تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     21-04-2017

نظامِ عدل، خرابی کہاں؟

پولیس، شہری، سرکار، عوام، جج اور پراسیکیوٹر، نظامِ عدل کے اہم فریق ہیں۔
آج دنیا میں کوئی سوسائٹی آئیڈیل کہلا سکتی ہے نہ پرفیِکٹ۔ چند معاشرے دوسروں سے بہتر اور کچھ بد ترین کہے جا سکتے ہیں۔ اس لیے خرابی کی تلاش میں جوگ، کشٹ اور بن باس کاٹنے کی ضرورت نہیں۔ خرابی اوپر درج 6 فریقوں کے درمیان گھومتی ہے‘ لہٰذا اس کا جائزہ غیر جذباتی طور پر لینا ہو گا۔ پہلے آئیے پولیس کی طرف۔ پولیسنگ کے لیے ہمارا ماڈل دنیا بھر میں نرالا ہے۔ جو معاشرے عمومی طور پر پولیس پر اعتبار کرتے ہیں، وہاں پولیس کا کام مختلف حصوں میں تقسیم ہے۔ مثال کے طور پر homicide یعنی قتل کے مقدمات کی تفتیش کا شعبہ، ان جرائم کے ماہرین پر مشتمل ہوتا ہے۔ قتل کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکاروں کو Forensic firearm‘ geofencing اور scene of crime پر تربیت دی جاتی ہے۔ آپ یہ سن کر یقینا حیران نہیں ہوں گے کہ ہمارے شعبہ تفتیش کے پولیس اہلکار ضرورت پڑنے پر صاحب کے گھر سبزی پہنچاتے ہیں۔ مزید ضرورت پڑنے پر صاحب سے بڑے صاحب کے بچوں کو سکول چھوڑنے کی ڈیوٹی پر لگا دیے جاتے ہیں۔ پولیس کی پیشہ ورانہ تربیت کا کوئی موثر ادارہ نہیں۔ وکیلوں کی طرح پولیس والوں کی ٹریننگ بھی آن ڈیوٹی ہوتی ہے۔ پولیسنگ کی بربادی کی دوسری وجہ سیاسی بھرتیاں ہیں۔ 20-25 سال پہلے سیاسی طور پر بھرتی ہونے والا سب اِنسپکٹر آج ایس پی ہے۔ اس دوران اُس کا سالہ یو سی ناظم، بہنوئی تحصیل ناظم، بھائی ایم پی اے اور سُسر مارکیٹ
کمیٹی کا چیئرمین بن گیا۔ اکثر تھانے دار جہاں پیدا ہوتے ہیں وہیں بھرتی ہو جاتے ہیں اور جہاں بھرتی ہوتے ہیں وہیں سے ریٹائرمنٹ لیتے ہیں۔ پنجاب میں تو اس محکمے کو خادموں کی خادمہ بنا دیا گیا۔ خادموں کے خادم دو اعلیٰ پولیس افسر محکمہ پولیس کو کنٹرول رکھنے کے لیے ایڈوائزر ہیں۔ جس صوبے کی آبادی 12 کروڑ سے زائد ہو چکی‘ وہاں ایک اہل اور بہادر آدمی کو قائم مقام آئی جی لگایا گیا۔ بس چلے تو یہ گُلو بٹ کو آئی جی لگا دیں۔ محکمہ پولیس میں میرٹ کا ہر روز ''پُلس مقابلہ‘‘ ہوتا ہے۔ اقتدار والے عوام میں مقبولیت کے صرف 3 ذرائع موثر سمجھتے ہیں۔ پہلا تھانے دار، دوسرا پٹواری، تیسرا اُستانیوں کی ٹرانسفر کرنے والا ای ڈی او۔ محکمہ کی مسلسل تباہی کی تیسری وجہ وی آئی پی اور وی وی آئی پی ڈیوٹیاں ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں 8000 اہلکار ایک خاندان کے اِردگِرد روزانہ 8 پھیرے پورے کرنے کی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ اسی لیے پنجاب یونیورسٹی کے اندر ہنگامہ آرائی کی واردات ہو یا مردان یونیورسٹی کے احاطے میں طالبِ علم کے قتل کا سانحہ‘ پولیس نہ موقع واردات پر پہنچ پاتی ہے نہ ہی واردات کے دوران۔ اس زمینی صورتِ حال میں پولیس نظامِ عدل کو معنی خیز بنانے میں کون سا کردار ادا کر سکتی ہے؟ یہ سوالیہ نشان ہے۔ 
نظامِ عدل میں خرابی کی دوسری وجہ ذاتی دشمنی، رقابت، حسد، زَن، زَر، زمین کے مقدمات میں شہریوں کا رویہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق میں اب تک ایسے ہزاروں تنازعات کے مقدمات میں کسی نہ کسی فریق کا وکیل رہ چُکا ہوں۔ ظاہر ہے اس دوران ایک ہی طرح کی من گھڑت کہانیاںِ، سٹیریو ٹائپ جھوٹی گواہی‘ لایعنی تفتیشی حربے پڑھ پڑھ کر مِنٹوں میں اندازہ ہو جاتا ہے مقدمے کی فائل میں جھوٹ کتنا ہے اور سچ کہاں۔ قتل، اغوا، اجتماعی قتل کی اکثر وارداتیں جن گواہوں کے سامنے ہوتی ہیں وہ گواہی کے نام سے ڈرتے ہیں۔ کچھ اہلِ دل جِگر تھام کر گواہی دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ایسے گواہوں کا انجام کراچی کے صحافی ولی خان بابر کے گواہوں والا ہوتا ہے‘ یا پھر سوات ویڈیو کیس کے گواہوں جیسا‘ جس میں گواہی مٹانے کے لیے 3 بھائی منوں مٹی کے نیچے بھیج دیے گئے۔ پولیس کے پاس پیشہ ور گواہوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ فوجداری قانون کے فنِ جرح کی زبان میں ایسے گواہوں کو ''سٹاک وٹنس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پولیس کے سٹاک میں ہر دم تیار‘ دستیاب ہوتے ہیں۔ پہلے پیسے لے کر گواہ بنتے ہیں۔ پھر مزید پیسے لے کر گواہی سے مُکر جاتے ہیں۔ مُکرتے وقت عدالت میں کھڑے ہو کر پوری دل سوزی سے یہ حلف اُٹھاتے ہیں ''جو کچھ بھی کہوں گا سچ کہوں گا۔ سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا ۔ اگر میں جھوٹ بولوں یا عدالت سے کوئی بات چُھپائوں تو خدا کا قہر مجھ پر نازل ہو‘‘۔ 
میرے تجربے میں آیا ہے اکثر سنگین وارداتوں میں سچے گواہ مرنے والوں کے رشتہ دار نہیں ہوتے۔ اُنہیں کچے گواہ سمجھ کر اُن کی گواہی منسوخ کرا دی جاتی ہے‘ اور اُن کی جگہ جھوٹے رشتہ دار یا سٹاک میں دستیاب پیشہ ور گواہ لے لیتے ہیں۔ اسی لیے آئے روز ملک کی آخری عدالت پُکار پُکار کر کہتی ہے گواہی جھوٹی ہو گی تو کیس کیسے ثابت ہو گا۔ کیس ثابت نہ ہو تو ہم کیسے سزا بحال رکھیں۔
اب آئیے فوجداری نظامِ عدل (Criminal Justice System) میں خرابی کے تیسرے فریق‘ سرکار کی طرف۔ فوجداری مقدمہ بے شک دو پرائیویٹ فریقوں کے درمیان ہو۔ مدعی فریق جونہی ایف آئی آر درج کراتا ہے۔ ضابطہ فوجداری کے قانون مجریہ 1898 کی رو سے سرکار ملزموں کے خلاف کاغذی طور پر فریق بن جاتی ہے۔ کون نہیں جانتا جب گھر میں کوئی نکھٹو، نکما پیدا ہو جائے تو ماں باپ اُسے ڈانٹنے کے لیے کہتے ہیں نورے! گھر کے کام سرکاری ڈیوٹی سمجھ کر نہ کیا کر۔ جن لوگوں کا ملک کے کریمینل جسٹس سسٹم سے پالا پڑ چُکا وہ خوب سمجھتے ہیں‘ میں کیا کہہ رہا ہوں۔
جس سر کار کی غیرت صرف تب جاگتی ہو جب کسی ایئرپورٹ پر کوئی تارکِ وطن پاکستانی ڈالروں کی تلاشی دینے سے انکار کر دے‘ ایسی گستاخ سرکار کو ''کارِ سرکار‘‘ کا ملزم قرار دینے میں دیر نہیں لگتی۔ باقی رہے عوام تو وہ اکثر پیسہ پھینک تماشہ دیکھ میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ کار سر کار، کارِ آخرت کی طرح انہوں نے اپنے معاشی منیجروں کے حوالے کر رکھا ہے۔ پراسیکیوشن بے چاری 2 پاٹوں کے بیچ سینڈوچ بن گئی ہے۔ ایک طرف انہیں بھرتی کرنے والوں کی فرمائشوںکے ڈھیر ہیں۔ دوسری جانب تفتیش کاروں کی نااہلی، بددیانتی، رشوت خوری، پیشہ ورانہ نالائقی، سیاسی وفا داریاں، باز پرس اور احتساب سے بے خوفی کے عفریت منہ کھولے کھڑے ہیں۔ گواہ، پراسیکیوٹر اور جج جان ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے کچہر ی پہنچتے ہیں۔ ان کی سکیورٹی اور تحفظ پر صرف تقریریں ہوتی ہیں۔ ہمارے مقابلے میں دنیا کے دوسرے ملکوں نے گواہ، پراسیکیوٹر اور جج کا تحفظ ناقابل تسخیر بنا دیا۔ ہماری کچہریاں محفوظ قتل گاہیں ہیں۔ کچہری کے اندر ہتھکڑیوں میں جتنے لوگ مارے جاتے ہیں‘ اتنے کسی اور جگہ شاید ہی مرتے ہوں۔
عدلیہ 3 حصوں پر مشتمل ہے۔ سِول جج سے لے کر سیشن جج تک ماتحت عدلیہ۔ کارکردگی اور احتساب کا سارا زور، دبائو اور ہدایت نامے اسی ماتحت نظامِ انصاف کے لیے ہیں۔ ہائی کورٹس کی سطح پر فاضل جج حضرات کے کورٹ روم میں تشریف لانے کا وقت اپنا اپنا ہے‘ جیسے مختلف فرقوں کی اذانوں کا وقت اپنا اپنا ہے۔ عدل کا دوسرا پہیہ بار ایسوسی ایشن ہیں۔ جہاں اصول، ضابطے، پیشہ ورانہ ٹریننگ، پروفیشنل اخلاقیات کے علاوہ سب کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ ایسے نظام کی مثال ڈبل روٹی بنانے والی اس فیکٹری جیسی ہے جس کے بارے میں کہا گیا: قوم پر مشکل وقت آیا تو ڈبل روٹی بنانے والے ڈبوں میں دشمن پر پھینکنے کے لیے بم بنانا شروع کر دیں گے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ کوئی بم میدے، چینی، سوڈے اور تیل سے تیار نہیں ہو سکتا۔ فوری اور سستا انصاف ہمارے قومی نعرے ہیں۔ ارضِ خدا پر خدا کے بندے قانون و انصاف کے نام پر ہر روز چھوٹی سی قیامت بُھگتنے پر مجبور ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved