تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     26-04-2017

مریم کے ابو اور بلاول کے ابو

وزیر اعظم نواز شریف نے نپے تلے انداز میں اپنی بیٹی کو پہلے اپنے خاندان کی فلاحی سرگرمیوں میں آگے بڑھایا اور پھر خاموشی سے ان کی انگلی پکڑ کر سیاست میں لے آئے۔ پتے سینے کے ساتھ لگا کر کھیلنے والے کھلاڑی کی طرح انہوں نے کبھی اپنی زبان سے اپنے جانشین کے طور پر کوئی نام نہیں لیا مگر گزشتہ پانچ سال سے ان کی بیٹی کا نام ان کی جانشین کے طور پر اتنی بار لیا گیا ہے کہ اب پاکستان میں کان اور آنکھیں رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ملے گا جسے اس معاملے میں کوئی شک و شبہ ہو۔ یہ بات اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ لاہور کے ایک حلقے کے علاوہ سرگودھا شہر سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے کو بھی آئندہ الیکشن میں ان کا حلقہء انتخاب قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے مخالفین نے ان کی سکیم کو سمجھ کر اس کا پورا فائدہ اٹھایا اور ان کے ذات کے علاوہ ان کی بیٹی کی صورت میں انہیں ایسا ہدف مل گیا جس پر کی جانے والی چاند ماری وزیر اعظم کو بھی زخمی کرتی ہے۔ دو ہزار تیرہ میں وزیر اعظم بننے کے بعد جیسے ہی انہوں نے مریم نواز کو وزیر اعظم یوتھ پروگرام کی سربراہی سونپی، ان کے خلاف سازشوں کا باقاعدہ آغاز بھی ہو گیا۔ تحریک انصاف نے تو بطور حزبِ مخالف نواز شریف کی ہر کمزوری کا فائدہ اٹھانا تھا لیکن مریم نواز کے معاملے میں خود پاکستان مسلم لیگ (ن) میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جنہیں وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔ اس لیے دو ہزار چودہ میں جب لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق انہیں یوتھ پروگرام کی سربراہی سے ہٹایا گیا تو ن لیگ کے بعض نمایاں قائدین اس پر اتنے ہی خو ش تھے جتنے تحریک انصاف کے راہنما۔ اس پہلے حملے کی کامیابی کے بعد ن لیگ کے اندر نئی قیادت پر تحفظات رکھنے والوں کو کچھ کہنے کی بجائے عمل سے سمجھا دیا گیا کہ وہ اپنے رویے پر نظرثانی کر لیں تو یہ قابلِ تعریف سمجھا جائے گا۔ عقلمندوں کے لیے یہ اشارے کافی تھے، وہ سمجھ گئے اور یوں محلاتی سازشیں وقتی طور پر ختم ہو گئیں۔ تدبیر کے زور پر جو راستہ ہموار ہوا تھا اس پر چند قدم کا سفر ہی ہوا تھا کہ لینڈ سلائیڈنگ کی طرح پاناما اور ڈان لیکس کے پہاڑ اس پر آ گرے۔ ایک بار پھر اپنے والد کے ساتھ بیٹی بھی مخالفین کے نشانے پر آ گئیں۔ 
''بیٹی اپنے باپ کے زیرکفالت ہے یا نہیں‘‘ جیسے سوال کا پاناما سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر اس سوال کے غبارے میں منصوبہ بندی سے اتنی ہوا بھری گئی کہ ایک موقعے پر پاناما کا معاملہ بھی اس کے مقابلے میں ناقابلِ ذکر لگنے لگا۔ وہ ٹی وی اینکر‘ جنہیں دستور کی الف بے معلوم نہیں، الیکشن قوانین سے وہ نابلد ہیں، ٹیکس قوانین کا انہیں اس لیے علم نہیں کہ وہ اپنی ٹیکس ریٹرن امریکہ یا برطانیہ میں جمع کراتے ہیں ، ایسے ایسے نادر قانونی نکتے پیش کرنے لگے جن کی روشنی میں کسی ایسے شخص کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انتخابی سیاست سے نااہل کیا جا سکتا ہے جو اب تک الیکشن لڑا ہی نہیں۔ یہ سب کچھ یونہی نہیں تھا بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا تھا۔ منصوبہ سازوں کی خواہش تھی کہ عمران خان کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری بھی اس موضوع پر گل افشانی کریں لیکن بلاول کے مشیروں نے انہیں اس پھندے میں پاؤں نہیں رکھنے دیا۔ پاناما کیس کے ایک جزو کے طور پر یہ معاملہ جب عدالت پہنچا تو شریف خاندان کے وکلا کو یہ واضح ہدایات تھیں کہ وہ سپریم کورٹ میں مریم نواز پر کوئی آنچ نہ آنے دیں چاہے اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ اب اسے وکیلوں کی چابکدستی کہیے یا کچھ اور کہ جب پاناما کیس کا فیصلہ آیا تو مریم نواز شریف کی کفالت کا مسئلہ بھی حل ہو گیا اور انہیں مزید سوالوں کے جواب کا مکلف بھی نہیں ٹھہرایا گیا‘ جبکہ نواز شریف کو اپنے والد اور بیٹوں کے کاروباری معاملات کے بارے میں کئی سوالوں کے جواب ابھی عدالت کی بنائی ہوئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو دینا ہیں۔ یہ تقدیر کا کھیل یا تاریخ کی کوئی کروٹ کہ پاناما کیس سے نکلنے کے باوجود مریم نواز کا مستقبل قریب نواز شریف کے ماضی بعید سے جڑ گیا ہے۔ اگر وہ سپریم کورٹ کے اٹھائے گئے سوالات کا پل صراط عبور کر لیتے ہیں تو مریم ان کی سیاسی وراثت سنبھال سکیں گی ورنہ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ 
ڈان لیکس کا معاملہ براہِ راست پاکستان کی قومی سلامتی سے منسلک تھا یا نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف اس لیے اہم قرار پایا کہ کھینچ تان کر مریم نواز کا نام اس کے ساتھ جوڑا جا سکتا تھا۔ حیرت انگیز طور پر ایک قابل تردید خبر‘ جس کی پوری ذمہ داری متعلقہ اخبار قبول کر رہا ہے، کا معاملہ اتنا بڑھا کہ سول فوجی تعلقات میں دراڑ کا سبب بن گیا۔ اگر وزیراعظم کی بیٹی کا نام اس معاملے میں نہ ہوتا تو شاید خبر کی تردید کے بعد اب تک بھلایا جا چکا ہوتا، مگر اس پر کمیشن اور مروّجہ اصطلاح میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی بنی، ایک وزیر بھی رخصت ہوا، ایک اور کے جانے کی خبر بھی ہے مگر جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ڈان لیکس کا بھوت لمبے عرصے تک اقتدار کی غلام گردشوں میں منڈلاتا نواز شریف کے منصوبوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا رہے گا۔ عین ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ بھوت کوئی نیا روپ دھار کر کسی نئی خبر کے ساتھ میڈیا پر ناچ رہا ہو اور پاکستان میں باپ سے بیٹی کو سیاسی وراثت کی منتقلی کا دوسرا منصوبہ چوپٹ ہوجائے۔ 
پاکستان میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو نے باقاعدہ سوچ سمجھ کر اپنی سیاسی کامیابیوں کی رکھوالی کے لیے اپنی سب سے بڑی بیٹی بے نظیر کومنتخب کیا۔ انہوں نے نوجوان بے نظیر بھٹو کو اپنے ساتھ غیر ملکی دوروں میں لے جانا شروع کیا، انہیں سیاست کی اونچ نیچ سمجھانے کے لیے تاریخی قسم کے خطوط لکھے ، اپنی پارٹی میں انہیں قابل قبول بنانے کے لیے خصوصی توجہ دی مگر ان کی موت نے اتنی مہلت نہ دی کہ وہ اپنی آنکھوں سے بے نظیر بھٹو کی سیاسی ترقی دیکھ سکتے۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ عالمی سیاست میں بھٹو کو اندراگاندھی کا سامنا تھا اور اندراگاندھی کی تربیت ان کے والد نے بالکل اسی طرز پر کی تھی جس پر بھٹو اپنی بیٹی کی کررہے تھے۔ جیسے پنڈت جواہرلال نہرو نے اندراگاندھی کو سیاست کے ساتھ ساتھ تاریخ کا گہرا شعور دیا تھا بالکل اسی طرح بھٹو بھی بے نظیر کو اپنا تاریخی شعور منتقل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو نے اپنی جدوجہد سے ثابت کردیا کہ ان کے والد نے انہیں اپنی وراثت آگے بڑھانے کے لیے چن کر کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ بے نظیر بھٹو کوحالات اور قدرت نے یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ اپنے بچوں میں سے کسی کو مستقبل کی سیاست کے لیے تیار کرتیں اس لیے بھٹو کی جلائی ہوئی مشعل آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں آگئی اور اب چراغِ آخرِ شب بن کر رہ گئی ہے۔زرداری نے اپنی افتاد طبع کے مطابق پہلے اپنے بیٹے کے صاف ستھرے امیج کے ذریعے اپنی پارٹی کا تاثر ٹھیک کرنے کی کوشش کی اور پھر بلاول کو ڈھال بنا کر اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے پیش قدمی شروع کردی۔ ہوسکتا ہے ان کا اندازِ سیاست پیپلزپارٹی کے لیے کچھ مثبت نتائج پیدا کرسکے مگر فی الحال تو اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ان کے برعکس نواز شریف خود ڈھال بن کر اپنی بیٹی کے سامنے کھڑے ہیں اور ان پر ہونے والے ہر قسم کے حملے روکنے کی کوشش کررہے ہیں، پوری کوشش کے باوجود یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اپنی بیٹی کے سیاسی مستقبل پر اندر سے ہونے والے حملوں کا انہوں نے کیا توڑ کیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved