تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     23-04-2017

آفٹر شاکس

بیرسٹر صاحب نے فرمایا''پاناما کیس میں مزید تفتیش و تحقیق کی ضرورت تھی تو جے آئی ٹی کی بجائے جوڈیشل کمشن بنایا ہوتا‘ میں خود جرح کرتا اور مزہ آتا‘‘۔ اس مزے مزے میں ایک وکیل صاحب نے اپنے مؤکل کا کباڑہ کر دیا تھا۔ ضمانت کا آسان سا کیس تھا۔ جج صاحب نے فائل پر نظر ڈالی اور حکم جاری فرمایا‘''Bail granted‘‘۔وکیل صاحب مؤکل پر اپنی قابلیت کا رعب جمانا چاہتے تھے‘ کمرۂ عدالت میں موجود دیگر پارٹیوں پر دھاک بٹھانا بھی مقصود تھا۔ جج صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا‘ ''تھینک یو سر! لیکن آپ میرے دلائل تو سن لیں‘‘ ۔ جج کا کہنا تھا‘ ''میں نے درخواست ضمانت منظور کر لی ہے تو آپ کے دلائل کی کیا ضرورت ‘‘ ؟ ''لیکن سر! آپ مجھے موقع تو دیں‘‘ ...جج صاحب نے موقع دے دیا‘ وکیل صاحب اپنے دلائل مکمل کر چکے تو جج نے گزشتہ فیصلے سے رجوع کرتے ہوئے نیا حکم جاری فرمایا‘'' Bail dismissed‘‘
ہمارے بیرسٹر صاحب کس کس ہائی پروفائل کیس میں پیش ہوئے اور ان میں سے کس کیس کاکیانتیجہ نکلا؟ یہ ایک الگ موضوع ہے اور تفصیل طلب بھی۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے کیس کا ذکر ہم گزشتہ کالم میں کر چکے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا ‘این آر او کالعدم قرار پا چکا تو سوئس عدالتوں کو زرداری صاحب کے خلاف مقدمات کی بحالی کے لیے خط لکھا جائے۔محترمہ بھی ان کیسوں میں Co-accusedتھیں،لیکن محترمہ کے27دسمبر2007کو اگلے جہان سدھار جانے کے بعد‘ ان کا معاملہ داخل دفترہو گیا تھا۔)وزیر اعظم گیلانی کو‘ اپنے صدر کے خلاف خط لکھنے میں گریز تھا۔ بیرسٹر صاحب کا کہنا تھا‘ سپریم کورٹ کا حکم ہے‘ خط تو لکھنا پڑے گا۔ اگلی دفعہ اس رائے میں کچھ ترمیم کی‘ ''خط لکھ دینا چاہیے‘ اس میں کوئی حرج نہیں‘‘ ۔ اس کے بعد وہ وزیر اعظم گیلانی کے وکیل ہو گئے‘ تو ان کا مؤقف تھا‘ ''خط کیوں لکھیں‘ جبکہ اس کی کوئی آئینی و قانونی ضرورت نہیں‘‘۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ دعویٰ بھی کرتے‘سزا ہو گئی تو گیلانی صاحب اڈیالہ جیل میں بھی وزیر اعظم ہوں گے اور وہیں سے امورِ مملکت چلاتے رہیں گے۔ وزیر اعظم گیلانی کو عدالت ِعظمیٰ کا حکم نہ ماننے پر سزا ہو گئی‘ لیکن نوبت ان کے اڈیالہ جیل جانے تک نہ پہنچی(جہاں وہ مشرف دور میں قید رہے تھے اور وہیں ''چاہِ یوسف سے صدا‘‘ جیسی دلچسپ کتاب لکھی تھی)۔
سپریم کورٹ کے فاضل بنچ نے ''تابرخواست عدالت قید‘‘ہی کو کافی سمجھا تھا۔ توہین عدالت میں سزا یافتہ ہونے کے بعد وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے اہل نہ رہے۔ ظاہر ہے اس کے ساتھ ان کی وزارتِ عظمیٰ بھی گئی۔ سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے ان کی نااہلی کا ریفرنس الیکشن کمشن کو بھیجنے سے انکار کیا تو یہ کار خیر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے قلم سے انجام پایا۔
ہمارے بیرسٹر صاحب کو عالمگیر شہرت‘ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران ملی جب وہ معزول چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے تھے۔ کیا عظیم الشان تحریک تھی! وہ 5مئی (2007) کی صبح لاہور کے وکلاء سے خطاب کے لیے اسلام آباد سے روانہ ہوئے‘ جی ٹی روڈ پر یہ سفر چھبیس ستائیس گھنٹے لے گیا کہ ہر جگہ عوام کا پُر جوش ہجوم ان کے خیر مقدم کے لیے موجود ہوتا۔ چودھری پرویز الٰہی (تب وزیر اعلیٰ پنجاب) کے بقول‘ انہیں کہا گیا تھاکہ چیف جسٹس کا قافلہ جہلم سے آگے نہ بڑھنے پائے‘ کھاریاں سے آگے تو اسے کسی صورت نہ بڑھنے دیا جائے(چودھری صاحب نے ہنستے ہوئے کہا!''وہی ٹاسک جو 12مئی کو چیف جسٹس کی کراچی آمد پر ایم کیو ایم کو سونپا گیا تھا) لیکن گجرات کے قدیم سیاسی خانوادے کے فرزند کو معاملے کی نزاکت کا احساس تھا‘ اس خطرناک ٹاسک کو قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ اسے اس مرحلے سے اپنے انداز میں نمٹنے دیا جائے۔
2008ء میں وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے‘ جب جون میں اسلام آباد تک وکلاء نے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ لاہور سے میاں نواز شریف بھی اس کارواں کا حصہ بن گئے۔ رات گئے‘ اس لانگ مارچ سے آخری خطاب ان ہی کا تھا‘ جس کے بعد بیرسٹر صاحب نے لانگ مارچ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ یہ اچانک اعلان ملک بھر سے آئے ہوئے وکلاء کے لیے سخت حیرت اور مایوسی کا باعث تھا۔
15مارچ2009ء عدلیہ بحالی کا فیصلہ کن دن۔ آج بھی ٹی وی چینلز کی لائبریری میں وہ ویڈیو کلپس محفوظ ہوں گے۔ صبح دس بجے کے قریب پولیس افسر‘ بھاری نفری کے ساتھ بیرسٹر صاحب کی رہائش گاہ پہنچا اور انہیں ہوم اریسٹ کے آرڈر پیش کئے۔بیرسٹر صاحب نے ٹی وی کیمروں کے سامنے معرکہ آرا خطاب فرمایا‘ اور آخر میں نظر بندی کا حکم وصول کر کے گھر کے اندر کی راہ لی‘ ادھر مال روڈ پر ہائی کورٹ چوک میں وکلا کا معرکہ جاری تھا۔ دوپہر کو جناب نواز شریف‘ ماڈل ٹائون سے نکلے اور راستے کی ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ روانگی سے قبل 80-Hماڈل ٹائون میں ٹی وی چینلز کے ذریعے انہوں نے اہل لاہور کو پکارا‘ میں نکل رہاہوں‘ تم بھی نکلو۔ تب نواز شریف کے راستے میں‘ فٹ پاتھوں پر ‘ چھتوں اور برآمدوں پر لوگ ہی لوگ تھے۔ بیرسٹر صاحب بھی ٹی وی پر یہ سارے مناظر دیکھ رہے تھے۔ میاں صاحب شاہدرہ پہنچے تھے کہ بیرسٹر بھی نظر بندی کو توڑ تاڑ کر ان کی گاڑی میں آسوار ہوئے۔ کارواں ابھی گوجرانوالہ نہیں پہنچا تھا کہ صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی‘ چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت تین نومبر کی عدلیہ کی بحالی پر آمادہ ہو گئے تھے ۔
وقت وقت کی بات ہے۔2013ء کے الیکشن میں بیرسٹر صاحب خود توامیدوار نہیں تھے‘ البتہ بیگم صاحبہ لاہور کے حلقہ 124سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی امیدوار تھیں۔ لاہور میں یہی ایک حلقہ تھا جہاں پیپلز پارٹی کو جیتنے کی (موہوم سی) امید تھی لیکن یہاں بھی اس کی ضمانت ضبط ہو گئی۔عدلیہ بحالی تحریک کے ''ہیرو‘‘ کے لیے یہ ایسا صدمہ تھا‘ لگتا ہے‘ جس سے وہ نکل نہیں پائے۔ شامی صاحب نے کچھ عرصہ قبل لکھا تھا‘ ان میں کوئی ایسی خرابی ہے جو انہیں مقامِ رفعت پر ٹکنے نہیں دیتی۔
20اپریل کی سہ پہر فیصلہ آ گیا۔ اس بار خان نے ''یو‘‘(U) ٹرن نہیں ''وی‘‘ (V) ٹرن لیا ہے۔ پہلے تو ''سینئر ‘‘ اور ''جونیئر‘‘ کو دلیل بنایا کہ ''وزیر اعظم کی نا اہلی پر صاد کرنے والے دو جج سینئر ہیں‘‘ جبکہ اختلاف کرنے والے تین ججوں کو وہ جونیئر قرار دے رہے تھے۔ پانچ ججوں کا یہ بنچ‘ سپریم کورٹ کے سینئر ججوں پر مشتمل تھا۔ جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار دیگر تین سے سینئر ہیں‘ لیکن باقی تین بھی ایسے جونیئر نہیں کہ ابھی چند روز قبل اس منصب پر فائز ہوئے ہوں لیکن یہاں سوال ایک اور ہے۔کیا خان(اور سینئر ‘ جونیئر کا شوشہ چھوڑنے والے دیگر حضرات) کو واقعی علم نہیں کہ بنچ پر موجود سبھی ججوں کی رائے یکساں اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ چیف جسٹس انتظامی امور میں چیف ہوتے ہیں۔ بنچ پر وہ بھی دیگر برادر ججوں کے برابر ہوتے ہیں۔ ایڈیشنل اور ایڈہاک جج بھی یکساں تصور کئے جاتے ہیں۔
جے آئی ٹی کی تشکیل پر پانچوں فاضل ججوں کا اتفاق تھا‘ البتہ وزیر اعظم کی نااہلی پر تین ججوں کی رائے مختلف تھی تو اس حوالے سے اکثریت کی رائے ہی بروئے کار آئے گی۔ جے آئی ٹی کے TORsبھی خود عدالتِ عظمیٰ نے طے کر دیئے۔ اس کے ارکان کا انتخاب کوئی اور نہیں خود سپریم کورٹ کا یہی بنچ کرے گا۔ جے آئی ٹی کی نگرانی کوئی اور نہیں‘ خود سپریم کورٹ کرے گی(جس کے لیے نیا بنچ وجود میں آئے گا۔) جے آئی ٹی کو اس کام کے لیے دو مہینے دیے گئے ہیں(یہ ہر پندرہ روز بعد پراگریس رپورٹ پیش کرتی رہے گی۔) اس میں وزیر اعظم کا ''اثرورسوخ‘‘ یا ''دبائو‘‘ کہاں سے آ گیا؟ چودھری نثار علی خاں یاد دلا رہے تھے کہ پاناما کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے خان کو پیشکش کی تھی کہ وہ اس معاملے کی تفتیش و تحقیق کے لیے اپنی پسند کے افسران کے نام دے دیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ 20اپریل کی سہ پہر فیصلہ آنے پر خان اسے اپنے مؤقف کی عظیم کامیابی قرار دے رہا تھا۔ مسلم لیگ (ن) والوں سے اس کا کہنا تھا کہ بے شرمو! تم کس بات کی مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہو؟ بیوقوفو! فیصلہ تو پڑھ لو۔ اور اگلے ہی روز وہ اس فیصلے کو مسترد کرنے اور وزیر اعظم کے استعفے کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کر رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر خان کی دو تصویریں تھیں‘ ایک مٹھائی کھانے کی‘ دوسری کالی پٹی باندھ کر احتجاج کرنے کی۔فیصلے کی اصل تک پہنچنے میں خان کو پورا ایک دن لگ گیا تھا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved