سپریم کورٹ کا فیصلہ سننے کے بعد مسلسل سوچ رہا ہوں کہ وزیراعظم نواز شریف اس وقت کیا محسوس کریں گے جب سیکرٹ ایجنسیوں کے نچلے لیول کے افسر ، ان سے اور ان کے تین بچوں سے تفتیش شروع کریں گے کہ انہوں نے مال کیسے بنایا اور ان میں سے کون جھوٹ بول رہا ہے؟
کبھی نواز شریف فوجی جرنیلوں کو کارگل پر کمشن بنا کر ان سے تفتیش کرانے کا دعوی کرتے تھے اور انہیں سزائیں دینے کی بات کرتے تھے، آج انہیں خود آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نچلے لیول کے فوجی افسروں کے سامنے بیٹھ کر وضاحتیں پیش کرنا ہوں گی ۔ خدا بھی انسان کو زندگی میں کیا کیا معجزے دکھاتا ہے۔
سپریم کورٹ میں کئی دفعہ گیا ہوں لیکن جتنا سناٹا میں نے جمعرات کے روز دن دو بجے دیکھا، وہ کبھی نہیں دیکھا۔ فیصلے عدالتیں پہلے بھی دیتی رہی ہیں اور لوگوں کا رش بھی بہت ہوتا تھا لیکن کھسر پھسر پھر بھی ہوتی تھی لیکن جونہی پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ججمنٹ پڑھنا شروع کی تو یوں لگا جیسے انسانوں سے بھرے اس کمرے میں ایک پن بھی گر جائے تو اس کی بھی آواز سنی جائے گی ۔ مختصر فیصلہ پڑھ کر اور باقی کاتفصیلی بعد میں پڑھنے کا مشورہ دے کر جب جج صاحبان اٹھ کر چلے گئے تو یقیناً عدالت میں ایک دوسرے سے پوچھا جارہا تھا کون جیتا اور کون ہارا کیونکہ اس وقت کسی نے تفصیلی فیصلہ نہیں پڑھا تھا۔ اب ہر کوئی مٹھائیاں بانٹ رہا ہے۔ سب خوش ہیں ۔ نواز لیگ کے ورکرز جھمریں ڈال رہے ہیں اور ڈھول پر رقص کیے جارہے ہیں کہ نواز شریف بچ گئے ہیں۔ عمران خان کے حامی بھی مٹھائی بانٹ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بددیانت قرار دے دیا ہے۔
ویسے کیا یہ واقعی نواز لیگ کی فتح ہے چاہے پانچوں جج اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کا پیسہ لوٹا گیا ہے؟ ان پانچ ججوں نے مشترکہ فیصلہ لکھا ہے کہ جو قطری خطوط نواز شریف کے بچوں نے عدالت میں پیش کیے تھے وہ بیکار ہیں اور عدالت ان پر یقین نہیں کرتی لہٰذا انہیں مسترد کیا جاتا ہے اور اب ایک نئی تحقیقاتی کمیٹی بنائے جائے گی جو وزیراعظم اور ان کے بچوں سے تفتیش کرے گی کہ ان میں سے کون جھوٹ بول رہا ہے۔ اس جے آئی ٹی نے دو کام کرنے ہیں ، ایک تو نواز شریف اور ان کے بچوں کی تقریریں اور انٹرویوز نکال کر بٹھا کرپوچھنا ہے ان میں سے لندن جائیدادوں کے بارے میں سچ کون بول رہا ہے اور دوسرے وزیراعظم کے خاندان سے پوچھا جائے گا کہ قطری خط کے علاوہ ان کے پاس کوئی ثبوت ہے جس سے ثابت ہو کہ انہوں نے جو جائیداد لندن میں خریدی تھی وہ جائز پیسوں سے خریدی تھی اور کیسے وہ رقم لندن گئی تھی ۔
کیا ملک کے وزیراعظم کے لیے اتنی بات کافی نہیں ہونی چاہیے کہ پانچ ججوں نے انہیں اور ان کے تین بچوں کو کلین قرار نہیں دیا اور صرف اتنا کہا ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کر لیں کہ ان میں سے سچ کون بول رہا ہے اور ان کے پاس کیا نئے ثبوت ہیں کہ انہوں نے منی لانڈرنگ نہیں کی اور ان کا پیسہ حلال کا ہے۔ اس طرح کیا ملک کے دو ججز جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار ،جنہوں نے کچھ عرصے بعد اس ملک کا باری باری چیف جسٹس بننا ہے ،نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ملک کا وزیراعظم ایماندار نہیںاور اس نے قوم ، پارلیمنٹ اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے جھوٹ بولا ہے لہٰذا انہیں برطرف کیا جاتا ہے، پھر بھی نواز شریف سمجھتے ہیں کہ وہ میچ جیت گئے ہیں؟
ویسے اگر جسٹس اعجاز افضل کی پوری رائے پڑھی جائے توانہوں نے بھی نواز شریف کے خلاف لکھا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بقول انہوں نے آخری لمحے پر اپنی رائے تھوڑی سی بدلی ہے ورنہ وہ بھی نواز شریف اور ان کے خاندان کو بھی اس طرح ذمہ دار سمجھتے جیسے جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار سمجھتے ہیں ۔ اعجاز افضل نے اپنی رائے کے پیرا گراف نمبر 93 میں بھی قطری خطوط کو مسترد کیا ہے مطلب یہ ہے کہ انہوں نے نواز شریف خاندان کے ثبوتوں کو مسترد کیا ہے۔ ویسے نواز شریف کیسے سو سکتے ہوں گے جب ان کے بچوں کے نام ایک سال سے عدالتوں، ٹی وی چینلز اور دنیا بھر میں زیربحث ہوں اور آپ پھر بھی خدا کا شکر ادا کررہے ہوں؟ اب آپ کو کہا گیا ہو کہ آپ ملک کے وزیراعظم ہیں اور جن اداروں کے آپ سربراہ ہیں ان کے سامنے آپ نے ملزم کے طور پر پیش ہونا ہے۔ آپ نے وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی سول اور ملٹری اور سیکرٹ ایجنسی کے سامنے پیش ہونا ہے ،جہاں آپ لوگوں سے دوبارہ تفتیش ہوگی کہ آپ ثبوت دیں کہ آپ نے کیسے جائیدادیں خریدیں اور پیسہ کہاں سے آیا؟
اس ملک میں قتل اور توہین عدالت کے نام پر تو وزیراعظم پھانسی پاتے اور برطرف ہوتے رہے ہیں لیکن ایسا پہلی بار ہورہا ہے ملک کا وزیراعظم اپنے دو بیٹوں اور بیٹی کے ہمراہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سامنے پیش ہوں گے اور ان کے سوالوں کا جواب دیں گے کہ آپ لوگوں نے پیسہ کہاں سے بنایا اور آپ میں سے کون سچ اور جھوٹ بول رہا ہے۔شریف خاندان میں کوئی ایک تو جھوٹ بول رہا ہے۔ اگرچہ جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار تو پہلے کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم نے جھوٹ بولا ہے۔
ویسے انسان زندگی میں کسی ملک کا بادشاہ یا وزیراعظم کیوں بننا چاہتا ہے؟بادشاہ کے بچوں کو کس بات پر فخر ہوتا ہے۔اس بات پر کہ ان کا باپ ملک کا سربراہ ہے اور کروڑوں لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ان سے بہتر انسان ہے لہٰذا خدا نے انہیں بادشاہ بنایا ہے؟ تو کیا بادشاہ کی اخلاقیات عام انسانوں سے بہتر نہیں ہونی چاہیے تھی؟ اگر وہ بھی عام انسان کی طرح کرپٹ اور جھوٹا ہے تو پھر وہ کیسے بادشاہ بن کر حکومت کرسکتا ہے؟
کیا بادشاہ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ خدا نے اسے عزت دی ہے چناں چہ وہ جن انسانوں پر حکومت کررہا ہے ان کی بہتری اور ان کے بچوں کے لیے کام کرے گا ۔ وہ اپنے بچوں کو ارب پتی نہیں بنائے گا اور نہ ہی دو نمبری سے مال بنائے گا ۔ مان لیتے ہیں آپ وزیراعظم ہیں اور سب کچھ سنبھال لیں گے۔ ججمنٹ میں لکھا ہے کیسے اداروں کو تباہ کیا گیا ہے۔ جن اداروں کو چلانا تھا ان پر ایسے لوگ بٹھائے گئے جنہوںنے ان اداروں کا بیڑا غرق کیا ۔ اب حالت یہ ہے کہ کوئی ایسا ادارہ نہیںجس پر سپریم کورٹ کو اعتبار ہوتا۔ ایف آئی اے ، نیب اس قابل نہیں رہ گئے کہ ان کو کیس بھیجا جاتا لہٰذا فوج کی سیکرٹ ایجنسیاں بھی ان سے تفتیش کریں گی۔
یہ کچھ بھی کہتے رہیں کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے وزیراعظم کو ایک ملزم کے طور پر بھیج دیا گیا ہے۔ ویسے جے آئی ٹی کس قسم کے کرداروںکے خلاف بنتی رہی ہے ۔ کامران مادھوری ،اجمل پہاڑی، عزیر بلوچ، صولت مرزا اوربھولا جیسے دہشت گردوں کے خلاف ، آج وزیراعظم اور ان کے بچوں کو اس لائن میں کھڑا کر دیا گیا ہے...پھر بھی مبارکبادوں کا شور؟ ویسے ماڈل ٹائون سانحے اور ڈان لیکس کی جے آئی ٹیز کا کیا نتیجہ نکلا اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہے؟
اس کے بعد بھی حکومت کا نعرہ مستانہ کہ '' ہم جیت گئے‘‘ کمال ہے۔ بیس کروڑ لوگوں کا بادشاہ اب اپنے بچوں سمیت جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوگا ۔ جہاں کبھی سو افرادکے قاتل اجمل پہاڑی جیسے ملزم پیش ہوتے تھے۔ ہم سیکھتے نہیں ہیں ۔ ورنہ وقت بدلتے کتنی دیر لگتی ہے۔ آئی ایس آئی اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے دو ہزار بارہ میں پیپلز پارٹی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایف آئی اے کا کمشن بنا کر نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کی تحقیقات کریں کہ انہوں نے سیکرٹ ایجنسی سے پیسے لے کر بینظیر بھٹو کو انیس سو نوے کا الیکشن ہرایا تھا ۔ پیپلز پارٹی حکومت ڈر گئی تھی اور خورشید شاہ نے فرمایا تھا ہم نواز شریف کی داڑھی ایف آئی اے کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے۔ آج پانچ برس بعد سپریم کورٹ نے پورے کا پورا وزیراعظم تین بچوں سمیت آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس افسران کے حوالے کر دیا ہے..!!
اڑھائی ہزار برس قبل کا بروٹس یاد آتا ہے جس نے اپنی تلوار سے اس وقت زندگی کا خاتمہ کر لیا جب اسے محسوس ہوا کبھی پورا روم اس کی عزت کرتا تھا لیکن سیزر کے قاتلوں کا ساتھ دے کر اس نے عزت کھو دی ۔
تاریخ میں بڑے لوگ اقتدار اور دولت کے لیے نہیں، عزت کے لیے جیتے مرتے آئے ہیں ۔یہاں تو پھر بھی بروٹس کی طرح زندگی موت کا نہیں صرف ایک کرسی کا سوال تھا۔ جو ایک نہ ایک دن چھن ہی جاتی ہے...!