تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     26-04-2017

بھیانک سیکولرازم

ایک تصویر میں دو عیسائی لڑکیاںجو Borivli میں کرونا ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دیتی ہیں۔ انہیں اپریل کی اس گرمی میں سخت پیاس لگی تو سڑک پر لگے ہوئے پانی کے نلکے کے پاس پہنچتی ہیں۔ انہیں وہاں کھڑے دیکھتے ہی ان پر بہت سی عورتیں اور مر دجھپٹ پڑے اور پھر ان کے لباس اتار کر انہیں کو مکمل برہنہ کرنے کے بعد گائوں کی اونچی ذات کی عورتیں انہیں مارتی پیٹتی ہوئی ایک گندے جوہڑ میں پھینک کر ان چیختی چلاتی عورتوں پر اینٹیں برسا رہی ہیں اور اپنی برہنگی چھپانے کی ناکام کوششیں کرتی ہوئی یہ وونوں لڑکیاں جو آپس میں بہنیں ہیں اور جن کا تعلق مشن سکول آف اجمیر سے ہے رو رو کر ان سے معافیاں مانگ رہی ہیں ۔۔۔یہ تصویر اپنے اس مضمون کے ساتھ دکھائی بھی جا سکتی ہے لیکن میڈیا کے ضابطہ اخلاق اور شرم وحیا آڑے آ رہی ہے لیکن اس تصویر نے بھارت کا سب سے بڑی جمہوریت کا وہ شائننگ چہرہ ننگا کر کے رکھ دیا جسے بھارت کے دانشور اور ان کے سفارت کار دنیا بھر کو سیکولر کے نام پر بیوقوف بنانے کیلئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ان دو نوں بہنوں کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے اس ہینڈ پمپ سے پانی پینے کی کوشش کی تھی جس پر ہند و صرف اپنا حق سمجھتے ہیں۔دوسری تصویر ایک عیسائی پادری کی ہے یہ تصویر کیا ہے ،ایک انسان اور ا نسانیت کے سینے میں اترا ہوا ایک ایسا خنجر ہے جس کے زخم نہ تو بھرے جا سکیں گے اور نہ ہی جسم کے اندر تک گھسنے والے اس خنجر سے چہرے پر شدت سے پھیلی ہوئی سیاہی دور ہو سکے گی یہ تصویر اس جلوس کی ہے جس میں ایک عیسائی پادری کے سر کے آدھے بالوں کو استرے سے بری طرح صاف کرنے اورچہرے پر کالک کالیپ کرتے ہوئے اسے ایک گدھے پر بٹھا کر گائوں کی گلیوں اور بازاروں کے چکر لگوائے جا رہے ہیں اور اس کے ہمراہ انتہا پسند ہندو لفنگوں کا ایک ہجوم ہے جو اسے ننگی گالیاں اور جوتے مارتا ہوا ساتھ ساتھ اچھل کود کئے جا رہا ہے اور جس گلی بازار سے بھی گدھے پر سوار آدھے منڈھے ہوئے سر منہ پر کالک ملے ہوئے تماشہ بنا ہوا یہ بے چارہ عیسائی پادری گزرتا رہا ۔لوگ جے ہند جے مودی اور یو پی کے نئے وزیر اعلیٰ جے آدیتانند کے نعرے بلند کرتے اور دکانوں کے اندر باہر کھڑے ہوئے سبھی لوگ اپنے اپنے حصے کے جوتے مارنے سے نہ چونکے۔قصور اس کا صرف یہ تھا کہ دلت لڑکوں کو تعلیم کیوں دیتا ہے۔
تیسری تصویر بھارت کے سب سے بڑے سیا حتی مقام گوا کے ساحل کی ہے جہاں ایک غیر ملکی لڑکی اور اس کے ساتھی کو اس جرم میں بری طرح مارا پیٹا جا رہا ہے کہ اس نے ساحل پر گھومنے والی ایک گائے کو ہاتھ سے پرے کیوں کیا تھا یہ تینوں تصویریں اس وقت دنیا بھر میں وائرل ہو کر بھارت کی جمہوریت اور مذہبی انتہا پسندی کے ڈھول کا پول کھول رہی ہیں۔۔۔۔ بھارت کی ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی میں اس وقت دلیت کی تعداد کل آبادی کا17 فیصد ہے یعنی کوئی200 ملین کے وریب ہیں جبکہ مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا چودہ فیصد یعنی170 ملین ہے اس کے علا وہ سکھوں اور عیسائیوں کی تعداد بالترتیب2.35 اور1.7 فیصد ہیں بھارت کی کل آبادی کا80 فیصد ہندومہا سبھائی جن میں راشٹریہ سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد،شیو سینا، درگا باہنی، گائو رکھشا، دل ہندو جاناجگرتی سمیتی اور سری رام سینا سمیت30 کے قریب انتہاپسند عسکری تنظیمیں اس قدر طاقتور ہو چکی ہیں کہ
پولیس اور سول انتظامیہ ان کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئی ہے بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ انتظامیہ بھی ان کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔۔۔مشہور ہیومن رائٹس دانشور اوتم نرولا نے '' India turning into nightmare for Miniorities'' کے عنوان سے لکھے اپنے مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ ان انتہا پسندوں کی تعلیمات اور دہشت گردی کی وجہ سے اب تک بھارت میں ہزاروں کی تعداد میں مسلم ، دلیت، سکھوں اور عیسائیوں کو قتل کیا جا چکا ہے اور اس میں براہ راست ملوث لوگوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں شناخت بھی ہو چکی ہے لیکن کسی ایک کو بھی قرار واقعی سزا نہیں دی جا سکی۔
انٹر نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطا بق2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد سے اب تک بھارت بھر میں صرف عیسائیوں پر500 سے زائد حملے ہو چکے ہیں۔مسلمان اور دلت انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں آئے روز صرف اس شبے میں مارے جا رہے ہیں کہ وہ چوری چھپے گائے کا گوشت کھانے لگے تھے، اس ناکردہ جرم پر انہیں گلیوں اور سڑکوں پر بدترین تشدد کرتے ہوئے گائے کا گوبر اور اس کا پیشاب پینے پر مجبور کیا جا تا ہے، جھاڑ کھنڈ میں مویشیوں کا کاروبار کرنے والے محمد مظلوم انصاری اور اس کے بارہ سالہ معصوم بیٹے کو گائوں کے باہر ایک درخت سے اس لئے لٹکا کر پھانسی دی گئی کہ وہ ٹرک میں گائیں لے کر کیوں جا رہا تھا ۔
امریکہ کی کانگریشنل کمیٹی نے جولائی2016 میں مودی حکومت کو انسانی حقوق اور اقلیتوں پر مظالم اور ناروا سلوک پر چارج شیٹ کرتے ہوئے اس کی ایسے وقت میں جواب طلبی کی جب وہ امریکہ کا سرکاری دورہ کر رہا تھا اور مودی کے اقتدار سنبھالنے کے دس ماہ بعد ہی ہیومن رائٹس کی سنگین خلاف ورزیوں پر2015 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھارت کو عیسائی، دلت اور مسلم اقلیتوں پر ظلم کرنے والا سب سے بڑا مجرم قرار دے دیا گیا۔
نیو یارک ٹائمز کی جاری کردہ رپورٹ نے بھارت کے تمام دعووں کو بری طرح جھٹلا کر رکھ دیا ہےIndia Goes Backwards on Human Rights کے نام سے لکھی جانے والی اس رپورٹ نے بھارت کو اس بری طرح ننگا کیا ہے کہ غیر جانبدار لوگوں کو جو بھارت کو سب سے بڑی جمہوریت کے نقاب میں ہی دیکھتے رہے تھے چونکا کر رکھ دیا90 ممالک کے بارے میں655 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بھارت کی جمہوریت منہ چھپائے اوندھی پڑی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔۔۔جب وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ سمیت حکمران پارٹی کے سربراہ اقلیتوں کی انتقال کرجانے والی مسلمان عورتوں سے اجتماعی زیا دتی کوہندو دھرم کا حصہ قرار دے دیں وہاں نہ تو انسانیت رہ جاتی ہے اور نہ ہی جمہوریت اور شرم و حیا کا کوئی درس۔اس سے زیادہ باعث شرم وہ لوگ ، ممالک اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں جو ایسے لوگوں کو اپنے ہاںمدعو کرتی ہیں۔۔۔۔آپ کو جنگلی حیات کا اس قدر خیال ہے کہ کالے ہرن کے شکار پر ایک مسلمان اداکار کو دس سال سے گھسیٹ رہے ہیں لیکن دنیا کا وہ کونسا اخلاق ہے کون سا آئین ہے کون سی جمہوریت ہے جو اتر پردیش کے نئے وزیر اعلیٰ آدیتا نند کو یہ اختیار دے دے کہ وہ ہندوئوںکو درس دینا شروع کر دے کہ مسلمان خواتین سے ہندوئوں کی زیادتیاں جائز ہیں۔کیا فرانس ، جرمنی، امریکہ، برطانیہ، جاپان اور کینیڈا اپنے اپنے ممالک میں اس قبیح حرکت کی سرکاری طور پر اجا زت دیں گے؟۔!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved