دبے پائوں تبدیلیاں آتی چلی جاتی ہیں۔ بعض اوقات ہم ان کا ادراک نہیں کر پاتے۔ شریف خاندان کی گرفت ٹوٹ رہی ہے۔ ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
پانامہ کیس کے فیصلے میں تاخیر کا نتیجہ مثبت رہا۔ سرکاری لیڈروں نے دھمکیاں دینا بند کر دیں۔ سمجھوتے کی طرف وہ مائل دکھائی دیتے ہیں۔ اکثریت کو یقین ہے کہ عدالتِ عظمیٰ شریف خاندان کے خلاف حکم صادر کرے گی۔ کیا اس کے نتیجے میں قبل از وقت الیکشن ہوں گے یا نون لیگ نیا وزیرِ اعظم متعین کرے گی۔ حکمران جماعت کو یہی سازگار ہے کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہونے سے پہلے الیکشن نہ ہو۔ چند ماہ میں بجلی کی مانگ پوری نہیں کی جا سکتی۔ موسمِ خزاں میں الیکشن کا مطلب یہ ہو گا کہ تاریخ کے تلخ ترین موسمِ گرما پہ برہم ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نون لیگ کو مسترد کر دے۔ پوچھا جائے گا کہ شہباز شریف نریندر مودی کو جس بجلی کی پیشکش فرما رہے تھے، وہ کہاں گئی؟
نئے وزیرِ اعظم کے لیے اسحٰق ڈار کا نام زیرِ غور ہے۔ وہ محنتی آدمی ہیں، آقا کے موڈ اور مزاج کو ملحوظ رکھتے ہیں اور بات چیت کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ پانامہ کیس کا فیصلہ محترمہ مریم نواز کے سیاسی مستقبل کے لیے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ آئندہ انتخابات میں جو صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑنا چاہتی تھیں۔ اس کا سبب خاندانی اختلافات ہیں۔ وہ ناخوش ہیں کہ پنجاب کے افسر ان کی سفارش کو پوری اہمیت نہیں دیتے۔ حمزہ شہباز کے لیے پیغام ہے کہ وہ حدود میں رہیں۔ ناراضی اپنی جگہ، خاندان کی خواتین کا جس میں دخل ہے، دونوں بھائی ایک دوسرے کی مجبوری ہیں۔ شہباز شریف کی تگ و تاز انہی کا نہیں، بڑے بھائی کا بھی اثاثہ ہے۔ پارٹی میں مگر وہ کچھ زیادہ مقبول نہیں۔ ارکانِ اسمبلی کو وزیرِ اعظم سے بھی شکایت ہے۔ شہباز شریف سے چڑچڑے پن کا شکوہ مگر زیادہ رہتا ہے۔ سرکاری افسروں کو بھی ہمہ وقت وہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں۔ ایک ہی کشتی میں سوار، ایک ساتھ ہی وہ تیر سکتے ہیں۔ اگر ڈوبے تو ایک ساتھ ہی ڈوبیں گے۔
یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ الیکشن بڑی حد تک دھاندلی سے پاک ہوں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ سپہ سالار قمر جاوید باجوہ نے انہیں اس کا یقین دلایا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے۔ 2013ء میں دھاندلی کی شکایات پر عسکری قیادت غور کرتی رہی ہے۔ اس نتیجے پر وہ پہنچی کہ کسی بھی سطح کی خرابی افواج کے لیے بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ ''کچھ بھی ہو، آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ہم یقینی بنائیں گے‘‘ تین ماہ ہوتے ہیں، ایک ممتاز جنرل نے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھ سے کہا۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ نگران حکومت کی اپنی کوئی قوت نہیں ہوتی۔ انحصار اس کا افواج پر ہوتا ہے۔ فوج اگر پولیس کو جتلا دے کہ گڑبڑ برداشت نہ ہو گی تو آدھا مسئلہ فوراً ہی حل ہو جائے گا۔ 2008ء میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہی کیا تھا۔ 2013ء میں البتہ بیزار ہو کر معاملے سے وہ الگ ہو گئے۔ میاں صاحب اور زرداری صاحب نے باہمی رضامندی سے ایک عمر رسیدہ، اونگھتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب کیا تھا، جو آرمی چیف کا چہرہ شناخت کرنے سے بھی قاصر تھا۔ الیکشن کمیشن نے 88 ہزار پولنگ سٹیشنوں میں فوجی افسروں کی تعیناتی کا مطالبہ کیا؛ تاہم یہ اجازت دینے سے انکارکر دیا کہ دھاندلی کی صورت میں وقتی طور پر بھی پولنگ وہ روک سکیں۔ پچھلی دھاندلی کی ڈسی ہوئی پی ٹی آئی بھی اپنی سی کوشش کرے گی۔ نون لیگ پولیس کے علاوہ، اساتذہ، پٹواریوں اور یونین کونسلوں کے ملازمین کو استعمال کرتی ہے۔ پچھلی بار پنجاب میں اس کی کامیابی یقینی تھی؛ چنانچہ سول سروس اور انتخابی عملے نے اس کا ساتھ دیا۔ نجم سیٹھی کے براہِ راست دھاندلی میں ملوث ہونے کا ثبو ت نہیں ملا مگر
یہ آشکار ہے کہ خرابی روکنے سے کوئی دلچسپی انہیں ہرگز نہ تھی۔ عمران خان کے ذاتی طور پر وہ مخالف تھے، دو عشرے قبل جن کی برپا کردہ تقریبات میں کپتان کبھی شامل ہوا کرتا۔ فلسفی نے سچ کہا تھا: آپ کو زندگی میں بدترین دشمن اپنے دوستوں ہی میں ملتے ہیں۔ سیٹھی کو عمران خان کے نظریات سے چڑ ہے، جو خامیوں کے باوجود ایک روایتی پاکستانی ہیں۔
کیا کراچی میں فاروق ستار کی ایم کیو ایم، سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں نون لیگ ووٹروں کو بہا لے جائے گی؟ ناچیز کا خیال مختلف ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ مخالفت کا کیسا ہی ڈرامہ رچائیں، اندر خانہ مفاہمت موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کی رہائی اور شرجیل میمن کی واپسی اسی کا نتیجہ ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ یہاں بھی وہی ہو گا، سالِ گزشتہ جو آزاد کشمیر میں ہوا۔
سندھ حکومت بدترین ہے۔ کراچی میں کوڑے کے ڈھیر پڑے ہیں اور دیہی سندھ کے قصبات میں نامکمل عمارتیں بھٹو ازم پہ نوحہ کناں ہیں، پیپلز پارٹی کی جو واحد متاع ہے۔ بہت دن تک مرنے والوں کے نام پر ووٹ کی بھیک وہ مانگ چکے۔ اس لیے وہ مضبوط ہیں کہ چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ قدرت کا قانون مگر یہ ہے کہ زندہ وہی چیز رہتی ہے، خلقِ خدا کو جس سے فائدہ پہنچے۔ اندرونِ سندھ امیدواروں کی تلاش اور پارٹی کو منظم کرنے کے لیے کپتان پر تول رہا ہے۔ وزیرِ اعظم پہلے ہی متحرک ہیں۔ آزاد امیدوار، تحریکِ انصاف اور نون لیگ صوبائی اسمبلی کی 25، 30 سیٹیں جیت سکے تو مخلوط حکومت بن سکتی ہے۔ جیسے ہی موقع ملا، اہلِ سندھ اپنی زنجیر توڑ ڈالیں گے۔ پارٹی نہیں، یہ ایک مافیا ہے، عوام دشمن وڈیروں کا اتحاد۔ اقتدار کو زرداری صاحب لوٹ مار کا لائسنس سمجھتے ہیں۔ اپنی عقل پہ انہیں ناز بہت ہے۔ بلاول بھٹو کا کردار محدود کر کے سیاسی بحالی کا آخری امکان بھی آنجناب نے ختم کر دیا۔ جس آدمی نے اپنی اولاد کو ان کی مرحومہ والدہ کی جائیداد نہیں دی، اقتدار میں کیسے شریک کرے گا؟ بار بار عرض کرتا ہوں، پلڈاٹ کے سروے کو نظر انداز نہ کیا جائے، جس کے مطابق 62 فیصد سندھیوں نے کہا کہ فوجی حکومت سول سے بہتر ہوتی ہے۔ مستقل مزاج اور جرات مند مصطفی کمال 8، 10 سیٹیں جیت سکتے ہیں۔ یہ رہائی کی نوید ہو گی، پیپلز پارٹی سے بھی۔
ایک موثر حکمتِ عملی بنا سکیں تو پنجاب کا الیکشن عمران خان جیت بھی سکتے ہیں، امید مگر کم ہے۔ خود کو وہ ایک برگزیدہ آدمی سمجھتے ہیں۔ خوش فہمی میں مبتلا رہتے اور مشورہ کم ہی قبول کرتے ہیں۔ پارٹی ان کی گروہ در گروہ بٹی ہے۔ قومی مسائل پر ریاضت کی بجائے دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ بہترین کو نظر انداز اور ادنیٰ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے باوجود تبدیلی کے خواہش مند، پُرعزم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان کی ہم نفس ہے۔ شریف خاندان کے فرسودہ اندازِ اقتدار سے یہ نوجوان نجات چاہتے ہیں، جس میں پولیس او ر عدالتی نظام کی بہتری کا تصور بھی کیا نہیں جا سکتا۔ تعلیمی ادارے اور پٹوار خانے جوں کے توں رہیں گے۔ پینے کا صاف پانی کبھی میسر نہ آئے گا اور بلدیاتی اداروں کو کبھی اختیار نہ ملے گا۔
ٹکٹوں کی تقسیم میں پہلے کی سی حماقت نہ کی تو آئندہ الیکشن میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی 30، 35 سیٹیں تحریکِ انصاف جیت لے گی۔ آزاد امیدوار بھی بڑی تعداد میں کامیاب ہوں گے۔ وفاق میں اقتدار کا حصول شریف خاندان کے لیے اب کی بار سہل نہ ہو گا۔ فوج کا کردار بڑھ جائے گا اور پوری ذمہ داری سے عرض ہے کہ نون لیگ سے ہرگز وہ خوش نہیں۔ خاص طور پر اس کی بھارتی پالیسی سے۔
دبے پائوں تبدیلیاں آتی چلی جاتی ہیں۔ بعض اوقات ہم ان کا ادراک نہیں کر پاتے۔ شریف خاندان کی گرفت ٹوٹ رہی ہے۔ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں