تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     25-04-2017

ہرمرض سے شفا، ہر درد کی دوا!

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدالاولین والآخرین ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید آپؐ پر نازل ہوئی۔ یہ کتاب مبین اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ قیامت تک کے لیے انسانیت کی رہنمائی کا واحد ذریعہ ہے۔ آپؐ نے پوری زندگی لوگوں کے درمیان گزاری۔ کبھی اپنے آپ کو لوگوں سے الگ تھلگ نہیں کیا۔ آپؐ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اندھیرے میں ہو۔ آپؐ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ آپؐ کی سیرت کا حقیقی عکس ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے آنے والی نسلوں کے لیے ایسے نقوشِ پا چھوڑے ہیں کہ اگر یہ امت خرافات کو چھوڑ کر ان حقیقی مآخذ کی پیروی اختیار کرے تو ہرگام پہ کامیابی اس کے قدم چومے۔ اس صورت میں دشمن لاکھ چالیں چل لے تو بھی کبھی نامرادی وناکامی اس امت کا مقدر نہ بنے۔ آنحضورؐ کی سیرت کا جو باب بھی کھولیں قلب وجگر کو ایسا جلابخشتا ہے کہ سبحان اللہ۔ غزوۂ ذات الرقاع میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے صلوٰۃ الخوف ادا کرنے کا طریقہ بتایا اور فرمایا کہ دشمن سے مقابلہ ہو تو بھی نماز کے اوقات میں نماز قائم کی جائے اور ساتھ ہی دشمن کے حملے کا مقابلہ بھی کیا جائے۔ صلوٰۃ الخوف کی تفصیل قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیات 101تا 104 میں بیان فرمائی ہے۔ صلوٰۃ الخوف میں فوج دو حصوں میں نماز ادا کرتی تھی۔ ایک حصہ آنحضورؐ کی امامت میں دو رکعت فرض پڑھتا تھا اور سلام پھیر کر محاذ پر چلا جاتا تھا۔ اب دوسرا حصہ جنگی محاذ اُن صحابہ کے حوالے کرکے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوجاتا تھا۔ غزوۂ ذات الرقاع میں صحابہ کافی مشکل گھاٹیوں سے گزرے، مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ اس غزوہ کے چند منتخب واقعات ملاحظہ فرمائیے۔ 
سردیوں کا موسم تھا، رات کو ٹھنڈی یخ ہوا چل رہی تھی اور دشمن کا خطرہ بھی ہر لمحے سر پر منڈلا رہا تھا۔ حضور اکرمؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک گھاٹی میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا ''آج رات کون پہرہ دے گا؟‘‘ آپ کے دو صحابی کھڑے ہو گئے اور عرض کیا: ''یا رسول اﷲ ہم یہ خدمت سرانجام دیں گے۔‘‘ یہ دو جاں نثار تھے عمار بن یاسرؓ اور عباد بن بشرؓ۔ گھاٹی کے دہانے پر دونوں مجاہدوں نے پہرے کا فرض سنبھال لیا۔ حضرت عبادؓ نے سیدنا عمارؓ سے کہا ''بھائی صاحب پہلی رات آپ اطمینان سے سو جائیں، میں ان شاء اﷲ چوکنا رہوں گا۔ پچھلی رات میں آپ کو جگا دوں گا، پھر آپ یہ محاذ سنبھال لیجئے گا۔‘‘
حضرت عمارؓ سو گئے جبکہ حضرت عبادؓ نے گھاٹی کے دہانے پر کھڑے ہو کر نماز کی نیت باندھ لی۔ دشمن کا ایک کینہ پرور جنگجو جو ماہر تیر انداز تھا، اپنے لشکر سے نکل کر آیا۔ رات کی تاریکی میں دور سے اس نے حضرت عبادؓ کو کھڑے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ اسلامی لشکر کا پہرے دار ہے چنانچہ اس نے ان پر تیر چلایا، جو ان کے جسم میں پیوست ہو گیا۔ انہوں نے نماز نہ توڑی۔ تیر جسم سے نکال دیا اور اپنی کمان میں تیر ڈال کر دشمن پر چلا دیا۔ دشمن کا دوسرا اور پھر تیسرا تیر آیا، آپ کے جسم سے خون بہنے لگا اور کمزوری محسوس ہوئی تو حضرت عمارؓ کو جگا دیا۔ انہوں نے حضرت عمار سے معذرت کی کہ ان کو انہیں قبل از وقت جگانا پڑا کیونکہ انہیں خطرہ محسوس ہوا کہ اگر ان پر بے ہوشی طاری ہو گئی تو لشکر پہرے دار کے بغیر رہ جائے گا اور دشمن اس غفلت سے فائدہ اٹھائے گا۔ حضرت عمارؓ بیدار ہوئے توجناب عباد کا جسم لہولہان تھا۔ اب دشمن کو احساس ہوا کہ سویا ہوا آدمی بھی جاگ اٹھا ہے تو وہ راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔حضرت عبادؓ بہت جلد ان زخموں سے شفایاب ہو گئے۔
حضرت عمارؓ مہاجر تھے اور حضرت عبادؓ انصاری۔ حضرت عباد بن بشر کا تعلق مدینہ کے قبیلہ اوس سے تھا۔ یہ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ کے بھائی بنائے گئے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں ''مدینہ میں تین انصاری ایسے ہیں کہ ان کی عظمت و فضیلت کو کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا، ان کی اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے خدمات بے مثال ہیں۔ یہ تینوں قبیلہ اوس کی شاخ بنو عبدالاشہل سے ہیں، سعد بن معاذؓ، اسید بن حضیرؓ اور عباد بن بشرؓ۔ عباد بن بشر بڑے جانباز تھے۔ جنگوں میں رات کو لشکر کا پہرہ عموماً انہی کے ذمے ہوتا تھا۔ بعض اوقات آنحضورؐ کے ذاتی محافظ کا شرف بھی انہیں حاصل ہوتا تھا۔ غزوہ خندق اور غزوہ تبوک میں انہوں نے آنحضورؐ کے ذاتی پہرہ دار کے طور پر راتوں کو یہ اہم ذمہ داری سنبھالی۔
حضرت عبادؓ نے جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔ ان کی جان سپاری نے ہی مسیلمہ کذاب کی شکست اور اسلامی فوجوں کی فتح کا راستہ ہموار کیا تھا۔ حضرت ابوسعید خدری نے ان کی شہادت کا ایمان افروز واقعہ بیان کیا ہے جس سے ان کی جرأت و شجاعت اور عظمت و رفعت کا نقش دل پر بیٹھ جاتا ہے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر ۴۵ سال تھی۔ انھوں نے فصیل کو عبور کرنے اور قلعے کا دروازہ کھولنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
اس جنگ میں ایک عظیم معجزہ رونما ہوا جس کا تذکرہ محدثین نے غزوہ ذات الرقاع کے واقعات میں کیا ہے۔ آنحضور ایک روز قضائے حاجت کے لیے اپنے ساتھیوں سے دور ایک وادی میں تشریف لے گئے۔ اسی دوران بارش ہونے لگی، حضورؐ کے کپڑے بھیگ گئے۔ بارش برس جانے کے بعد مطلع صاف ہو گیا اور سورج نکل آیا۔ آنحضورؐ نے اپنے کپڑے نچوڑ کر ایک جھاڑی پر ڈال دیے اور خود تہہ بند زیب تن کیے، ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ آپ نے اپنی تلوار درخت کے ساتھ لٹکا دی۔ تھوڑی دیر بعد آپ کی آنکھ لگ گئی۔
اس دوران میں دشمن کا ایک بہادر مہم جو سردار دُعثور پہاڑی کی چوٹی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ سنہری موقع ہے۔ وہ پہاڑی سے اترا اور دبے پاؤں عین درخت کے نیچے آ پہنچا۔ اس نے آنحضور کی تلوار ہاتھ میں لی اور کہا ''اے محمد بتاؤ تمہیں اب کون بچا سکتا ہے؟‘‘ آنحضور نے اس کی آواز سن کر آنکھ کھولی اور نہایت اطمینان سے جواب دیا ''اﷲ!‘‘
اسی لمحے دعثور پر عجیب ہیبت طاری ہو گئی، تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور وہ خود بھی دھڑام سے زمین پر گر گیا۔ آنحضور نے تلوار ہاتھ میں لے کر پوچھا: ''اب تم بتاؤ تمہیں کون بچا سکتا ہے؟‘‘ اس نے کانپتے ہوئے کہا ''اے محمد میرے ساتھ نیکی کرو!‘‘ آپ نے فرمایا: ''تمہیں بھی اﷲ ہی بچا سکتا ہے۔‘‘ آپ نے اسے معاف فرما دیا۔ وہ کلمہ پڑھ کر داخل اسلام ہوا اور اپنے قبیلے کے لوگوں کے پاس جا کر کہا: ''میں سب سے اچھے انسان کے پاس سے آیا ہوں۔‘‘ پھر پورا واقعہ بیان کیا۔
دعثور کا نام غورث بھی بیان ہوا ہے۔ یہ واقعہ حدیث اور تاریخ کی جملہ کتب میں منقول ہے اور اسے آنحضور کے معجزات میں شمار کیا گیا ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے: معجزات سرور عالم ص 226 تا 229)
اسی جنگ کے دوران میں وہ مشہور واقعہ پیش آیا جو آنحضورؐ کی سیرت طیبہ اور اخلاق عالیہ کے احوال میں اکثر مراجع میں بیان ہوا ہے۔ ایک صحابی جھاڑیوں کے درمیان گئے تو وہاں ایک چڑیا کا گھونسلا دیکھا۔ گھونسلے میں چڑیا کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ انہوں نے وہ بچے اٹھا لیے اور انہیں اپنی چادر کے نیچے چھپا لیا۔ چڑیا بے قرار ہو گئی اور اڑتی ہوئی آ کر اس صحابی کے سر پر منڈلانے لگی۔ پھر اس نے اپنے آپ کو اس کے قدموں پر گرا دیا۔ آنحضورؐ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کا دل بھر آیا۔ اس صحابی سے کہا کہ جائیں اور چڑیا کے بچوں کو ان کے گھونسلے میں چھوڑ آئیں۔
آنحضورؐ نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا :''کیا تمہیں اس چڑیا کے اپنے بچوں سے تعلق اور محبت پر تعجب ہوا ہے؟ خدا کی قسم اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں سے جو محبت کرتا ہے وہ اس چڑیا کی اپنے بچوں کے ساتھ محبت سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ 
یہ جنگ بنوغطفان کی دو شاخوں بنومحارب اور بنوثعلبہ کے خلاف ہوئی تھی۔ احد کے بعد ان قبائل نے مدینہ پر چڑھائی کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ خبر ملتے ہی آنحضورؐ نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو مدینہ میں قائم مقام امیر مقرر کرکے نہایت جرأت مندی کے ساتھ نجد کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ بنوغطفان کی تعداد بہت زیادہ تھی، مگر اس جرأت مندانہ اقدام کے نتیجے میں وہ حیران رہ گئے۔ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے خیمہ زن ہوگئیں، مگر جنگ میں پہل کوئی بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آخر سردارانِ غطفان کے درمیان اختلافِ رائے پیدا ہوا{ اور وہ حوصلے ہار کر پہاڑوں کی وادیوں اور گھاٹیوں میں منتشر ہوگئے۔ مسلمانوں کے ہاتھ معمولی مالِ غنیمت آیا، مگر یہ بات پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گئی کہ احد کے بعد اتنی جرأت مندی کے ساتھ مسلمانوں نے عرب کے ایک بہت بڑے قبیلے کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔ آنحضورؐ پندرہ دن قیام کے بعد واپس مدینہ تشریف لے گئے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے: البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص717-716، سیرت الحلبیہ، دوم ،ص 370-366 )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved