سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پانامہ کیس فیصلے کے حوالے سے کہا ہے کہ کچھ نہیں ہو گا اور وزیر اعظم نواز شریف ہی رہیں گے۔ بادی النظر میں امکانات بھی یہی ہیں کیونکہ اگر سزا دینی ہوتی تو ملزم پر فرد جرم عائد کی جاتی اسے صفائی کا موقع دیا جاتا اور پھر فیصلہ کیا جاتا۔ یہاں ایساکچھ بھی نہیں ہوا اوراگر چاہا بھی جاتا تو ایسا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے اور جہاں تک وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کا سوال ہے تو اس کے لیے یہ فورم ہی نہیں ہے اور یہ اختیار صرف الیکشن کمیشن کے پاس ہے اس سلسلے میں بھی عدالت یہ کیس الیکشن کمیشن کو کارروائی کے لیے بھیج سکتی ہے جس کے فیصلے کے بعد اپیل اور ریویو کا حق بھی موجود ہو گا۔ میرے خیال میں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان معاملات پر کوئی با اختیار جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا جائے جو ان معاملات کی تفتیش کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جبکہ اس کے بعد بھی فیصلہ سپریم کورٹ نے نہیں کرنا بلکہ ہائی کورٹ اپنی اوریجنل جیورس ڈکشن میں ایسا کر سکتی ہے اور یہا ں بھی اپیل وغیرہ کا حق موجودہ ہو گا۔
اس کیس کے فیصلے کو عدالت صدیوں تک یاد رہ جانے والا کیسے بناتی ہے۔ یہ فیصلے ہی سے ظاہر ہو گا ورنہ کئی طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ۔ فیصلہ عدالت نے آئین اور قانون کی حدود کے اندر رہ کر ہی کرنا ہے۔ مزید برآں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بعد بھی عدالت وزیر اعظم کو یہ حکم نہیں دے سکتی کہ اس کمیشن کی رپورٹ آنے تک وہ اپنے عہدے سے الگ رہیں کیونکہ وزیر اعظم کو ہٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یا تو اس کے خلاف اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد منظور ہو جائے یا کسی وجہ سے وہ خود مستعفی ہو جائے۔جہاں تک براہ راست سزا دینے کا تعلق ہے تو عدالت توہین عدالت ایکٹ کے تحت ہی یہ اختیار استعمال کر سکتی ہے جیسا کہ اس نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے کیس میں کیا تھا یا کسی زمانے میں صدر مملکت کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اسمبلیوں کو توڑ کر وزیر اعظم کو گھر بھیج دے جو کہ اب وہ اختیار بھی نہیں رہااور جو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے صدر زرداری کی حکومت نے ختم کر دیا تھا۔چنانچہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اور مقدمہ چلنے کی صورت میں بھی یہ معاملہ اچھی خاصی طوالت کا شکار ہو سکتا ہے۔کچھ لوگ رائے رکھتے ہیں کہ ایسے حالات میں سپریم کورٹ کو ابتدائی مراحل ہی میں یہ معاملہ کمیشن کے حوالے کر دینا چاہیے تھا تاکہ اس میں اب تک خاطر خواہ پیش رفت ہو چکی ہوتی۔
تاہم‘ اگر کسی نہ کسی انداز میں فیصلہ نواز شریف کے خلاف آ جاتا ہے تو بھی نون لیگ کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑنے والا کیونکہ نواز شریف ایک طرح سے سیاسی شہادت کے رتبے پر فائز ہو چکے ہوں گے جس بنا پر اگلے الیکشن میں اس جماعت کو ہمدردی کے اضافی ووٹ بھی مل جائیں گے۔ اس لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فیصلہ خلاف آنے پر بھی کبڑے کو یہ لات راس ہی آئے گی اور ان دونوں جماعتوں کے ہاتھ کچھ آنے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی!
نواز لیگ کے حکمران اور لیڈر جو بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں ووٹ کارکردگی پر ملیں گے تو اس دلیل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو کے پی میں اس کی کارکردگی کو اس حد تک فیصلہ کن قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اسے الیکشن جتوا سکے اور پیپلز پارٹی کی کارکردگی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اپنے حالیہ عہد اقتدار میں سوائے دادا گیری کے اس کے پلڑے میں کچھ نظر نہیں آتا حتیٰ کہ اس کے اپنے صوبے میں کراچی کا جو حال ہے اور جو کارگزاری سندھ کے اندر ہوئی ہے وہ بھی سب کو نظر آ رہی ہے۔
نواز لیگ پر اگر کرپشن کے الزامات ہیں تو پیپلز پارٹی بھی ان الزامات میں گوڈے گوڈ ے دھنسی نظر آتی ہے تاہم نواز لیگ کی کارکردگی سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اس کے انداز حکمرانی پر آپ جتنے بھی اعتراضات اٹھا لیں ڈویلپمنٹ کے حوالے سے اس کی کارکردگی سے کوئی اندھا ہی انکار کر سکتا ہے جبکہ سی پیک جیسا گیم چینجر بھی صرف اور صرف موجودہ حکومت ہی کی کارگزاری کی ذیل میں آئے گا۔ اس بارے زرداری صاحب جو چاہے کہتے رہیں ۔ اس کے علاوہ ن لیگ نے اپنے ادوار میں جو لاتعداد بھرتیاں کیں وہ بھی اب اس کے کام آئیں گی جبکہ پیپلز پارٹی والے دوستوں نے یہ بھرتیاں باقاعدہ فروخت کیں جس وجہ سے بھرتی ہونے والے ان کے ممنون احسان بھی نہیں ہیں ۔ ہمیں یاد ہے کہ نواز لیگ کے ایک دور میں اتنے نائب تحصیلدار بھرتی کئے گئے تھے کہ ایک ایک گھر سے دو نائب تحصیلدار بھرتی کئے جانے کی مثالیں بھی موجود ہیں حتیٰ کہ ایک لحاظ سے پورے صوبے میں قانونگوئوں کی تعداد نائب تحصیلداروں سے کم پڑ گئی تھی۔
مزید برآں سیاست بازی اگر ایک فن ہے تو نواز لیگ اس میں طاق ہونے کا دعویٰ بھی کر سکتی ہے۔ الیکشن جیتنے کے جتنے گر اسے ازبر ہیں کوئی اور جماعت ،پیپلز پارٹی سمیت اس کی گرد پا کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ پھر اپنے طول طویل ادوار اقتدار میں اس نے دوسری جماعتوں کی نسبت خود کو زیادہ مضبوط اور قابل کار بھی بنا دیا ہے اور اس کے دھڑوں کو آسانی سے توڑا نہیں جا سکتا جبکہ نواز شریف کی مقبولیت اس جماعت کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اور دوسری دونوں جماعتوں کے پاس اس تجربے اور صلاحیتوں کا مالک ایک بھی لیڈر موجود نہیں ہے جبکہ محض نعرے بازی سے سیاست میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ یہ الیکشن جیتا جا سکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ جب عدلیہ نے کہہ دیا ہے کہ اس کیس میں فیصلے کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا تو ایسے ہی نہیں کہہ دیا اور چند روز ہی کی بات ہے سب کچھ قوم کے سامنے آ جائے گا اور جو قوم کے لیے یا کچھ جماعتوں کے لیے واقعی حیران کن بھی ہو سکتا ہے‘ یعنی ع
چند روز اور میری جان فقط چند ہی روز
آج کا مقطع
اُمّیدِ وصل کو ظفر اِتنا غلط نہ جان
اِس جُھوٹ سے تو سوچ میں سچائی آئے گی