تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-04-2017

’’بغل بَچّے‘‘ بچانے کی کوشش

جنوبی، وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا میں چین اور روس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے اور کسی کو پریشان کیا ہو یا نہ کیا ہو، بھارت کو ضرور الجھن سے دوچار کردیا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ذہن میں الجھن سے زیادہ پیٹ میں مروڑ اٹھا ہوا ہے۔ نئی دہلی کو بہت کچھ واقع ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور جو کچھ واقع ہوتا دکھائی دے رہا ہے اُس میں بھی بہت کچھ ایسا ہے جو اُس کی پسند اور مرضی کا نہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ اسلام آباد سے بیجنگ اور ماسکو کے تیزی سے فروغ پاتے ہوئے تعلقات نے نئی دہلی کو شدید بے چینی اور تقریباً بخار (یا خار!) جیسی کیفیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ زمینی حقیقتیں تبدیل تو نہیں ہوتیں مگر خیر، اُن سے متعلق تاثر تھوڑا بہت ضرور تبدیل ہوسکتا ہے۔ اِس وقت بھارت کے لیے علاقے میں کچھ ایسی ہی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ 
امریکا اور یورپ کے لیے بھارت کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ بھارت ایک بڑی منڈی ہی نہیں بلکہ اعلٰی تربیت یافتہ، منظّم و مطیع اور مطلوبہ نتائج پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والی افرادی قوت کے حصول کا ذریعہ بھی تو ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا اور یورپ نے مل کر بھارت کو نوازنے اور خطے میں غیر معمولی طور پر برتر پوزیشن کا حامل بنانے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی مگر بھارت کو پہلے کی طرح کھل کر نوازنا اب امریکا کے لیے ممکن رہا ہے نہ یورپ کے لیے۔ یورپ کی پریشانی یہ ہے کہ اسلامی دنیا اُس سے دور ہوتی جارہی ہے اور اُس کے باشندوں میں یورپ کے لیے نفرت کا گراف بھی بلند ہو رہا ہے۔ یورپ سے جُڑے ہوئے اسلامی ممالک کے باشندوں میں اہلِ یورپ کے لیے معاندانہ رویہ تیزی سے پنپ رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ڈیڑھ عشرے میں امریکا نے جو سفّاکانہ اور تباہ کن سلوک اسلامی ممالک سے روا رکھا ہے اُس میں یورپ بھی امریکیوں کا معاون رہا ہے۔ امریکا سے تو مسلمان جیسے تیسے نمٹ ہی رہے ہیں، یورپ کے لیے دلوں میں پلنے والی مخاصمت بھی اب رنگ لارہی ہے۔ یورپی ممالک میں مسلمانوں سے بڑھتا ہوا معاندانہ رویّہ اب شدید ردعمل پیدا کر رہا ہے۔ امریکا کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے یورپی ممالک نے بھی مسلمانوں پر عرصۂ حیرت تنگ کرنے کی ٹھانی تو جواب میں مسلمان بھی معاملات کو الجھانے پر اتر آئے ہیں۔ وسطی یورپ اور اسکینڈینیوین ممالک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ مسلمانوں اور اسلامی دنیا کے حوالے سے یورپی حکومتوں نے امریکا کے زیر اثر جو پالیسیاں اختیار کی تھیں وہ اب بیک فائر کرنے لگی ہیں۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے کا جو منطقی نتیجہ برآمد ہوسکتا تھا وہی تو برآمد ہو رہا ہے۔ یورپ میں ایک طبقہ ایسا ہے جو پالیسی کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی اپنی حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ ہر معاملے میں امریکا کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنے سے گریز کیا جائے۔ 
تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات نے بھارت کو شدید مخمصے کا شکار کردیا ہے۔ نئی دہلی کے بزرجمہر سمجھ نہیں پارہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد کے جواب میں ایسا کیا کریں کہ اُن کا ملک علاقائی سطح پر اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب ہو۔ پاکستان، چین، روس اور ترکی کے درمیان تیزی سے بڑھتا ہوا اشتراکِ عمل بھارت کے دردِ سر کا گراف بلند کر رہا ہے۔ ایران اور بھارت کے لیے معاملات کم و بیش ایک جیسے ہیں۔ 
بھارت نے اِس پیچیدہ صورتِ حال میں امریکا سے مدد چاہی ہے اور دوسری طرف وہ دفاعی صلاحیت اپ گریڈ کرنے کے لیے اسرائیل سے بھی مدد کا طالب ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے لیے نرم گوشہ دکھایا تھا مگر لگتا ہے کہ روس زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا۔ بھارت کے لیے راتوں کی نیند اڑانے والی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ روسی قیادت اب اُسے ایک طرف ہٹاکر پاکستان اور چین کی طرف چل پڑی ہے۔ چند ماہ کے دوران پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی اور سفارتی وفود کے تبادلے ہوئے ہیں اور یہ بات بھارت کو مزید تشویش میں مبتلا کرنے کے لیے انتہائی کافی ہے! 
اپنے قیام کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش کسی بھی مرحلے پر بھارت کے دائرۂ اثر سے باہر نہیں آسکا ہے۔ بھارتی قیادت نے اُسے ہمیشہ بغل بچّے کی طرح ٹریٹ کیا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت نے چونکہ کلیدی کردار ادا کیا تھا اس لیے پاکستان سے علٰیحدگی کی تحریک چلانے والی عوامی لیگ جب بھی اقتدار میں ہوتی ہے، بھارتی ''احسانات‘‘ کے زیر اثر، ملک کو بھارت کی طرف مزید دھکیلتی ہے۔ قومی سیاست، سفارت، معیشت اور معاشرت سبھی کچھ عوامی لیگ نے بھارت کے آغوش میں ڈال رکھا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ اب یہ عمل تیز تر ہوچلا ہے۔ 
مہا راج یونہی نہیں جاگ اٹھے۔ خطرے کی گھنٹی، بلکہ گھنٹہ بج رہا ہے۔ نریندر مودی کو اچانک یاد آگیا ہے کہ بھارت کے پڑوس، بلکہ پہلو میں بنگلہ دیش بھی ہے۔ اور یہ بھی کہ اگر بنگلہ دیش کو مزید کچھ مدت تک نظر انداز کیا گیا تو کچھ بعید نہیں کہ وہاں مسلم شدت پسند جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ چین نے بنگلہ دیشی قیادت سے روابط بہتر بناکر ترقی کے عمل میں بھرپور معاونت کی پیشکش کرکے پہلے ہی بھارتی قیادت کی نیند اڑا رکھی ہے۔ بنگلہ دیشی عوام اچھی طرح جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اُن کا ملک ساڑھے چار عشروں سے بھارت کی جیب میں بیٹھا ہوا ہے۔ نئی دہلی نے ہر معاملے میں ڈھاکہ کو دباؤ میں رکھا ہے۔ اور اب بھی وہ ایسا ہی کر رہا ہے۔ 
بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ بھارتی قیادت نے بھوٹان اور نیپال کو بھی نوازنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں تینوں ریاستوں کو ملانے والا ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ یہ سب کچھ محض اِس لیے کیا جارہا ہے کہ یہ خشکی سے گِھری یا باقی دنیا سے کٹی ہوئی یہ تینوں ریاستیں نئی دہلی کے کھونٹے سے بندھی رہیں، کسی اور کی طرف نہ دیکھیں۔ اب یہ دیکھنا رہ گیا ہے کہ یہ تینوں ریاستیں بدلتے ہوئے حالات میں اپنے حقیقی مفادات کو بھارت کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے میں کس حد تک کامیاب ہو پاتی ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved