تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-04-2017

خود ترسی

عدالتی فیصلے پر ہم گریہ و زاری اور ماتم میں مبتلا کیوں ہیں؟ اس پر غور کیوں نہیں کرتے؟ وہی غلامانہ ذہنیت؟ وہی خودترسی؟نواز شریف پانچ سال پورے کر کے آصف علی زرداری بن جائیں تو بہتر ہے یا یہ کہ ایک بار پھر ترس کے جذبات سے فائدہ اٹھائیں؟
اگرچہ تحقیق نہیں کی مگر خیال یہ ہے کہ لاطینی امریکہ کے لافانی ادیب کوئلو پائلو نے بعض اسلامی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ ابرہام لنکن کے بارے میں بھی بہت سے لوگوں کا خیال یہی ہے۔ بعض تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اصلاً وہ مسلمان تھا۔ ان امور پر حتمی رائے ریسرچ کے بعد ہی دی جا سکتی ہے۔ لنکن کے اندازِ فکر میں کچھ اشارے اگرچہ ملتے ہیں۔ پائلو کا وہ قول اکثر دل کے کواڑ کھٹکھٹاتا ہے : زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ بس سبق ہوتے ہیں۔ سیکھنے سے اگر ہم انکار کر دیں تو حیات ہمارے لئے انہیں دہراتی رہتی ہے۔
اس پر ایک شخص یاد آتا ہے۔ عظیم صوفیا میں سے آخری‘ خواجہ مہر علی شاہؒ ‘ اقبال ؔجنہیں استاد کا درجہ دیا کرتے۔ مشہور عالم آکسفورڈ یونیورسٹی سے ''زمان و مکان‘‘ پر لیکچر کی دعوت ملی تو مشورہ ان سے کیا تھا‘ ایک نہیں‘ دو بار۔ راولپنڈی کے انگریز ڈپٹی کمشنر کی ڈیوٹی تھی کہ ان پر نگاہ رکھا کرے۔ طریق اس کا یہ تھا کہ مؤدبانہ حاضر ہوا کرے۔ افغانستان کے ایک نہیں‘ دو بادشاہ ان کے مہمان ہوا کرتے۔ امیر حبیب اللہ اور پھر امان اللہ خاں۔ امان اللہ نے ان سے دعا کی درخواست کی تو فرمایا تھا : امیر حبیب اللہ کے لئے میں کر چکا‘ آپ کے لئے اب کیسے کروں؟ اللہ کا ایسا کرم اپنے بندے پہ تھا کہ امیر کی وفات کے بعد امان اللہ تخت نشین ہو گئے۔ بعض علما کی سمجھ میں صوفیا نہیں آتے۔ اس لئے نہیں آتے کہ کہ تجربے سے وہ گزرے نہیں۔ سعادت کی ایک قسم وہ ہے‘ جو تعصبات سے رہائی کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ حنیف ندوی پکے اہلحدیث تھے مگر غزالیؒ کو پڑھا اور ان پہ نثار ہو گئے۔ صاحب علم ایسے تھے کہ مسحور ہونے کے باوجود‘ ان پہ نقد بھی کیا۔ کمال یہ ہے کہ توازن برقرار رہا۔ ریا سے پاک تھے۔ نثر ایسی لکھی ہے کہ پڑھنے والا عش عش کرتا رہے۔ مولانا عبدالرحیم اشرف مرحوم کے ہاں خطاب فرما رہے تھے کہ ایک چڑچڑے نے کہا : اتنی ذرا سی داڑھی پہ اتنی بڑی بڑی باتیں۔ اس پر ایک ریش دراز نے کہا : داڑھی میری دیکھتے رہو‘ بات ان کی سنتے رہو کہ موتی رول رہے ہیں۔
چار برس ہوتے ہیں۔ ایران جانے کا موقعہ ملا تو غزالیؒ کے گائوں طوس جانے کی سعادت بھی ملی۔ وہی صدیوں پرانا ماحول۔ چراگاہوں میں گھوڑے اسی طرح چر رہے تھے۔ ایک آرزو تڑپ کر جاگی کہ اس گھر کے کھنڈر باقی ہوتے تو مسافر آنکھیں ٹھنڈی کرتا‘ جہاں بیٹھ کر غریب بچوں کو پڑھا یاکرتے۔ اپنا یہ عمل اس قدر عزیز تھا کہ الپ ارسلان کے جانشین‘ ملک شاہ کی دعوت مسترد کر دی تھی‘ بغداد جا بسنے کی۔ تنہا ملک ہی نہیں‘ اس کے جنرلوں اور امرا نے بھی گزارش کی تھی۔ درویش کا جواب ایک جملے پر مشتمل تھا : پھر طوس کے بچوں کو کون پڑھائے گا؟
اس ادنیٰ طالب علم کو جو بات عرض کرنا ہے‘ وہ بھی ایک ہی جملے پر مشتمل ہے۔ مگر تیرہ سو لفظ پورے کرنا ہیں کہ فرض ادا ہو۔ گھنٹہ بھر کی مسافت کے بعد راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر کا تانگہ گولڑہ شریف جا کر رکا۔ بیگم اور کمسن صاحبزادی ہمراہ تھیں۔ دھوپ سے جلتی سڑک پہ ماں نے بیٹی کو بتایا : ہم ایک SAINT سے ملنے جا رہے ہیں۔ بچی کے لئے ظاہر ہے کہ شک کا کوئی جواز نہ تھا۔ اس کے ننھے سے دل نے موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ''اللہ کے ولی سے کہو‘‘ ماں سے اس نے فرمائش کی ''کہ بارش کی دعا کرے‘‘ ہاتھ اٹھانے سے پہلے عارف نے لڑکی سے کہا : تم معصوم کی دعا زیادہ قبول ہو گی‘ میں بھی شریک ہوں۔ بادل ایسا ٹوٹ کے برسا کہ تانگہ ضلع کچہری تک پہنچ نہ سکا۔ راستے میں پناہ لینا پڑی۔ 
جو نہیں مانتے‘ وہ نہیں مانتے۔ چھیالیس برس ہوتے ہیں۔ ماموں کانجن کے صوفی عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ کھری چارپائی پر بیٹھے‘ ایک کمہار کی بیمار بیٹی کے لئے دیر تک وہ دعا کرتے رہے‘ بہت دیر تک۔ آخری الفاظ یہ تھے : اسے اچھا کر دے‘ میرے بیلی اس میں تیرا کیا لگتا ہے؟...اللہ کو جو دوست کہتا ہو جس نے اسے راز دار بنا لیا ہو‘ اس کی دعا کیسے ٹل سکتی ہے؟ ان کے شاگرد رشید صوفی عائش محمد کی روایت یہ ہے : مدرسے کی دیواریں ابھی گیلی تھیں کہ ساون کا مہینہ آ پہنچا۔ بارش اس طرح برستی رہی کہ گویا طوفان لے کر آئے گی۔ صوفی عبداللہ دعا کرتے رہے‘ لہجے میں لجاجت بڑھتی گئی۔ پھر اچانک اپنے ''یار‘‘ پہ غصّہ آیا۔ سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا اور کہا ''ڈھا دے‘ سب کچھ ڈھا دے‘ کچھ نہ چھوڑ‘‘ جملہ مکمل ہوا تو بارش تھم گئی۔ آسمان پہ کوئی مسکراتا ہو گا۔
ریشمی رومال کی تحریک میں گرفتار ہوئے تو ناقابل بیان‘ واقعی ناقابلِ بیان سزائیں دی گئیں۔ شاگرد نے پوچھا : درد تو بے حساب ہوتا ہو گا۔ کہا : سورہ فاتحہ میں پڑھ لیا کرتا تھا‘ مجھے کیوں درد ہوتا۔ عائش محمد کو اللہ زندگی اور صحت دے‘ لہجے میں گداز تھا‘ بولے : کتنے ہی اہل علم نے اس سورت کی تفسیر لکھی ہوگی‘ مگر جو صوفی نے اپنے عمل سے لکھ دی؟
خواجہ مہر علی شاہؒ کے بارے میں حاسدوں نے مشہور کرنے کی کوشش کی کہ انگریز سے ایک سو مربع اراضی‘ انہوں نے حاصل کی۔ فوجی بھرتی کے حق میں فتویٰ دے کر۔ لطیفہ یہ ہے کہ خواجہ نے ایسا کوئی فتویٰ دیا ہی نہ تھا۔ خلق خدا کو تعلیم دیتے‘ خاموشی کے ساتھ وہ عافیت میں بسر کرتے رہے۔ وہ انگریز سے نہیں‘ انگریز ان سے خوف زدہ تھا۔''عافیت گمنامی میں ہوتی ہے۔ گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں‘ تنہائی نہ ہو تو خاموشی میں...اور خاموشی نہ ہو تو صحبتِ سعید میں‘‘ان کے ایک پیش رو نے کہا تھا۔
عالی قدر عارف کے اقوال میں سے ایک یہ ہے‘ کوئلو پائلو کے ذکر سے جو یاد آیا : حسن خیال کا نزول ہر قلب پہ ہوتا ہے مگر ہر دل اسے تھام نہیں سکتا۔ اپنے ذہن کی سرزمین میں کاشت نہیں کرتا۔ 
کیوں کاشت نہیں کرتا؟ کیوں آبیاری نہیں کرتا۔ زمین کو نم چاہیے ہوتا ہے۔ پھر اس نم کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ مون سون کے بعد سیانے کاشتکار زمین میں ہل چلاتے ہیں کہ نیچے کی مٹی اوپر اور اوپر کی نیچے ہو جائے۔ نومبر کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں پھر وہ بیج ڈالتے ہیں حتیٰ کہ کھیتوں میں سونا اتر آئے۔ کہیں بھی ہو‘ ہریالی کا سبز رنگ قلب و جگر کو ٹھنڈک عطا کرتا ہے۔ کوئی ہریالی مگر گندم کے کھیت سے بڑھ کر نہیں ہوتی‘ دسمبر سے فروری تک۔
ایک درویش سے پوچھا گیا : اگر قرآنِ پاک کی ایک آیت سے زندگی کا رخ متعین کرنے کی آرزو کی جائے ؟ کہا : مجھ ناچیز کے خیال میں‘ وہ یہ ہے : عسیٰ ان تکرھو شیاً وھو خیرلکم وعسیٰ ان تحبوشیاً وھو شّرلکم۔ ایک چیز کو تم برا سمجھتے ہو مگر اس میں تمہارے لیے خیر ہوتا ہے۔ ایک کو اچھا سمجھتے ہو‘ مگر اس میں تمہارے لیے شر چھپا ہوتا ہے۔
کوئی خبر‘ کوئی حادثہ‘ کوئی واقعہ بجائے خود اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ انحصار اس پر ہوتا ہے کہ آدمی نے اس سے کیا سیکھا۔ کربلا سے کچھ نے فقط خود ترحمی اور مایوسی پائی۔ ایسے بھی ہوں گے‘ جنہوں نے امام عالی مقامؓ کے لہجے کی صلابت پر غور کیا ہو گا۔ ان تمام آزمائشوں کے باوجود‘ جو کبھی ایک وقت میں‘ ایک آدمی پر اس طرح نہ اتری ہوں گی‘ ایسے وہ ثابت قدم رہے کہ پہاڑ حیرت کر سکتے توان کے منہ کھل جاتے۔
عدالتی فیصلے پر ہم گریہ و زاری اور ماتم میں مبتلا کیوں ہیں؟ اس پر غور کیوں نہیں کرتے؟ وہی غلامانہ ذہنیت؟ وہی خودترسی؟نواز شریف پانچ سال پورے کر کے آصف علی زرداری بن جائیں تو بہتر ہے یا یہ کہ ایک بار پھر ترس کے جذبات سے فائدہ اٹھائیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved