فضااعظمی کراچی میں مقیم ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر ہیں ان کا کم و بیش سارا کلام مجھ تک پہنچا ہے جس میں تین جلدیں کلیات کی ہیں اس کے علاوہ منتخب کلام ہے۔'' مثنوی زوال ِآدم، آئینۂ امروز و فردا اور ان کی کچھ شاعری کا انگریزی زبان میں ترجمہ جو فرزانہ احمد نے کیا ہے۔ جلد اول کے فلیپ نگاروں میں اسلوب احمد انصاری، ڈاکٹر منظور احمد، ڈاکٹرفرمان فتح پوری،حسین انجم اور خواجہ رضی حیدر ہیں۔ اس میں شاعر کے 4مجموعے شامل ہیں جبکہ دیباچہ نگاروں میں رضی مجتبیٰ ڈاکٹر شکیل رضا، ڈاکٹر سرادار زیدی ،خواجہ رضی حیدر ،عشرت رومانی ،آغا نور محمد ،پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد رضوی ،ڈاکٹر احمر رفاعی ،مسلم شمیم ،ڈاکٹر شکیل نوازش رضا ،پروفیسر ڈاکٹر فردوس انور قاضی ،معین الدین احمد انصاری ،ڈاکٹر انور سدید اور پروفیسر سحر انصاری شامل ہیں اس جلد میں چار مجموعے'' جو دل پہ گزرتی ہے، کرسی نامہ پاکستان ، مرثیہ مرگِ ضمیر اورتیری شباہت کے دائرے میں‘‘ شامل ہیں۔ دوسری جلد میں یہ پانچ مجموعے ہیں'' عذاب ہمسائیگی ،آواز شکستگی، خاک میں صورتیں،مثنوی زوال آدم اور شاعر محبوب اور فلسفی ‘‘۔ اس کے فلیپ نگاروں میں عطاء الحق قاسمی ‘ سیدمظہر جمیل ،امجد اسلام امجد اور مسلم شمیم ہیں اور دیباچہ نگاروں میں خوشونت سنگھ ،حقانی القاسمی ‘ تابش مہدی‘ ڈاکٹر محمد علی صدیقی‘ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور مناظر عاشق ہرگانوی ڈاکٹر مظفر احمد ڈاکٹر انور سدید ڈاکٹر اسلم فرخی ، جسٹس(ر) ماجدہ رضوی، ڈاکٹر وزیر آغا ،سید محمد ابوالخیر کشفی ،پروفیسر فتح محمد ملک، سید مرتضیٰ موسوی اور انیس احمد شامل ہیں۔ تینوں جلدیں العلم انٹر پرائزز لاہور نے چھاپی ہیں اور ہر جلد کی قیمت ایک ہزار روپے ہے ''ہم عصر شعری اثاثہ‘‘ کے عنوان سے منتخب کلام اکادمی بازیافت کراچی نے شائع کیا ہے جسے ہمسایہ داری کا بھی نام دیا گیا ہے۔ یہ شاعر کا اپنا منتخب کردہ کلام ہے اور اس کی قیمت120روپے رکھی گئی ہے مثنوی زوال ِ آدمی بھی اکادمی بازیافت ہی نے چھاپی اور قیمت200روپے رکھی ہے آئینہ امروز وغیرہ بھی اسی ادارے نے شائع کر کے اس کی قیمت400روپے رکھی ہے۔ دیباچہ مبین مرزا کے قلم سے ہے نظموں کے علاوہ اس میں چند غزلیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ شاعری کا ترجمہLet happiness be the currencyکے عنوان سے ہے۔ یہ بھی اکادمی بازیافت ہی کی شائع کردہ ہے۔ اس کی قیمت 250روپے ہے ان کتابوں پر جیّد اور جغادری نقادوں اور ادیبوں نے اپنی تحسینی رائے کا اظہار کیا ہے جو اپنی جگہ پر نہایت قابل قدر ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے کلیات فضا اعظمی جلد سوم پر جو رائے دی ہے وہ اس شاعر اور شاعری کی تقسیم میں کافی مدد گار ہونے کا درجہ رکھتی ہے ،ان کے خیال میں۔
جناب فضا اعظمی ایک ایسے وقت میں قومی و ملی شاعری کی روایت کو تازگی بخشنے میں مصروف ہیں جب قومی و ملی وابستگی ہمارے ہاں رجعت پسندی کی دلیل ٹھہری ہے۔ زمانے کا یہ الٹ پھیر بڑا معنی خیز ہے کہ حالی سے اقبال تک جو ملی طرز احساس اور جو قومی طرز فکر اردو شاعری کی سرسبزی و شادابی کا سرچشمۂ فیضان تھا آج اس سے روگردانی ہماری ادبی دنیا کا سکہ رائج الوقت ہے۔فضا اعظمی اس مقبول عام چلن سے انحراف اور قومی و ملی شعری روایت کے اثبات کے شاعر ہیں۔
چند غزلوں کے علاوہ یہ تمام کی تمام شاعری نظموں پر مشتمل ہے اور وہ بھی تقریباً سب کی سب پابند نظموں کی شکل میں ہے اگرچہ پابند شاعری کا چلن اب عام نہیں رہا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا کہ پابند نظم کی روایت علامہ اقبال کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے اور اردو نظم نے بطور خاص جتنے پیرہن تبدیل کیے ہیں۔ آزاد سے ہو کر یہ نثری نظم تک آ پہنچی ہے تاہم‘ قومی و ملی نظمیں اسی صورت لکھی جا سکتی تھیں کیونکہ ایسی شاعری پڑھنے اور پسند کرنے والا طبقہ ابھی تک موجود ہے اور ایسے قارئین کو یہ شاعری یقیناً پسند خاطر ہو گی جملہ مضمون نگار حضرات نے ان کتابوں کی اشاعت پر شاعر کو بجا طور پر مبارکباد کا مستحق سمجھا ہے۔
اور‘ اب آخر میں نمونے کے طور پر فضااعظمی کی ایک نظم۔
خاک دانِ تاریخ
کون کہتا ہے کہ تاریخ سکھاتی ہے سبق
کس نے اس دہر میں تاریخ سے سیکھا ہے سبق
چند روندے ہوئے آثارِ قدیمہ کے کھنڈر
چند دریائوں میں بہتی ہوئی تاریخِ رقیق
خاکدانوں میں سمیٹا ہوا کوڑا کرکٹ
بادشاہوں کی حکایاتِ فتوحات کا ذکر
حکمرانوں کی رقابت کے بھیانک قصے
کہیں تاریخ کی بنیاد پہ مسجد ٹوٹی
کہیں تاریخ کی بنیاد پہ مندر ٹوٹا
کہیں تاریخ کی بنیاد پہ چھینے گئے ملک
کون کہتا ہے کہ تاریخ سکھاتی ہے سبق
کس نے اس دہر میں تاریخ سے سیکھا ہے سبق
آج کا مطلع
تنہائی آئے گی‘ شب رسوائی آئے گی
گھر ہے تو اس میں زینت و زیبائی آئے گی