2008ء کے اقتصادی کریش کے بعد بین الاقوامی سرمایہ دارانہ معیشت اس کساد بازاری اور بحران سے نکلنے میں ناکام ہے۔ آج کی 'ترقی یافتہ‘ سرمایہ داری میں محنت کش طبقات اور بورژوازی کے مابین طبقاتی تضادات شدید تر ہو رہے ہیں۔ یہ ایک نیا معمول، ایک نئی کشمکش ہے۔ اس وقت دنیا کا ہر خطہ سیاسی عدم استحکام، خانہ جنگی، بے چینی، انتشار اور معاشی گراوٹ کا شکار ہے۔ مختلف ممالک کے معاشی ارتقا، سیاسی نظاموں اور محنت کشو ں کی تحریکوں کے پیش نظر بحران کا اظہار مختلف شکلوں میں ہو رہا ہے۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد آزاد منڈی کی فضیلت کے بڑھ چڑھ کر قصیدے پڑھے گئے اور 'لبرل ازم‘ کو ہی دنیا کا مستقبل قرار دیا گیا۔ گلوبلائزیشن اور منڈیوں کے کھولنے کے عمل کے ذریعے سامراج نے ماضی کی نوآبادیات یا نام نہاد 'تیسری دنیا‘ کے ممالک میں بھی نجکاری اور تجارتی رکاوٹوں میں کمی کی پالیسیوں سے بد ترین استحصال کیا۔ اپنے عالمی مالیاتی اداروں کی سامراجی یلغار کے ذریعے کمپنیوں نے تاریخی منافعے کمائے۔ کریڈٹ فنانسنگ کے تحت قرضوں کے ذریعے دنیا میں مصنوعی بنیادوں پر منڈیوں کا پھیلائو کیا گیا جس کا مقصد پیداوار کی کھپت کے نئے مواقع تلاش کرنا تھا۔ لیکن یہی عوامل جو ایک وقت میں سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ لانے کا موجب بنے آج ایک نئے بحران کو جنم دے چکے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اب تک سرمایہ داروں نے نت نئے طریقوں سے اپنے بنیادی مقصد یعنی 'شرح منافع میں اضافے‘ کی تکمیل کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سرمایہ داری کو وقتی عروج ملا لیکن پھر یہ اپنے تضادات کے زیر اثر ایک نئے بحران کا شکار ہو گئی۔ جلد ہی ان کے تجویز کردہ نسخے اپنی بلندی کو چھو لینے کے بعد تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو تے ہوئے اپنے ساتھ ایک نئی بربادی لے کر آئے۔
آج عالمی سطح پر بورژوازی ایک سیاسی، سفارتی اور عسکری بوکھلاہٹ کا شکار ہے، جس میں ان کے سنجیدہ تجزیہ نگار بھی پاگل پن کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اب گہرے ہوتے ہوئے بحران میں کوئی امید دکھائی نہ دینے کے باعث ماضی کے متروک نظریات کو تاریخ کے قبرستانوں سے نکال لانے کی لاحاصل جستجو میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں جرمنی کے شہر بیڈن میں ہونی والی G-20 ممالک کے مالیاتی وزرا کی میٹنگ کا حال ان کی فکر کو عیاں کرتا ہے۔ میٹنگ کے ایجنڈے میں تجارت اور ماحول شامل تھے، لیکن بغیر کسی نتیجے کے یہ میٹنگ ختم ہو گئی، کسی بھی پوائنٹ پر اتفاق نہیں کیا جا سکا، جس کی اہم وجہ امریکی حکام کی طرف سے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف اقدامات کے سمجھوتوں پر دستخط کرنے سے واضح انکار تھا۔ G-20 کے ممالک ایک لمبے عرصے تک دنیا میں آزاد منڈی کے ٹھیکیدار سمجھے جاتے تھے، لیکن آج کل ان کے درمیان تجارت پر ریاستی جکڑ بندی (State Protectionism) کی گفت و شنید زیادہ ہو رہی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کی جانب سے 2008ء سے اب تک آزاد تجارت کے خلاف تقریباً 2000 اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دنیا کی کل تجارت کا 80 فیصد انہی ممالک پر مشتمل ہے۔ اس موقع پر دنیا کے قرضے کی رپورٹ برائے 2017ء پیش کی گئی جس کے مطابق غریب ممالک کے لئے بحران شدید سے شدید تر ہو رہا ہے اور ان مقروض ریاستوں کے مسائل کی 1980ء کی دہائی کے مسائل سے کافی مماثلت ہے۔ ان میں 116 ممالک کے لئے اجناس کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے اپنے پرانے قرضوں کی ادائیگی بھی مشکل ہے۔ موجودہ عہد میں آزاد منڈی کے برعکس تجارتی تحفظ کی پالیسیاں کسی واحد فرد کی سوچ نہیں ہیں بلکہ یہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کی تلاش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ضرورت کا اظہار ہے۔ اس کی وجہ عالمی سرمایہ کاری
اور تجارت میں سست روی اور شرح منافع میں عمومی گراوٹ ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ نے واحد سپر پاور کے طور پر دنیا میں اپنی دھاک بٹھائی، لیکن آج یہی طاقتور سپر پاور دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔ سامراج کی مسلسل کمزوری ثابت کرتی ہے کہ اس دیو کے پائو ں مٹی کے ہیں۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکی سٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی ہے۔ اس طرح عالمی معیشت کے اہم اعشاریے 'پرچیزنگ منیجرز انڈکس (PMI)‘ کے مطابق عالمی طور پر کارپوریٹ کمپنیاں صورتحال میں بہتری دیکھ رہی ہیں۔ جے پی مارگن کے معیشت دانوں کے مطابق عالمی طور پر پیداواری صنعت کی شرح نمو پچھلے سال ایک فیصد کی بجائے اب 4 فیصد ہے۔ یورپی معیشتوں میں بھی کچھ جزوی بہتری آئی ہے۔ ادارہ برائے عالمی مالیات کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے اب تک ابھرتی ہوئی معیشتوں کی خام داخلی پیداوار میں 6.4 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ فنانشنل ٹائمز کے مطابق کارپوریٹ منافعوں میں معمولی بحالی دیکھی گئی ہے؛ تاہم یہ سب سطحی اور کھوکھلا ہے۔ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے۔ ٹرمپ نے امریکی جی ڈی پی میں 4 فیصد نمو کا وعدہ کیا ہے، لیکن 2008ء سے اب تک امریکی معیشت کی اوسط شرح نمو صرف 1.9 فیصد ہی رہی ہے۔ کارپوریٹ منافعوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے امریکی معاشی نمو ناممکن ہے، جس کی وجہ سے ناگزیر طور پر حکومت کو ہی سرمایہ کاری کرنا پڑے گی‘ لیکن اس کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا، یہ کلیدی سوال ہے۔ 2016ء کی آخری سہ ماہی میں کاروباری سرمایہ کاری کل جی ڈی پی کا محض 0.17 فیصد رہی، جبکہ حکومتی سرمایہ کاری میں بھی بتدریج کمی واقع ہوئی ہے، 2008ء میں یہ 4.5 فیصد تھی، اب یہ 3.29 فیصد رہ چکی ہے۔ میکرو معاشی حوالوں سے نحیف ریکوری کے باوجود امریکی فی کس جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ روزگار کے خاطر خواہ مواقع پیدا نہیں ہو رہے ہیں اور امریکی سماجی زندگی کی حالت زار کا جائزہ غیر سرکاری تنظیم 'امیریکن سوسائٹی آف سول انجینئرز‘ کی رپورٹ لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق 2020ء تک موجودہ انفراسڑکچر کو صرف رواں رکھنے کے لئے بھی 3.6 ٹریلین ڈالر درکار ہوں گے۔
یورپ کی معاشی حالت بھی امریکہ سے زیادہ بہتر نہیں ہے۔ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کی شرح نمو امید سے کم رہی۔ جرمن مالیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کی آخری سہ ماہی میں معیشت محض 0.4 فیصد کی شرح سے ہی بڑھ سکی۔ اگلی سہ ماہی میں یہ شر ح محض 0.1 سے 0.2 فیصد تک رہنے کی پیش بینی کی گئی ہے۔ جرمنی کو یورپ کا معاشی پاور ہائوس کہا جاتا ہے، لیکن اس کی شرح نمو برطانیہ سے بھی کم رہی۔ برطانیہ کی شرح نمو آخری سہ ماہی میں 0.6 فیصد رہی۔ بریگزٹ کے باوجود صارفین کی کھپت میں اضافہ دیکھا گیا، لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی ناگزیر طور پر صارفین پر بوجھ ڈالے گی۔ دیگر معیشتوں مثلاً فرانس اور ہالینڈ میں بھی سہ ماہی شرح نمو تقریباً 0.5 فیصد ہی رہی۔ یونان اور فن لینڈ کی معیشتیں مزید سکڑائو کا شکار ہوئیں۔ صرف سپین کی معیشت نے 0.7 فیصد شرح نمو حاصل کی۔ یورپی سنٹرل بینک نے 2018ء تک کے لیے اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورت حال میں بہتری کے خاطر خواہ امکانات نہیں ہیں، پیش گوئی ہے کہ یورپی جی ڈی پی کی شرح نمو مزید 0.3 فیصد کی کمی کے ساتھ صرف 1.6 فیصد رہے گی۔
یہ نظام تاریخی طور پر متروک اور معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اس میں درستی اور بہتری کی کوئی گنجائش نہیں۔ آج محنت کشوں کی نسلوں کو جو چیلنج درپیش ہے، وہ مارکس نے ڈیڑھ سو سال پیشتر لکھ دیا تھا ''فلسفیوں نے صرف دنیا کی تشریح کی ہے، سوال اور چیلنج اس کو بدلنے کا ہے‘‘۔