تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-04-2017

نون لیگ اور تحریکِ انصاف

نون لیگ کو ایک مرض لاحق ہے ، تحریکِ انصاف کو دوسرا ۔ ایک احساس سے خالی ہے ، دوسری فہم و فراست سے ۔ کیا ایک ایک کر کے وہ سب تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دئیے جائیں گے ؟
بڑے بڑے دعوے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کرتے ہیں ۔ کسی روز کوئی ان سے سوال کرے کہ خلقِ خدا کو پینے کا صاف پانی وہ کیوں مہیا نہیں کرتے ۔ جو اسّی فیصد بیماریوں سے تحفظ کی ضمانت ہوتاہے ۔ جس پر میٹرو ٹرین سے ایک تہائی اخراجات بھی نہیں ہوں گے ۔ سکولوں اور کالجوں کو بہتر بنانے کی کوشش وہ کیوں نہیں کرتے۔اساتذہ کی تربیت ترجیحِ اوّل کیوں نہیں۔ پختون خوا کی طرح پولیس کو سیاسی رسوخ سے رہا کرنے کی تدبیر کیوں نہیں فرماتے ۔ پنجاب پولیس کیا ہمیشہ اسی طرح وحشی کی وحشی ہی رہے گی ؟ نو برس سے زمین کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے دعوے آپ داغ رہے ہیں ۔ خوں آشام پٹوار سے لوگوں کو نجات کیوں نہیں دلاتے ۔ کتنی ہی بار تھانہ کلچر بدلنے کا اعلان آپ نے کیا ہے ، اس کا کیا ہوا ؟ عمران خاں کوئی بڑا صاحبِ تدبیر نہیں ۔ ٹیم بھی اس کی ناقص تھی ۔ اس کے باوجود ہسپتالوں کو اگر وہ منظم کر سکا تو آپ کیوں نہیں کر سکتے ۔ پیپلزپارٹی کے عہد میں بجلی کی بندش پر ایک کہرام آپ نے برپا کر دیا تھا۔ مینارِ پاکستان کے سائے تلے ، احتجاجی کیمپ قائم کیا تھا۔ چار سال گزر جانے کے باوجود صورتِ حال ویسی کی ویسی کیوں ہے ؟ نندی پور پاور پلانٹ کا ریکارڈ مشکوک حالات میں جلا دیا گیا اور پھردس سال کے لیے پنجاب حکومت کی یہ ایجاد چینی کمپنی کے حوالے کر دی گئی۔ 
بے تاب ہو کر خادمِ پنجاب لودھراں پہنچے اور جہانگیر ترین کے حلقہ ء انتخاب کے لیے اربوں روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ اس پر بھی اطمینان نہ ہو سکا تو جہانگیر خاں کی مذمت کی کہ کروڑوں کے قرضے اس نے معاف کر الیے ہیں ۔ عجیب بات ہے ۔ مرکز اور صوبے میں حکومت آپ کی۔ بینک اور افسر آپ کے ، نیب آپ کے گھر کی باندی۔ چیخنے چلانے کی بجائے اس کے خلاف آپ اقدام کیوں نہیں کرتے ؟
وزیرِ اعلیٰ کی ناراضی کا سبب کچھ اور ہے ۔ رانا مشہود ایسے کتنے ہی لوگ نون لیگ میں براجمان اور معتبر ہیں ، جو ریکارڈ پر ہیں کہ کاروباریوں سے روپیہ سمیٹ کر حمزہ شہباز سمیت شریف خاندان کے کاروباریوں میں وہ بانٹتے رہے ہیں ۔جہانگیر خان کا جرم یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں شریف خاندان کی غیر قانونی شوگر ملوں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کپاس کی کاشت کا علاقہ ہے ۔ نئی شوگر مل وہاں تعمیر نہیں کی جا سکتی ۔ نہ ہی دوسری جگہ سے اکھاڑ کر لے جائی جا سکتی ہے ۔ شریف خاندان کو مگر قانون کی کیا پرواہ۔ وسطی پنجاب سے اپنی فیکٹریاں اکھاڑ کر وہ رحیم یار خاں اور بہاولپور لے گئے ۔ اوّل اوّل ایسا لگا کہ عدالت کو چکمہ دینے میں وہ کامیاب رہے ہیں ؛تا آنکہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔ عدالتِ عالیہ کے نیک نام چیف جسٹس اور سینئر ججوں کو سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت کا حکم دیا۔ ایک مرحلے پر یہ دلچسپ تاویل شریف خاندان کے وکیل نے پیش کی کہ شکر کے نہیں ، یہ بجلی پیدا کرنے کے کار خانے ہیں ۔ عدالت نے پوچھا کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے خام مال کون سا استعمال ہوتاہے ۔ ظاہر ہے کہ گنے کا پھوک۔ تینوں متعلقہ اضلاع کے سیشن ججوں کو عدالت نے حکم دیا کہ ان فیکٹریوں کو سربمہر کر دیں ۔ شریف خاندان نے کبھی خواب میں بھی سوچا نہ ہوگا کہ یہ سلوک ان کے ساتھ ہو سکتاہے ۔
اب ان کا بس نہیں چلتا ورنہ ترین کو الٹا لٹکا دیں ۔ ان کا میں مداح نہیں ہوں ۔شہباز شریف کی جگہ وہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہو جائیں تو افتادگانِ خاک کی تقدیر بدل نہ جائے گی ۔ کسی بھی کاروباری آدمی سے بہت زیادہ حسنِ ظن کا جواز نہیں ہوتا۔ با ایں ہمہ ان کی جرأت و جسارت کو داد دینی چاہئیے ۔ دریا میں رہتے ہوئے، مگر مچھ سے بیر پالا ہے ۔ ان لوگوں کے لیے یہ عبرت کا مقام ہے ، ہمیشہ جو مایوسی پھیلاتے رہتے ہیں ۔ جو یہ کہتے ہیں کہ حالات بدل نہیں سکتے ۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے : لیس للانسان الّا ما سعیٰ ۔ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے ، جس کی اس نے کوشش کی ۔ ذاتی زندگی سے زیادہ یہ اصول اجتماعی حیات کے بارے میں ہے ۔ ؎
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے 
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف 
آئندہ الیکشن کے بعد بھی شریف خاندان کی حکومت اگر قائم رہی تو اس کے سب سے زیادہ ذمہ دارعمران خاں ہوں گے ۔ 
پی ٹی آئی کے ایک ممتاز لیڈر سے کل شب دیر تک گفتگو رہی ۔ ان سے عرض کیا کہ دیہی پنجاب تبدیلی کے لیے بے تاب ہے مگر کوئی پکارنے والا نہیں ۔ شریف خاندان کے اقتدار میں زراعت ہمیشہ برباد ہوتی ہے ۔ اب کی بار زیادہ ہوئی ۔ بجلی کابحران تو ہے ہی ، نہروں میں امسال پانی چالیس فیصد کم رہا ۔ رشوت کے بغیر گندم کے کاشت کار کو بوری نہیں ملتی ۔ کرم کش ادویات میں ملاوٹ عام ہے ۔ آسانی سے اچھا بیج دستیاب نہیں ۔ کھاد اکثر چور بازار سے خریدنا پڑتی ہے ۔ بے وسیلہ ، کم تعلیم یافتہ کسان صدیوں سے کسی نجات دہندہ کی راہ تک رہا ہے ۔ ایک صدی ہوتی ہے ، اقبالؔ نے کہا تھا۔ ؎
دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے 
گرتے گرتے دھان کے دام آدھے سے بھی کم ہو گئے ۔ گنّے کی نقد ادائیگی نہیں ہوتی ۔ ٹریکٹروں اور ٹرالیوں میں نیشکرلادے ، کھلے آسمان تلے ، تپتی ہوئی دھوپ میں وہ پڑے رہتے ہیں ۔ دس پندرہ فیصد تک گنے کا وزن کم ہو جاتاہے ۔ وزن کرنے والا کانٹا کبھی نگاہ سے پوشیدہ بھی ہوتاہے ۔ آلو کا کاشتکار خستہ و خراب ہے کہ قیمت برائے نام۔ سبزی اگانے والے اور بھی برباد کہ بھارت سے درآمد کی اجازت ہے ، جہاں بجلی مفت، کھاد کے نرخ کم، کرم کش ادویات بہتر اور بیج اعلیٰ قسم کے ہیں ۔ 
کاشتکاروں کے لیے اب تک تحریکِ انصاف کوئی پروگرام کیوں مرتب نہیں کر سکی؟ جہانگیر ترین ہی کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی جاتی ۔ 
کس چیز نے کپتان کو یہ اعلان کرنے سے روک رکھا ہے کہ انہیں اقتدار ملا تو کرم کش ادویات میں ملاوٹ کا وہ سد باب کر دیں گے ۔ فقط اعلان ہی نہیں ، منصوبہ بندی چاہیے کہ کسانوں کے لیے بجلی کے نرخ کیا ہوں گے ۔ کھاد کی چوربازاری کس طرح ختم ہو گی ۔ زرعی سائنس دانوں اور دوسرے ماہرین کے ساتھ مشاورت کے بعد اعلان کیا جا سکتاہے کہ بہتر قسم کے بیج کی فراہمی کس طرح ممکن بنائی جا ئے گی ۔ آج کی جدید دنیا میں کیا یہ مشکل کام ہے ؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت کھیتوں کی فواروں سے آبپاشی کا بندوبست کیا جائے ۔ بڑے پیمانے پر ہو تو زیادہ سے زیادہ بیس پچیس ہزار روپے فی ایکڑ خرچ ہوں گے ۔ پیداوار میں اضافہ چالیس فیصد ہوگا۔ نوے فیصد پانی کی بچت رہے گی ۔ گویا ایک ایکڑ زمین بڑھ کر ڈیڑھ ایکڑ ہو جائے گی۔پانچ برس میں مزید دوکروڑ ایکڑ اراضی کاشت کی جا سکے گی ۔ پاکستان وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کا اناج گھر بن سکے گا۔ 
نون لیگ کو ایک مرض لاحق ہے ، تحریکِ انصاف کو دوسرا ۔ ایک احساس سے خالی ہے ، دوسری فہم و فراست سے ۔ کیا ایک ایک کر کے وہ سب تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دئیے جائیں گے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved