تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     25-04-2017

دو ہی راستے باقی ہیں

دو ہی راستے باقی ہیں۔ سیاستدان باہم بات کریں اور قبل از وقت الیکشن پر متفق ہو جائیں۔ انتخابات کی نگرانی فوج کرے۔ دوسرا یہ کہ خدانخواستہ حالات اور بھی بگڑیں اور فوج مداخلت کرے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ پہلا راستہ ہی بہتر ہے۔ 
نصرت جاوید کی اس رائے سے اتفاق کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ صورتِ حال کی نزاکت اور سنجیدگیوں کا ادراک رکھنے والا ایک بھی لیڈر، ایک بھی گروہ اس وقت ملک میں موجود نہیں۔ 
ایک طویل عرصہ اس بات پہ غور کرتے ہوئے گزرا کہ معاملات جب بے حد الجھ جاتے، کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تو عمر فاروقِ اعظمؓ اہلِ بدرؓ کو کیوں مدعو کیا کرتے۔ اسلام کی پہلی اور فیصلہ کن جنگ میں شریک اہلِ اخلاص کا رتبہ، ظاہر ہے کہ بہت بلند تھا۔ ہر شہید کا رتبہ بلند ہوتا ہے، ان کا سوا تھا، بہت ہی سوا۔ اس کا مطلب مگر یہ کیسے ہوا کہ غیر معمولی فہم و فراست بھی انہیں عطا ہوئی تھی۔ پھر دوسرا اور اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وہ امیرالمومنینؓ کا آخری سہارا کیوں تھے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے، ماسوا سے وہ نجات حاصل کر لیتا ہے۔ فاروقِ اعظمؓ وہی تھے اور اہلِ بدرؓ بھی وہی۔ 
تیرہ برس ہوتے ہیں، مدینہ منورہ سے واپسی پر میدانِ بدر کو دیکھنے کی آرزو دل میں جاگی۔ کسل مندی اور سفر کی تھکان، نمازِ عصر کا وقت بیت رہا تھا۔ طبیعت مگر عبادت کو مائل نہ تھی۔ آخر کار خود کو گھسیٹ کر عثمانی عہد کی تعمیر کردہ مسجد تک لے گیا۔ مسجد کے مرکزی دروازے پر ایک تختی نصب تھی۔ اس میں کتابت کا ایسا نمونہ کہ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ فنون کی دنیا میں کچھ گل بوٹے ترکوں نے اگائے ہیں۔ ان کی اپنی ایک الگ شان اور سج دھج ہے۔ مثلاً ترکوں کا سا فانوس کوئی نہ بنا سکا۔ مثلاً کچھ عمارتیں انہوں نے ایسی استوار کی ہیں، جن میں عظمتِ پروردگار کی جھلک جلوہ گر رہتی ہے۔ لاہور کی ایک نواحی بستی میں استنبول کی نیلی مسجد کی نقل اتاری گئی۔ سائز میں اصل سے کم مگر نقشہ اور تیور وہی۔ اس کے گنبدوں اور اس کی محرابوں میں آدمی گم جاتا ہے۔ یہ بات سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ مسجدِ قرطبہ کو اقبالؔ نے ایک باقی رہنے والا شاہکار کیوں کہا تھا۔ یہ کیوں کہا تھا کہ اس کی نظیر صرف قلبِ مومن ہی میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ 
مومن کے دل کو ماسوا سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ فرمایا: مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اہلِ بدرؓ کا رتبہ فقط اس لیے بلند نہ تھا کہ رحمتہ اللعالمینؐ کی قیادت میں کفر و باطل کی سب سے بڑی جنگ میں وہ شریک تھے۔ اس لیے بھی کہ جہادِ اکبر کے مہ و سال نے سب غبار دھو ڈالا تھا۔ ساری تاریکی تمام کر دی تھی۔ سب راستے ان پہ روشن تھے اور تمام منزلیں بھی۔ یہ آدمی کی ذات ہے، جو اس کے اور سچائی کے درمیان حائل ہوتی ہے۔ اپنی ذات سے جب وہ اٹھ جاتا ہے تو خود سچائی کا حصہ ہو جاتا ہے۔ اہلِ بدر سے مشاورت کرنے والے نے یہ کہا تھا: ہم دھوکہ نہیں دیتے مگر دھوکے کی ہزار شکلوں سے واقف ہیں۔ 
بیس برس ہوتے ہیں، ایک کھرب پتی سے میں نے پوچھا: آئے دن دبئی جاتے ہو۔ عمرہ کرنے کی توفیق تمہیں کیوں نہیں ہوتی۔ بے بسی سے اپنے ہاتھ اس نے جھٹکے اور یہ کہا: مجھے خوف محسوس ہوتا ہے۔ یہ بھی غنیمت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تضاد گہرا ہے مگر وجودِ باری تعالیٰ کا احساس کارفرما ہے۔ پاکستان کے ایک مشہور مذہبی سیاستدان کو دیکھا کہ اس طرح حرمِ پاک کی حدود میں داخل ہو رہا ہے، جیسے لارنس گارڈن میں۔ غصہ نہیں، اس پہ ترس آیا۔ 
میدانِ بدر سے ملحق عثمانی ترکوں کی مسجد ٹھیک اس مقام پر تعمیر کی گئی، جہاں رزم آرائی کے دن سرکارؐ نے اپنا خیمہ نصب کیا تھا۔ اس دن سیدنا بلالؓ کی زبان سے یہ اعلان نشر ہوا تھا کہ عورت، بوڑھے اور بچّے کو امان ہے۔ کارخانے میں کام کرتے مزدور اور کھیت میں مصروف کسان کو بھی۔ درخت نہیں کاٹا جائے گا اور فصل نہیں جلائی جائے گی۔ مسافر سنگِ بنیاد کے جمال میں محو تھا کہ دیہاتی وضع قطع رکھنے والا خوش کلام ایک بوڑھا نمودار ہوا۔ اس نے کہا: مسجد کی تاریخ اور مقامات سے وہ آشنا ہے۔ زائرین کی وہ مدد کر سکتا ہے۔ میرا ہاتھ پکڑ کر کشاں کشاں ٹھیک اس مقام پر وہ لے گیا، 1400 برس پہلے جہاں سرکارؐ سجدہ ریز ہوئے تھے۔ جہاں آپؐ نے اپنے رب سے یہ کہا تھا: اپنی ساری متاع لے کر ہم آ گئے۔ پروردگار! اگر یہ لوگ باقی نہ رہے تو قیامت تک تیرا نام لیوا کوئی نہ ہو گا۔ ''تمہیں یہاں نماز پڑھنی چاہیے‘‘ بوڑھے آدمی نے کہا۔ فضا میں نکہت و نور تھا۔ وہ لوگ یاد آئے، اس طرح سرکارؐ کے سامنے جو مودب رہا کرتے، ان کے سروں پہ جیسے پرندے بٹھا دیے گئے ہوں۔ ایک دن سرکارؐ ان کے درمیان آبدیدہ ہوئے۔ ٹھٹکے، اس خیال نے انہیں آ لیا کہ شاید کوئی گستاخی سرزد ہوئی۔ سوال کیا گیا تو ارشاد کیا: میں نے انہیں یاد کیا، جو تمہارے بعد آئیں گے۔ مجھے انہوں نے دیکھا نہ ہو گا مگر اتنی ہی محبت مجھ سے کریں گے، جتنی تم کرتے ہو۔ آنکھیں اس خیال سے بھیگ گئیں۔ 
دفعتاً خوف کی ایک لہر اٹھی۔ بچّوں کے سے معصوم بوڑھے سے اپنا ہاتھ چھڑا کر مسافر پیچھے ہٹا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ سرکارؐ کے قدم جہاں پڑے تھے، وہاں سجدے کی جسارت بھی نہ کرے گا۔ 
عارف سے پوچھا گیا: انسانی زندگی میں اضطراب اور آسودگی کا راز کیا ہے؟ کہا: فطرت سے آدمی جتنا قریب ہو گا۔ اتنا ہی آسودہ اور جتنا دور، اسی قدر پریشان۔ ایک قدسی حدیث یہ کہتی ہے کہ خواہشات کا آدمی غلام ہو جائے تو اپنے حال پہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ زندگی بھر وہ بھٹکتا پھرتا ہے۔ آخر کار تھک کے ڈھے پڑتا ہے۔ پھر ہوتا وہی ہے، مالک کو جو منظور۔
وہ لوگ کہاں ہیں، اللہ کے آخری رسولؐ نے جنہیں یاد کیا تھا۔ جن کے بارے میں ارشاد کیا تھا کہ اہلِ مدینہ کی طرح انؐ سے محبت کریں گے۔ کم از کم سیاست میں تو کوئی نہیں۔ وہ آخری آدمی شاید محمد علی جناحؒ تھے۔ عمر بھر جنہوں نے کبھی جھوٹ نہ بولا، کبھی خیانت نہ کی اور وعدہ شکنی کے کبھی مرتکب نہ ہوئے۔ عماموں اور جبّوں والے نہ پا سکے مگر اس بھید کو انہوں نے پا لیا تھا کہ آدمی کا بھروسہ اگر اللہ کے سوا کسی پہ نہ ہو تو عالمِ اسباب سے وہ آزاد کر دیا جاتا ہے۔ اقتدار کے بھوکے ہیں اور ان کے درباری۔ تاویلیں تراشنے والے دانشور ہیں اور ان کی ادنیٰ خواہشات۔ عارف نے کہا تھا ''ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ وہ کرے، جو ہماری مرضی ہے۔ اس کا قانون مگر مختلف ہے۔ و اما من خاف مقام ربہ و نہی النفس عنی الھوی۔ اور جو اپنے رب کے مقابل کھڑا ہونے سے ڈرا اور خود کو اپنی خواہشات پہ عمل کرنے سے روکتا رہا‘‘۔
پاکستانی سیاست الجھ گئی ہے۔ لوگ دیوانے ہو رہے ہیں۔ شاید بہت دلاور نہ ہو مگر اعتزاز احسن نے پاک فوج کے جس افسر پہ آوازہ کسا، اس کی دیانتداری پہ کبھی کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ اس کی دفترِ عمل میں سازباز اور جوڑ توڑ کا کوئی واقعہ نہیں۔ مزید وضاحت پیر کے دن آئی ایس پی آر نے جاری کر دی ہے۔ کور کمانڈروں کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے جو افسر تفتیش میں شریک ہوں گے، قانون کی حدود میں اپنا فرض دیانتداری سے وہ بجا لائیں گے۔ 
جہاں تک پنامہ کیس کا تعلق ہے، پنڈورا باکس کھل گیا اور بند نہیں ہو گا۔ شریف خاندان ہی نہیں، باقیوں کی باری بھی آنے والی ہے۔ دو ہی راستے باقی ہیں۔ سیاستدان باہم بات کریں اور قبل از وقت الیکشن پر متفق ہو جائیں۔ انتخابات کی نگرانی فوج کرے۔ دوسرا یہ کہ خدانخواستہ حالات اور بھی بگڑیں اور فوج مداخلت کرے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ پہلا راستہ ہی بہتر ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved