تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-04-2017

سُرخیاں‘ متن اور ٹوٹے

ہم سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتے : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ہم سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتے‘‘ اور صرف غیر سیاسی انتقام پر یقین رکھتے ہیں؛ چنانچہ ہمارا جو بھی انتقام ہو گا وہ غیر سیاسی ہو گا لیکن مصیبت یہ ہے کہ اب ہر کام میں سیاست آ گئی ہے اور ہمارا ہر انتقام ہی سیاسی لگتا ہے مثلاً یہ جو سعد رفیق کی موجودگی میں گو نواز گو کے نعرے مارنے پر پانچ لڑکوں کو گرفتار کیا گیا تھا‘ جونہی مجھے علم ہوا میں نے انہیں رہا کروا دیا کیونکہ اس وقت تک پولیس والے اُن کی خاصی مالش کر چکے تھے اور اُن سے غیر سیاسی انتقام اچھی طرح سے لے چکے تھے‘ یہ یاد رہے کہ انہوں نے نعرے خواجہ سعد رفیق کو دیکھ کر لگائے تھے جنہیں وہ غلطی سے نوازشریف سمجھ بیٹھے تھے اور غلطی ہم ہمیشہ معاف کر دیا کرتے ہیں‘ تاہم اس میں سارا قصور سعد رفیق کا تھا‘ لڑکوں کا نہیں‘ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
نوازشریف کے بعد زرداری کے پیچھے جائوں گا : عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کے بعد زرداری کے پیچھے جا ئوں گا‘‘ اور اس کی نوبت شاید ہی آئے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ عمر عزیز نوازشریف کا پیچھا کرتے ہی گزر جائے گی اور زرداری کی باری ہی نہیں آئے گی۔ اس لیے زرداری مطمئن رہیں جبکہ میں نے ان کی تعریف بھی کر دی ہے کہ وہ منافق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''بڑے ڈاکو ملے ہوئے ہیں‘‘ حالانکہ آدمی کو اپنی انفرادیت قائم رکھنی چاہیے، چاہے وہ ڈکیتی کا پیشہ ہی کیوں نہ ہو‘ اسی لیے میں نے کسی کے ساتھ الحاق نہیں کیا‘ ماسوائے شیخ رشید کے حالانکہ وہ بڑے ڈاکو نہیں ہیں اور کافی حد تک قناعت پسند آدمی ہیں‘ جبکہ لیاقت جتوئی صاحب کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ ان کے صرف اہل خاندان پر مقدمات قائم کئے گئے تھے۔ ان پر نہیں‘ آپ اگلے روز دادو میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان ہمیشہ روتے اور وزیراعظم 
سرخرو ہوتے رہیں گے : مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران خان ہمیشہ روتے اور وزیراعظم سرخرو ہوتے رہیں گے‘‘ جیسا کہ انہوں نے پانامہ کیس میں سرخرو ہو کر دکھا دیا ہے کیونکہ جے آئی ٹی کی فرمائش بھی سب سے پہلے وزیراعظم ہی نے کی تھی اور عدالت نے انہی کا یہ مطالبہ پورا کر کے انہیں سرخرو کر دیا جس سے دشمنوں کا منہ کالا ہو گیا ہے کیونکہ تین مضامین میں سپلی آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے چنانچہ اب وہ زیادہ پڑھائی کر کے ان مضامین میں بھی پاس ہو جائیں گے کیونکہ ممتحن اور سپرنٹنڈنٹ وغیرہ سب کے سب انہی کے ماتحت ہوں گے اور اپنی وفاداری کا بھرپور اظہار بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران کو شرم آتی ہے نہ ہدایت‘‘ جبکہ ہمیں کم از کم ایک چیز تو آتی ہے ۔آپ اگلے روز راولپنڈی میں نجی تقریب میں شرکت کے بعد میڈیا سے بات کر رہی تھیں۔
بُری بات
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ وزیراعظم ایک ہفتے کے اندر اندر مستعفی ہو جائیں ورنہ ان کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں گے۔ حق تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے بقول بھی ہر شخص کو اپنا کام کرنا چاہیے اور وکیلوں کو بھی وکالت کے علاوہ کوئی اور کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ وزیراعظم سے باز پرس کرنے کے لیے جے آئی ٹی ہی کافی ہے اور انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت جو بار بار ان ایسوسی ایشنوں کو کروڑوں روپے کے فنڈز فلاح و بہبود کے لیے مہیا کرتی ہے‘ سو انہیں اپنی فلاح و بہبود پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ آخر نوازشریف نے وکلا کا کیا بگاڑا ہے بلکہ سنوارا ہی ہے جبکہ انہیں اس بات کا بھی کھوج لگانا چاہیے کہ یہ کہیں اُن کے خلاف کوئی سازش تو نہیں ہو رہی کیونکہ ملک عزیز میں ہر برا کام کسی سازش ہی کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے جیسا کہ ایک پوری سازش کے تحت ان کے خلاف یہ پانامہ کیس بنا دیا گیا ہے اس لیے بہتر ہے کہ وکلا اپنے کام سے کام رکھیں اور پرائے پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس پھٹے میں پہلے ہی ایک مضبوط ٹانگ اڑی ہوئی صاف نظر آ رہی ہے۔ اللہ سب کو نیک ہدایت دے۔
ایک ہمدردانہ ہدایت
عمران خان نے نوازشریف کے ساتھ اب ہمارے مہربان آصف علی زرداری کے خلاف بھی زہر اگلنا شروع کر دیا ہے جو یقیناً کسی غلط فہمی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے حالانکہ دونوں مل کر ہی حکومت کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ سارے چنے خود عمران خاں اکیلے ہی چبوانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ شروع ہی سے آپس میں ملے ہوئے ہیں اور نہایت کامیابی سے اپنی اپنی باری لے رہے ہیں‘ اس لیے اگر عمران خاں بھی اپنی باری لینا چاہتے ہیں تو یہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے اندر خانے دونوں کے ساتھ الحاق کر لیں اور وقت آنے پر اپنی باری لیتے رہیں‘ اگرچہ ان دونوں کے ہوتے ہوئے عمران خان کی باری آنے کے امکانات کچھ اتنے زیادہ روشن نہیں ہیں اور جہاں تک کرپشن کرپشن کے نعروں کا تعلق ہے تو کرپشن کو کوئی بھی برا نہیں سمجھتا اور یہی شرفاء باری باری سارے ووٹ لے جاتے ہیں اس لیے عمران خان کو سفید کوّا بننے کی کیا ضرورت ہے؟ جب ہم سارے کے سارے ہی کرپٹ ہیں تو عمران خان دریا کے اُلٹی طرف بہہ کر کیا کامیاب ہوں گے؟ وہ ظاہر میں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے رہیں اور حتیٰ الامکان زہر افشانی بھی کیونکہ یہ دونوں حضرات بھی پھوکے فائر ہی کر رہے ہیں اور الیکشن کے بعد حسب سابق شیروشکر ہو جائیں گے۔
آج کا مقطع
پڑتا ہے کچھ ہنر بھی برائی میں اے ظفر
کرتا ہوں سارے کام نہ کرنے کے نام پر

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved