تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     24-04-2017

سیکڑوں سال یاد رہنے والے

ملک کی سب سے بڑی عدالت کے 2 سب سے سینئر ججوں نے وہ فیصلہ لکھا جسے بلا شبہ صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
انتہائی محترم جسٹس گلزار احمد خان صاحب اور پانامہ بینچ کے سربراہ انتہائی مکرم جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب چیف جسٹس اِن ویٹنگ بھی ہیں۔لیکن محض چیف جسٹس کون یاد رکھتا ہے۔جو کل ریٹائر ہوا۔آج آنکھ اوجھل ،پہاڑ اوجھل۔کسی زمانے میں ایک سیاسی چیف ہوتا تھا۔جس کے سرکاری دفتر کی میز پر 2 اور 3 سم والے 2 درجن سے زیادہ موبائل ہر وقت پڑے رہتے ۔ یہ موبائل صرف دل پذیر عدالتی رپورٹروں ، دل پسند وکیلوں اور دل رُبا این جی اوز کے دل نشین چہروں کی کال پر بولتے ۔ اس کے پارسائوں کی ایک فہرست بھی اُسی میز پر پڑی رہتی تھی۔ جس میں کالم نگار، سیاست کار اور سول سوسائٹی کی جنتی روحوں کے نمبرلکھے تھے۔ اس کا طریقہ واردات یہ تھا ۔ وہ انصاف کے اصولوں کے عین مطابق رپور ٹر سے خبر چلواتا۔ پارسا ، سول سوسائٹی سے درخواست دلواتا،دل پسند وکیلوں کو پیروی کے لیے مصالحہ بھجواتا۔ اگلے دن سو وموٹو میں گنہگار لوگ بلوا لیے جاتے ۔ ایک دن اس کی اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھر گئی۔ جس کے نتیجے میںمونٹی کارلو کا جوُا کلب، اس کے گھر میں بنی ہوئی کمپنیاں ، فراری گاڑیاںاور ناجانے کیا کیا برآمد ہو گیا۔ وہ عدل کے منچ پر بیٹھا ، قرآن کی بالکل ''سچی قسمیں‘‘ کھائیں ۔ پھر کہا اللہ تعالیٰ نے اُسے سُرخرو کر دیا ۔ اُسے تاریخ کا کوڑے دان صدیوں یاد رکھے گا۔ آج کل جسٹس کو پرموٹ کرنے کے لیے مونٹی کارلو سے شہرت پانے والے انتہائی ہونہار فرزند کی قیادت میں مسافروں کی لائن توڑتا نظر آتا ہے۔ نہ جانے کیوں ملک بھر کے وکیل، بار ایسوسی ایشنز اور و ہ بے شمار جان نثار ، جو حاضر حاضر لہو ہمارا کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اس کے ''سیاسی انصاف قلعی کرالو‘‘ والے نعرے سے منہ پھیر کر کھڑے ہیں۔
صدیوں یاد رکھی جانے والی بے شمار دوسری تاریخی اور جغرافیائی کہانیاں ہیں ۔ پہلی کہانی وہی چودھری والی جس کے پاس بنارسی ٹھگ کا مقدمہ آیا تھا۔ اس بنارسی ٹھگ نے سادہ لوح دیہاتی سے منڈی مویشیاں میں بھینس خریدی۔ سودا ہو جانے کے بعد وہ دیہاتی سے لڑ پڑا کہ تم نے مجھے لوٹ لیا ہے۔ سامنے بکری کھڑی ہے تم مجھ سے بھینس کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہو۔ میں یہ بے انصافی ہر گِز نہیں ہونے دوں گا۔ جھگڑا بڑ ھتے ،بڑ ھتے منڈی میں جلسہ بن گیا۔ 2 ریلیاں نکل پڑیں۔ ایک کی قیادت بنارسی ٹھگ کر رہا تھا۔ دوسری ریلی سادہ لوح دیہاتی کے حامیوں کی بن گئی۔ دونوں فریق منڈی مویشیاں سے نکل کر سب سے وڈے چودھری کے ڈیرے پر انصاف لینے پہنچے۔ چودھری نے ریلیاں ختم کرنے، نعرہ بازی روکنے کا حکم جاری کیا۔ دونوں طرف سے مفت بر وکیل بن گئے۔ پہلے سادہ لوح دیہاتی کو فریاد پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ جواب میں ثبوت، دلائل، دھمکیاں ، کرّوفر ، شبھ و شبھا اور چمک دمک بلکہ گرج برس تک شروع ہو گئی۔ سب نے فیصلے کے انتظار میں وڈے چودھری پر نظریں جما دیں۔ چودھری نے کچھ دیر کے لیے فیصلہ محفوظ رکھا۔ اندر جا کر پیڑے والی تازہ لسی کا، تانبے کا لمبا گلاس خالی کیا۔ پھر آ کر یہ فیصلہ سنا دیا ۔ کہا بظاہر سادہ لوح دیہاتی کا جانور بھینس کی طرح لگتا ہے۔ اس کے سینگ گول ہیں۔ وزن 8-9من ہے ۔ یہ جانور چلتا بھینس کی طرح ہے جُگالی بھی بھینس جیسی کر رہا ہے ۔ خاص طور پہ اس کی تھاپیاں بھینس والی ہیں لیکن دوسری جانب کے موقف نے ثابت کر دیا، یہ اصل میں بکری ہے۔ یہ سن کر سادہ لوح دیہاتی پہلے ہنسا پھر رونے لگ پڑا ۔ ایک خستہ حال شاعر نے سادہ لوح دیہاتی سے پوچھا ہنس کیوں رہے ہو ۔ دیہاتی بولا اس لیے کہ میرے دادا کی بھینس نے جو بچہ دیا تھا میں اُسے بھینس کا بچہ سمجھ کر سالوں پالتا رہا لیکن وہ ظالم اندر سے بکری نکلا۔ شاعرِ شکستہ تن نے دوسرا سوال کیا سادہ لوح دیہاتی روتے کس بات پر ہو۔ دیہاتی نے جواب دیا اس خوف سے رو رہا ہوں کہ وڈے چودھری صاحب جب اس دنیا میں نہیں ہوں گے تو ایسا فوری اورسستا انصاف ہمیں کون دے گا۔ شاعر نے ڈھیلی پتلون سنبھالی دیہاتی کے ہاتھ سے سگریٹ چھین کر شکریہ کہا ۔ لمبا کَش لگایا اور گُن گُنا تے ہوئے منڈی مویشیاں سے نکل گیا۔ 
پھر وہی بات وہی قصہ پرانا نکلا 
حاکمِ منڈی کا چودھری سے یارانہ نکلا
قارئینِ وکا لتِ نامہ سینکڑ وں سال پرانی یہ ترو تا زہ کہانی کئی 100 سال سے سادہ لوح دیہاتیوں نے یاد رکھی ہوئی ہے ۔ 
اب ذرا پوٹھوہار کی 3 کہانیاں بھی سن لیں۔ پہلی لوک داستان کا ہیرو''گھوڑا ڈنچ ‘‘ جسے انگریزی میں (CENTAUR) کہتے ہیں ۔ جس کا چہرہ انسانی اور دھڑ گھوڑے والا ہے ۔ یہ رات گائوں کی گلیوں میں تیزی سے دوڑتاہے ۔ جو بچہ گھر والوں کی بات نہ مانے اُسے اُٹھا کر لے جاتا ہے ۔ بچپن میں یہ کہانی میں نے کہوٹہ میں سُنی ۔ پھر والدہ صا حبہ کے گائوں گجر خان میں ۔پھر میرے بچوں نے اپنے نانکے چونترا / چکری میں یہی کہانی سُنی ۔ دوسری کہانی بھی پورے دیہاتی وسیب کی مشترکہ ملکیت ہے جس میں پہنچے ہوئے مُرشد کی قبر پر ببر شیر سر پر لالٹین رکھے۔ کالی راتوں میں اپنی دُم سے جھاڑو پھیرنے آتا ہے۔ تیسری کہانی ،دیر سے گائوں پہنچنے والے مسافر کی ہے جسے چھوٹا سا لیلا نظر آیا۔ انسانی ہمدردی کے تحت اُس نے لیلا کندھے پر رکھا، تھوڑی دیر بعد بھاری وزن کی وجہ سے لیلا اس نے پھینک دیا۔ مُڑ کر دیکھا تو لیلا ایسی چُڑیل بن چُکا تھا جو آسمان تک لمبی تھی ۔ چُڑیل نے مسافر سے کہا تیرا پیر کامل نہ ہوتا تو آج بچ کر نہ جاتے۔(بلا تبصرہ)
آخری کہانی بھی ایک دیہاتی کی ہے جو چمن شاہ گجرانوالا کے علاقے میں رہتا ہے ۔ جس کے 4 چھوٹے بچے ہیں وہ جی ٹی روڈ پر رکشہ چلا کر بچوں کے دودھ اور کپڑے کا خرچ نکالتا۔ 9/11 کی طرح 4/20 اُس کا رکشہ جلا کر چلا گیا ۔ اخبار کہتے ہیں احسان اللہ روزانہ کی مزدوری کے لیے رکشہ چلا رہا تھا کہ اس نے پانامہ کیس کا فیصلہ سنا ، سواریاں رکشے سے اُتاریں، رکشے پر پٹرول چھڑکا، اسے آگ لگائی اور سڑک پر بٹنے والی سرکاری مٹھائی کھائے بغیر اپنا رکشہ پاناما پر نثار کر دیا ۔ اس رکشے کو بھی تاریخ کئی 100 سال یاد رکھے گی۔ کچھ بے صبر ے پہلا رس گُلا منہ میں ڈالنے کے ساتھ ہی یہ کہہ کر اڈّی مار کر جھومنے پر مجبور ہو گئے۔
رکشہ تیرے جاں نثار بے شمار بے شمار 
ایک ،دو، تین، چار، بے شمار بے شمار
آج کاوکالت نامہ یہیں کلوز کرتے ہیں۔ میں نے تازہ کڑکتے کاغذوں میں آبپارہ سے پَکوڑے لے کر ڈالنے ہیں ۔ 
نوٹ (چودھری ، رکشہ، منڈی، جاں نثار سب پارلیمانی الفاظ ہیں۔ انہیں غیر پارلیمانی انداز میں نہ پڑھا جائے)۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved