تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     24-04-2017

جنرل میک ماسٹر کا دورئہ جنوبی ایشیا

امریکہ کے کھرب پتی بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کو ملک کے نئے صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالے ابھی تین ماہ کا ہی عرصہ ہوا ہے مگر اس دوران انہوں نے امور مملکت، خواہ ان کا تعلق امریکہ کے اندرونی مسائل سے ہو یا خارجہ تعلقات سے ،کو چلانے میں عجلت‘ کنفیوژن اور بے ربطگی کا ریکارڈ مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال صدر کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر میک ماسٹر کا حالیہ دورہ افغانستان پاکستان اور بھارت ہے۔ اس دورہ کے دوران میں جنرل میک ماسٹر نے جو بیانات دیئے ہیں اُن سے افغانستان میں مصالحتی عمل اور جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کے بارے میں امریکی پالیسی اور بھی مبہم اور غیر یقینی نظر آتی ہے۔ جنرل میک ماسٹر کا اس خطے میں اُن کا یہ پہلا دورہ تھا اور واشنگٹن میں اس کے آغاز سے قبل جو بیان جاری کیا گیا تھا اس کے مطابق اس دورے کا مقصد افغانستان اور جنوبی ایشیاء کو درپیش مسائل کے بارے میں فرسٹ ہینڈ معلومات حاصل کرنا اور ان معلومات کی روشنی میں امریکہ کی نئی حکمت عملی تیار کرنا تھا۔ اس دورے کے پہلے مرحلے یعنی کابل پہنچ کر جنرل میک ماسٹر نے جو بیان دیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی حکومت کو یا تو اس خطے کے معروضی حالات کا علم نہیں یا وہ جان بوجھ کر حقیقت سے آنکھیں چرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس بیان میں جنرل میک ماسٹر نے پاکستان پر نہ صرف افغانستان بلکہ بھارت (کشمیر) میں بھی پراکسی وار جاری رکھنے کا الزام عائد کیا ہے حالانکہ جنرل میک ماسٹر کے بقول موجودہ انتظامیہ سے قبل سابق صدر باراک اوبامہ کے دور میں بھی پاکستان پر بار بار واضح کیا گیا کہ پراکسی وار جاری رکھنے سے اُسے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ افغانستان اور کشمیر میں اگر پاکستان اپنے مفادات کو آگے بڑھانا چاہتا ہے تو اُسے سفارت کاری کی راہ اختیار کرنا چاہیے ۔جنرل میک ماسٹر نے یہ بیان کابل سے اسلام آباد پہنچنے سے قبل اور پاکستانی حکام سے ملاقات کئے بغیر جاری کیا تھا اور ایسا کرنا نہ صرف مروجہ سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ عام سمجھ بوجھ کی کمی اور سیاسی ناپختگی کا بھی ایک کھلا ثبوت ہے کیونکہ دوسرے فریق کا موقف سنے بغیر اس کے بارے میں حتمی رائے قائم کر لینا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ۔ 
اسلام آباد اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے بات چیت کے بعد جنرل میک ماسٹر نے جو کچھ کہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس نقصان کی تلافی کی کوشش کی ہے جو ان کے کابل میں بیان سے پاک امریکہ تعلقات کو پہنچا تھا۔ اسلام آباد سے نئی دہلی روانہ ہونے سے قبل جنرل میک ماسٹر نے پاکستان کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ پاکستان سے مل کر افغانستان میں جنگ بندی، مصالحت اور پائیدار امن کے قیام کی کوششوں میں برابر کا شریک رہے گا لیکن افغانستان کے بارے میں امریکہ کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے ایک طرف امریکہ افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور پاکستان کے ساتھ مل کر اس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف ماسکو میں روس، چین، پاکستان ،بھارت اور افغانستان کی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر رہا ہے جو اسی مقصد کے حصول کے لیے بلائی گئی۔ ایک طرف امریکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جدوجہد اور قربانیوں کو نہ صرف تسلیم کرتا بلکہ سراہتا ہے اور دوسری طرف ہمسایہ ممالک کے خلاف پراکسی وار کا الزام عائد کرتا ہے پاکستان کی طرح امریکہ بھی پاک افغان تعاون کو افغانستان میں قیام امن کے لیے لازمی سمجھتا ہے لیکن دوسری طرف افغانستان میں سرکاری فوجوں اور امریکیوں کے خلاف برسرپیکار افغان طالبان اور خصوصاً حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کو اپنے ہاں محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کا الزام عائد کر رہا ہے۔ امریکہ اور افغان حکومت کی طرف سے یکطرفہ طور پر عائد شدہ یہ الزامات نہ تو افغانستان میںقیام امن کی کوششوں میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور نہ ہی دونوں ملکوں کے ساتھ پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کے لیے سودمند ثابت ہو سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں خود امریکہ کی پالیسی کنفیوژن کا شکار ہے اگر امریکہ کے نزدیک افغانستان کے مسئلے کا حل جنگ نہیں بلکہ مذاکرات ہیں تو پھر بین الاقوامی برادری اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی جو کوشش کر رہی ہے امریکہ اس میں شامل کیوں نہیں ہوتا اگر امریکہ افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ بات چیت کا حامی ہے تو افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد بڑھانے کی باتیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ افغانستان کے بارے میں امریکہ کی غیر واضح پالیسی کی وجہ سے خطے کے اندر اور اردگرد واقع ممالک میں امریکی عزائم کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ یہی تشویش چین اور روس کو ایک دوسرے کے قریب لا رہی ہے۔
پچھلے چند برسوں میں چین اور روس کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں توانائی اور دفاع بھی شامل ہے میں تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ افغانستان کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے موقف میں یکسانیت پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کو مسئلے کے حل کیلئے ناگزیر سمجھا جا رہا ہے ان ہی خطوط پر افغانستان میں جنگ کو ختم کرنے اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے روس اور چین نے ماسکو میں اپریل میں ایک کانفرنس بلائی تھی اس کانفرنس میں امریکہ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ۔تاہم پاکستان اور افغانستان اس میں شریک ہوئے تھے۔یہ کانفرنس چین، پاکستان اور روس کی جانب سے کی گئی دیگر کوششوں کا ایک حصہ ہے اور اس کا مقصد افغانستان کے مسئلے کا دیرپا حل تلاش کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان، چین، افغانستان اور امریکہ پر مشتمل ایک کوآرڈی لیٹرل کوآرڈی نیشن گروپ QCG پہلے سے موجود ہے اور امریکہ اس کے اب تک ہونے والے تمام اجلاسوں میں برابر کا شریک رہا ہے لیکن روس کی طرف سے شروع کی گئی کوششوں سے امریکہ کی لاتعلقی کی وجہ سے افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا موقف صاف واضح ہو رہا ہے بلکہ دنیا کے چند دیگر ممالک بھی اس موقف سے متفق ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔
طالبان کو بھی باور کروانا ضروری ہے کہ وہ بھی بزور طاقت افغانستان کی موجودہ حکومت کو ختم نہیں کر سکتے۔ افغانستان میں اس وقت ایک تعطل Stalemate کی سی صورتحال ہے۔ یہ تعطل زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا ہے کیونکہ اس کے جاری رہنے سے افغانستان کے عوام ہی نہیں بلکہ اس کے ہمسایہ ممالک اور وہ تمام ممالک جن کے اہم قومی مفادات جنوبی اور مغربی ایشیا کے امن اور سلامتی سے منسلک ہیں ،فکرمندی اور غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ایسی صورتحال میں تمام فریقین میں تعاون اور اتفاق کی ضرورت ہے اس میں ان اہم فریقین پر اعتماد کی بھی ضرورت ہے جو اس تعطل کو ختم کرنے میں کلیدی حیثیت اور کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ان میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن جنرل میک ماسٹر کے بیانات سے پاکستان کو مایوسی ہوئی ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیوں اور افغان مسئلے کے حل میں کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود اس پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved