تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     20-04-2017

بھارت میں محنت کشوں کی حالت زار

'ہندتوا‘ کے شائو نزم، ترقی اور غربت میں کمی کی نعرہ بازی اور کرپشن مخالف ناٹک کے لبادے میں مودی سرکار ہندوستان کے محنت کشوں اور محروم عوام پر پہلے دن سے ہی تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے جو روز بروز بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مودی سرکار‘ سامراجی کار پوریٹ سرمائے اور ہندوستانی بورژوازی کو یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ جس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے خزانوں کے منہ کھول کر مودی کو اقتدار دلوایا تھا وہ کام پوری طرح سے ہو رہے ہیں ۔ 'طبقاتی جنگ‘ میں یہ وقت ہندوستانی محنت کشوں کے لیے بہت نازک اور کٹھن ہے۔کارپوریٹ میڈیا کی عوام دشمنی اور بورژوا ریاستی عدلیہ کا عوام کی جانب تحقیر آمیز رویہ بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔میڈیا عدالتی فیصلوں کے آنے سے پہلے ہی محنت کشوں کو ہر جرم کا مجرم قرار دے دیتا ہے۔محنت کشوں کی تحریکوں کو سرمایہ دار میڈیا '' ہندوستان کے معاشی چہرے پر کلنک‘‘ کہتا ہے ۔پاکستانی میڈیا کی طرح ہندوستان میں بھی محنت کشوں کی ہر جدوجہد کو 'ملک دشمن‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان کے بہتانوں کے مطابق یہ ' بیرونی سرمایہ کار کمپنیوں پر انتہائی منفی اثرات اور ریاست کی معاشی سرگرمیوں کے لیے بہت نقصان دہ ہیں‘۔ 22مئی2013ء کو 'ماروتی فیکٹری ‘کے محنت کشوں کی' ضمانت درخواست ‘رد کرتے ہوئے ہریانہ ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا تھاکہ''یہ ایک انتہائی بد قسمت واقعہ ہے جس سے دنیا کی نظروں میں ہندوستان کی ساکھ خراب ہوئی ہے، لیبر شورش کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار ہندوستان میں پیسہ لگانے سے گریز کریں گے‘‘۔ اس تحریک کے دوران اس وقت گجرات کے وزیر
اعلیٰ نریندر مودی کی جانب سے ہندوستان میں گاڑیاں بنانے والی سب سے بڑی جاپانی کمپنی کو سرعام اور پس پردہ حمایت کے نتیجے میں ماروتی اور مودی کے درمیان گجرات میں نئی فیکٹری کھولنے کی ڈیل طے پائی جہاں ایسی ہڑتالوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔10مارچ2017ء کو' گڑ گائوں‘ سیشن کورٹ نے ماروتی کے تیرہ مزدوروں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے ۔ اس کے علاوہ چار محنت کشوں کو پانچ پانچ برس اور چودہ کوتین سال کی سزا ہوئی ہے۔عمر قید پانے والے مزدوروں میں ماروتی ورکر یونین کی تمام قیادت شامل ہے۔ بر صغیر کے دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان کی جیلیں خوفناک حالات ، بد سلوکی، اور تشدد کے لیے بدنام ہیں اور عمر قید‘ در اصل طویل سزائے موت کے مترادف ہے ۔ ان میں سے کئی محنت کشوں سے اعتراف جرم کروانے کے لیے ان پر پہلے بھی تشدد ہوتا رہا ہے جس میںٹانگیں چیرنے، بجلی کے جھٹکے اور پانی میں غوطے دینے جیسے گھنائونے طریقے شامل ہیں۔ اخبار دی ہندو کے مطابق '' ایسا محسوس ہوتا ہے' گڑ گائوں ‘میں سی آئی اے کی تحقیقات کا رخ جرم کی تفتیش اور گرفتار مزدوروں کے ایف آئی آر میں درج واقعات یا جرائم میں ملوث ہونے کی جانب نہیں بلکہ ان کا مرکز ان مزدوروں کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں شمولیت ہے۔
2011ء میں مانیسر اسمبلی پلانٹ کم اجرتوں، کام کے دوران جبر، ٹھیکیداری اور عارضی ملازمت کے خلاف لڑاکا جدوجہد کا گڑھ بننا شروع ہو گیا ۔ ہندوستان، پاکستان اور دنیا بھر میں صنعتی محنت کشوں کے ہر طرف یہی حالات ہیں۔ 2011ء کے موسم گرما میں مانیسراسمبلی پلانٹ کے محنت کشوں نے کام بند اور ہڑتالی دھرنوں کا ایک سلسہ شروع کیا۔ ان کی پر عزم جدوجہد کے نتیجے میں گڑگائوں مانیسر صنعتی پٹی کے دوسرے محنت کشوں نے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہ علاقہ دہلی کے مضافات اور ریاست ہریانہ میں واقع گاڑیاں بنانے اور دوسری پیداواری صنعتوں کا بہت بڑا مرکز ہے۔ 18 جولائی 2012ء کو نو منتخب یونین اور انتظامیہ میں مذاکرات شروع ہوئے۔ مذاکرات کے ناکام ہونے پر پہلے سے ہی بڑی تعداد میں موقع پر موجود پرائیویٹ سکیورٹی اہلکاروں کے بھڑکانے پرپُر تشدد واقعات شروع ہو گئے ۔ ہنگامہ آرائی کے دوران آگ لگ گئی، جس سے فیکٹری کا ایک حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ جنرل منیجر اویناش کمار دے بھی اس آگ کا شکار بنا اور 90کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔عالمی سطح پرمزدوروں کیلئے سرگرم کچھ کارکنان کا دعویٰ ہے کہ جنرل منیجر کا قتل مالکان کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔کمپنی کی جانب سے ''مشتبہ‘‘ افراد کی فہرست کے مطابق یونین لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا اور کمپنی انتظامیہ نے ریاستی حکومت کی پشت پناہی میں مزدورں کی برطرفیاں شروع کر دیں،2300سے زیادہ مستقل اور 'کنٹریکٹ ورکرز‘ کو برطرف اور تبدیل کر دیا گیا۔ 1500سے زیادہ پولیس نفری تعینات کر دی گئی، مانیسر پلانٹ کچھ عرصے کے لیے ایک قلعہ بن گیا۔اس فیصلے کے لیے عدالت نے پولیس اور'ماروتی سو زو کی‘ انتظامیہ کی ملی بھگت اور جھوٹے شواہد کی اپنی ہی تحقیقات کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا۔ استغاثہ کے گواہان‘ ان افراد کی شناخت ہی نہ کر سکے جن کے خلاف وہ شہادتیں دے رہے تھے۔ استغاثہ کا کیس بری طرح سے پٹ جانے کے بعد یونین کے قائدین کے خلاف جھوٹے مقدمے میں حقیقت کا ر نگ بھرنے کے لیے عدالت نے کچھ مزدوروں کو بری کر دیا۔یہ جھوٹے مقدمے مرکز اور ریاست ہریانہ میں کانگریس کی حکومتوں کے دوران شروع گئے گئے تھے اور بی جے پی سرکار میں مزید شدت سے جاری ہیں ۔ مانیسر پلانٹ میں ماروتی کے مزدور‘ جیلوں میں قید محنت کشوں کی مالی، جذباتی اور اخلاقی مدد
جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پوری صنعتی پٹی میں ان محنت کشوں کے لیے وسیع حمایت اور ہمدردی پائی جاتی ہے۔ 18مارچ کے دن جب جج گوپال نے اپنا فیصلہ سنایا توچند گھنٹوں کے اندر ہی مانیسر کی چار بڑی فیکٹریوںمیں ایک گھنٹے کی ''ٹول ڈائون‘‘ ہڑتال کی گئی۔ 29مارچ کو مانیسر گڑ گائوں صنعتی پٹی کے پچاس سے زیادہ کارخانوں کے ایک لاکھ سے زیادہ محنت کش اظہار یکجہتی کے لیے باہر نکلے ۔ بد قسمتی سے تمام بڑی ٹریڈ یونین فیڈریشن اور ان کے لیڈر ماروتی کے محنت کشوں کی جدوجہد سے کتراتے رہے ہیں۔زیادہ سے زیادہ وہ ماروتی ورکرز یونین کو بورژوا سیاست دانوں سے اپیل اور کرپٹ اور عوام دشمن عدلیہ کا سہارا لینے کا 'مشورہ‘ د ے رہے ہیں۔ وہ ان محنت کشوںکے لیے ہندوستان اور عالمی طور پر محنت کشوں سے متحرک ہونے کی اپیل کرنے کی پالیسی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ پولیس کے سخت جبر اور ان دوسری کارروائیوں کا مقصد علاقے میں محنت کشوں کی شورش روکنا تھا، لیکن محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اپنے حقوق کے لیے احتجاج اور یونین سازی کر ر ہی ہے۔ گڑ گائوں مانیسر کے علاوہ راجستھان میں' نیم رانا‘ کے علاقے میں محنت کشوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ بیلیسونیکا کے ایک محنت کش نے ہندوستان ٹائمز کو انٹر ویو میں کہا کہ ''محنت کشوں کی پہلی نسل میں یہ خوف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ یونین کا مطالبہ کرنے پر انہیں تادیبی کاروائی کا نشانہ یا بے روزگار کیا جا سکتا ہے!آج ماروتی کے محنت کش ہیں ، کل ہم جیل میں ہو سکتے ہیں،ہم اپنے ساتھیوں کی رہائی چاہتے ہیں، لیکن 'ماروتی‘ نے محنت کشوں کو اتنا متحد کر دیا ہے جتنا کوئی بھی ٹریڈ یونین نہیں کرسکتی تھی‘‘۔ ہندوستان، پاکستان اور دنیا بھر کے محنت کشوں کا یہ طبقاتی فرض ہے کہ وہ جھوٹے مقدموں میں پھنسے ماروتی کے محنت کشوں کے دفاع کے لیے میدان میں آئیں کیونکہ طبقاتی جدوجہد میں ' ایک کا دکھ سب کا دکھ ‘ ہے۔ بر صغیر کے کروڑوں پرولتاریہ جب ایک متحدہ طبقاتی جنگ میں اٹھ کھڑے ہوئے تو پھروہ دولت مندوں کی ان ریاستوں اور نظام کے خاتمے کی لڑائی لڑیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved