تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     24-04-2017

سیاسی مغالطے

اقتدار کی سیاست اپنی تمام ترسنگ دلی کے ساتھ،لباسِ فطرت میں ہمارے سامنے کھڑی ہے۔اس کے جلو میں مغالطوںکا ایک ہجوم ہے کہ چلا آتا ہے۔تاریخ، عمرانیات، مثالیت پسندی ،حقیقت پسندی ، فکشن،قانون...کہیں کی اینٹ ،کہیں کا روڑا لے کرعمارت بنائی جا رہی ہے۔اس پر اصرار ہے کہ اسے مرقع جمال تسلیم کیا جائے۔
پہلا مغالطہ یہ ہے کہ معاشرے میں جزیرے بنائے جاسکتے ہیں۔لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک ایسے معاشرے میں سیاست دان کو مثالی ہونا چاہیے جس میں اہلِ مذہب تک کا اخلاقی وجود برباد ہو چکا ،الا ماشااللہ۔وکلا کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم کوصادق اور امین ہو نا چاہیے۔غور کیجیے کہ یہ مطالبہ کون کر رہا ہے؟چند روز پہلے میںایک سیمینار میں شریک تھا۔ دیگر شرکا میں سینیٹر افرسیاب خٹک بھی تھے۔ایک بیرسٹرصاحب نے بتایا کہ ایک نوے سالہ بزرگ کے گھر پر ایک وکیل قابض ہو گیا۔کوئی اس مظلوم کا مقدمہ لڑنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ ملزم وکیل برادری سے تھا۔ ایک نوجوان وکیل نے ہمت کی۔ساری وکیل برادری اس کے خلاف ہو گئی۔ قریب تھا کہ اسے توہینِ رسالت کے مقدمے پر پھنسادیا جاتا کہ لوگوں نے مداخلت کی اور اس وکیل کی جان بچائی۔اس نے مقدمہ لڑنے سے توبہ کر لی۔یہی معاملہ صحافیوں سمیت ہر طبقے کا ہے۔
دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ آج کا وزیراعظم ماضی کے بادشاہ کی طرح ہوتا ہے۔طاقت کا تنہا ماخذ و محور۔تاریخ سے بادشاہوں کی کہانیاں اٹھائی جاتیں اور انہیں آج کے وزیر اعظم پر منطبق کر کے سادہ لوحوں سے داد وصول کی جا تی ہے۔اس کی بنیاد پر یہ مقدمہ قائم ہوتاہے کہ وزیراعظم کی مخالفت بطلِ حریت ہو نے اور اس کی حمایت مفاد پرست ہونے کی علامت ہے۔واقعہ یہ ہے کہ موجود ریاستی نظام میں طاقت کے ایک نہیں، کئی مراکز ہیں۔ہمارے ملک میں ،ان میں سب سے کمزور ،منتخب وزیراعظم ہے۔اس سے کہیں طاقت ور موجود ہیں جو چاہیں تو ایک منتخب وزیراعظم کو طیارے میں بھی ہتھکڑیاں لگا کر لے جائیں۔عدالتوں سمیت کوئی ان کی قوت کو چیلنج نہیں کر سکتا۔
وزیراعظم کے خلاف تنقید آج سب سے آسان کام ہے۔ یہ اس جمہوریت کا ایک ثمر ہے جسے صبح شام گالیاں دی جاتی ہیں۔ایک سال عدالت اور میڈیامیں جو سلوک ایک منتخب وزیراعظم کے ساتھ ہوا ،کسی دوسرے کے بارے میں کوئی سوچ کر تو دکھائے؟ یہ صرف نوازشریف صاحب کا معاملہ نہیں ہے۔آصف زرداری صاحب کے دورِ صدارت میں میڈیا اورعدالتوںمیں، ان کے ساتھ جو کچھ ہوا،میں اسے بھی اسی تسلسل میں دیکھتا ہوں۔زرداری صاحب کے بارے میں ہر گفتہ اور ناگفتہ بات کہی گئی۔جواباً کسی کی نکسیر تک نہیںپھوٹی۔اس لیے منتخب صاحبان ِا قتدار پر تنقید سب سے آسان کام ہے۔رہی مفاد کی بات تو اس کا ماخذبھی آج ایک نہیں۔ایک منتخب وزیراعظم جو کچھ کسی کو دے سکتا ہے،اس سے زیادہ نوازنے کی صلاحیت طاقت کے دیگر مراکز کے پاس ہے۔ 
آج تو طاقت کے کئی غیر ریاستی مراکز بھی قائم ہو چکے ہیں جن کے خلاف کچھ کہنا یا لکھنا سب سے مشکل کام ہے۔ان کا پاس بندوق بھی ہے اور جذباتی اپیل بھی۔وہ جب چاہیں کسی کو اسلام دشمن قرار دے کر اسے قابل گردن زدنی قرار دے دیں۔اس لیے فارمولہ سازی کا یہ عمل کہ فلاں کے حق میں لکھنے والا مفاد کی وجہ سے لکھتا ہے اور فلاں کے حق میں قلم اٹھانے والا معروضیت کے ساتھ لکھتا ہے، ایک مغالطہ ہے جسے شاید بے دھیانی میں پھیلایا جا رہاہے۔رائے کو دلیل کی بنیادپر پرکھنا چاہیے۔
تیسرا مغالطہ یہ ہے کہ کرپشن ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اور اس کا سب سے بڑا ماخذ شریف خاندان ہے۔ مجھے اس مقدمے کے دونوں حصوں سے اتفاق نہیں لیکن میں اس وقت اس مفروضے کو مان کر بات آگے بڑھا رہا ہوں۔سوال یہ ہے کہ اگر نوازشریف آج اقتدار سے الگ ہو جائیں تو پھر کیا ہوگا؟2018ء تک ن لیگ ہی کی حکومت رہے گی۔کیا اس سے ملک بدل جائے گا؟2018ء کے انتخابات میں موجود سیاسی لوگوں ہی میں سے کوئی برسر اقتدار آئے گا۔تینوں بڑی جماعتوں کو پانچ سال مل چکے۔اس کارکردگی کی بنیاد پر،کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی بہتر اخلاقی یا سیاسی متبادل موجود ہے؟
چوتھا مغالطہ یہ ہے کہ یہ کرپشن کا کوئی حالیہ واقعہ ہے جس کا فیصلہ ہمارے سیاسی کلچر کو بدل دے گا۔یہ چوبییس سال پہلے کا ایک واقعہ ہے جسے ابھی ثابت ہونا ہے۔اس کے بعد ہماری سیاست اور ریاستی نظام ارتقا کے کئی مراحل طے کر چکے۔گزشتہ چار سال میں کرپشن کا کوئی بڑا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔اس دوران میں میڈیااور عدلیہ سمیت سماجی اورریاستی ادارے زیادہ فعال ہو چکے۔شریف خاندان بھی اب وہ نہیں جیسے پہلے تھا۔یہ ارتقا مثال کے طورپرعمران خان صاحب میں بھی آیاہے۔کیا آج کا عمران وہی ہے جو کرکٹر عمران تھا؟ہم اپنے تجزیوں میں اس پہلو کو سرے سے نظرا نداز کر رہے ہیں۔
پانچواں اورایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ تاریخ میں یا معاصر معاشروں میں تو اخلاقیات اور سیاست ہمیشہ ہم کنار رہے ہیں اور ہمارے ہاں ان میں فراق واقع ہوگیا ہے۔انبیا اور خلافتِ راشدہ کے استثنا کے ساتھ، میں تو کم ہی ایسے تاریخی یا عصری سماج سے واقف ہوں جہاں یہ وصال ہواہو۔مسلم دنیا میں آج طیب اردغان کو مثالی راہنما سمجھا جاتا ہے۔ان کا اندازِ حکمرانی کیا ہے؟ کرپشن سے لے کر آمریت تک، اِس میں سب رنگ شامل ہیں۔غیر مسلم دنیا میں امریکہ کی مثال لے لیں۔موجودہ افغانستان،عراق اور شام کو دیکھ کر، کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ امریکہ کا اخلاقیات یا انسانی اقدار سے کوئی تعلق ہے؟یہ فرد ہو یا گروہ،اخلاقیات کا امتحان اُس وقت ہوتا ہے جب کسی مفاد پر زد پڑتی ہے۔عام حالات میں تو ہر کوئی اخلاقیات کا مبلغ ہو تا ہے۔یہ بات صرف معاصر معاشروںہی کے بارے درست نہیں، تاریخی معاشرے بھی ایسے ہی تھے۔
کیا اس کا مطلب ہے کہ اخلاقی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دینا چاہیے؟یقیناً ایسا نہیں ۔ انسان کا اصل مسئلہ اخلاقی ہی ہے۔جب تک اُس کی اخلاقی تعمیر نہیں ہو گی، وہ وزیراعظم ہو یا کالم نگار،خیر کا ماخذنہیں بن سکے گا۔میرا کہنا یہ ہے کہ سیاست میں فیصلے زمینی حقائق کی بنیادپر ہوتے ہیں۔اس وقت سیاسی کرداروں میں کوئی ایک ایسا نہیں جو اخلاقی پیمانے پر پورا اترتا ہو۔ہمیں جو انتخاب کرنا ہے،ا ن ہی میں سے کرنا ہے۔یہ مثالی اور حقیقی کرداروں میں انتخاب کا معاملہ نہیں ہے۔اسے اسی حوالے سے دیکھا جائے۔ہم اپنی رائے کی بنیاد عابد شیر علی،نعیم الحق یا مولا بخش کے افکار پر نہیں رکھ سکتے۔
ایک معاشرے بیک وقت سیاسی اور سماجی ارتقا سے گزرتا ہے۔اس کا ایک فطری طریقہ ہے۔اگر اسے قبول کیا جائے تو سماج کو کسی اضطراب میں مبتلا کیے بغیر،بہتری کے طرف پیش قدمی ہو سکتی ہے۔میرا احساس ہے کہ جمہوریت کے چند برسوں میں ہم نے ذہنی بلوغت کے جو سنگ ہائے میل عبو رکیے ہیں ،وہ آمریت کے دور میںنہیں ہو سکتے تھے۔آمریت کا حاصل ذہنی اور عملی جمود ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک ارتقائی مرحلہ ہے۔ 2018ء کے انتخابات میںبھی ہم مزید بہتری کی طرف بڑھیں گے۔ اس کے ساتھ CPECجیسے منصوبے بھی جاری ہیں جن سے معاشی استحکام آ رہاہے۔ضربِ عضب کے بعد رد الفساد کا عمل بھی جاری ہے جس سے امن لوٹ رہا ہے جو سیاسی و معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ہمیں ان امکانات کو بر باد نہیں کر ناچاہیے۔
آج ضرورت ہے کہ معاشرے کو پھر کسی احتجاج یااضطراب میں مبتلا کیے بغیر، اس فطری ارتقا کے عمل کو آگے بڑھنے دیا جائے۔تاہم میں جا نتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو گا۔اقتدار کی سیاست کے اپنے مطالبات ہیں۔وہ اِس وقت لباس ِ فطرت میں ہمارے سامنے کھڑی ہے۔پھر وہ اکیلی نہیں، کچھ مغالطے بھی اس کے ہم سفر ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved