تسلسل سمجھا جا رہا ہے ۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کی داداگیری کا سب سے مشہور واقعہ وہ تھا، جب جنرل مشرف کے دور میں عمران خاں کو انہوں نے گریباں سے پکڑکر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا۔ میرے والد ہارون الرشید نے مذمتی کالم لکھا تودھمکیوں اور گالیوں سے بھرپور فون کالز اور پیغامات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا ، ساری زندگی ہمیں جس سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اس واقعے پر چیخ وپکار کرنے والوں کی اکثریت وہی ہے جو مذہبی طبقات کی شدت پسندی سے خوفزدہ ہے ۔ ان کے تبروں کا ہدف ملائیت تو ہے ہی لیکن گاہے ملّا کی مذمت سے آگے بڑھ کر یہ سلسلہ مذہب کی مذمت تک جا پہنچتا ہے ۔ ایک ماہ قبل پنجاب یونیورسٹی میں پختون ثقافتی میلے پر یونیورسٹی کی مذہبی طلبہ تنظیم کے لڑکوں نے حملہ کیا تھا ۔ ان کا ہدف میوزک اور رقص بزورِ بازو بند کرانا تھا ۔ 18طلبہ زخمی ہوئے ، چار دن کے لیے یونیورسٹی بند کرنا پڑی ۔ مذہبی طلبہ تنظیم کی نیک نامی تو ظاہر ہے کہ ہونا ہی تھی لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ ایسی تنظیموں ہی سے نہیں بلکہ مذہب سے متنفر ہو جاتے ہیں ۔ 
قتل و غارت انسانی و حیوانی سرشت میں ہے ۔نفس اور اس کی جبلتوں پہ ایک ذرا سی نظر رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ جتنی دیر غصے ، نفرت اور انتقام جیسی جبلتیں غالب رہتی ہیں ، عقل سو رہتی ہے ۔ اپنے دیر پا نفع و نقصان سے انسان بے نیاز ہو جاتا ہے ۔اس کی ساری تگ و دو حریف کو پست و پامال کرنے ، اسے خون میں نہلا دینے تک محدود ہوتی ہے ۔ اکثر واقعات میں جھگڑا بہت معمولی بات پہ ہوتاہے ۔ بعض اوقات تو بچّوں کی لڑائی میں بڑے کود پڑتے ہیں ۔دونوں طرف سے انا کی جنگ ، ایک دوسرے کو رسوا کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔ نتیجہ قتل پہ منتج ہوتاہے ۔ نفس کو خود سے بہت محبت ہوتی ہے اور خود کو جھکانا اسے کسی صورت گوارا نہیں ہوتا ۔ بڑے بڑے اداروں میں بڑی بڑی شخصیات کے درمیان سرد جنگ چلتی رہتی ہے ۔ خود میاں محمد نواز شریف اور چوہدری نثار کے درمیان بھی ایسی کشمکش چلتی رہتی ہے ۔ کئی کئی مہینے وہ ایک دوسرے سے روٹھے رہتے ہیں ؛حتیٰ کہ اخبارات میں خبریں شائع ہونے لگتی ہیں۔
تو تکار اور ہاتھا پائی اکثر معمولی بات سے شروع ہوتی ہے ۔پہلے گاڑی گزارنے پر قتل ہو جاتاہے لیکن کبھی خبر شائع نہیں ہوتی کہ گاڑی گزارنے کے مسئلے نے ایک اور جان لے لی ۔کرکٹ میچ میں لوگ قتل ہو جاتے ہیں ۔کبھی آپ نے نہیں سنا ہوگا کہ کھیل نے ایک جان اور لے لی۔ جائیدادوں پہ قتل ہوں تو بھی سوشل میڈیا پر ایسی آہ و زاری دیکھنے میں نہیں آتی ؛حالانکہ وہاں بھائی بھائی کی جان لے لیتا ہے ۔ مذہب کا معاملہ بہت ہی نازک ہوتاہے ۔
سوشل میڈیا پر مذہبی اور سیکولر طبقات کے درمیان ایک مستقل جنگ بہت پہلے سے جاری ہے ۔بحیثیت مجموعی ملّا نا خواندہ ہے، اکثر متشدد رویہ ظاہر کرتاہے ، پوری دنیا سے وہ کٹا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے تئیں وہ معاشرے کا ٹھیکیدار بھی ہے ۔جہاں تک سیکولرز کا تعلق ہے تو تین چار طرح کے گروپ ان میں موجود ہیں۔ اوّل وہ ، مذہبی طبقے کی منافقت اور تشدد پسندی نے جنہیں مذہب سے متنفر کر دیا ہے ۔ دوسرے وہ جو یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ جیسی آزادی انہیں دی جائے ۔ گلیوں میں وہ شراب پئیں تو انہیں روکنے والا کوئی نہ ہو ۔ تیسرے وہ ، جن کی ذاتی زندگی کی کسی محرومی یاکسی حادثے نے ان کے اندر ایک سخت ردّعمل (Reaction)پیدا کیا ہے ۔ جسٹس شوکت صدیقی نے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کے ذریعے گستاخانہ مواد والے جو پیجز بند کرائے تھے، ان میں ایک پاکستانی فری تھنکرز بھی تھا۔ اس میں 25ہزار افراد رجسٹرڈ تھے ۔ ہر وقت وہا ں توہینِ مذہب جاری رہتی تھی ۔ ایسے لوگوں سے ملنے کی البتہ حسرت ہی رہی ، جو کسی دلیل کی بنا پر ملحد ہوں ۔ بھارت میں گائو ماتا کی توہین پر مسلمانوں کے قتل ، برما کے واقعات اور ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ''اسلامی‘‘ انتہا پسندی سے نمٹنے کے اعلان پر ان میں سے کسی کو مذمت کرتے نہ دیکھا۔ یہ کہا جا سکتاہے کہ منافقت کا پرچم دونوں طرف سے بلند ہے ۔ یہ لوگ نام نہاد مذہبی طبقات کی طرف سے کسی ایسی حرکت کے منتظر رہتے ہیں ، جس کے ذریعے مذہب پر حملہ آور ہونے کا موقع میسر آئے۔ ہماری مذہبی تنظیمیں اور ان تنظیموں کے طلبہ گروپ یہ مواقع فراہم کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لیتے ۔ سوشل میڈیا نے ایک اور جہت یہ متعارف کرائی ہے کہ کسی کے نام سے بھی جعلی اکائونٹ بنا کر توہین آمیز بیانات دئیے جاسکتے ہیں ۔مشال کے معاملے میں بھی ایسے بیانات دیکھنے میں آئے ہیں ۔ بظاہر معاملہ بہت پیچیدہ ہے لیکن آئی ٹی ماہرین کی مدد سے صوبائی حکومت اور پولیس انہیں سلجھا سکتی ہے ۔ 
ہمیشہ دنیا میں ہر کہیں انتہا پسند وں کے ہاتھوں قتل وغارت کے واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔امریکہ ،بھارت اور یورپ میں بڑھتے ہوئے واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔ خدا نے قصاص کا قانون اسی لیے دیا ہے کہ معاشرے کو خرابی سے بچایا جا سکے ۔ جو کسی بے گناہ کو قتل کرے ، ریاست اسے پھانسی دے گی ۔ کسی فرد نے توہینِ رسالت کی ہے یا نہیں ، اس کا تعین عدالت کرے گی ۔ اگر کوئی خود سے یہ سزا نافذ کرے گا تو ریاستی ادارے اسے پکڑ کر جیل میں ڈالیں گے ۔ اس پرمقدمہ چلے گا اور سزا ملے گی ۔ سات سال قبل سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے دو بھائیوں مغیث اور منیب کے معاملے میں یہی ہوا تھا ۔ 
انصاف، صرف اور صرف انصاف۔ قصاص یا دیت ۔ یہ واحد حل ہے ، جس سے عبرت قائم کی جا سکتی ہے ۔مشال خان کے کیس میں بھی انصاف ہی درکار ہے ۔ مارکیٹ میں انسانی زخموں کے سوداگر اپنی جگہ آوازیں لگا تے رہیں ۔ مذہب کو اس ریاست سے نکالنا ان کے بس کی بات نہیں ، خواہ وہ ایک ہزار سال تک ایڑیاں رگڑتے رہیں ۔ اس لیے کہ دین ہم نے کسی نیم خواندہ ، متشدد ملّاسے نہیں بلکہ اللہ کی کتاب ، سرکارؐ کے ارشادات اور صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل سے لیا ہے ۔ایک عام پاکستانی کو یہ اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved