تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     27-04-2017

کشمیر: بات چیت واحد راستہ

مقبوضہ کشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھارت کی مرکزی سرکار پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیر میں موجودہ بحران سے نجات حاصل کرنے کے لیے پاکستان سمیت مسئلے کے تمام فریقین سے فوری طور پر بات چیت کرے۔ سری نگر میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کو پاکستان سے بات چیت کرنا پڑے گی کیونکہ پاکستان اس مسئلے کا ایک اہم فریق ہے‘ اور بھارت اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ فاروق عبداللہ‘ جنہوں نے حال ہی میں سری نگر کے ایک ضمنی انتخاب میں لوک سبھا کی ایک سیٹ جیتی ہے‘ نے بھارتی حکومت کو یاد دلایا ہے کہ وہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر چکی ہے۔ چھرے دار گولیاں برسانے سے براہ راست فائرنگ تک‘ اور سینکڑوں کشمیریوں کو جیل میں ڈالنے کے باوجود کشمیری عوام کی جدوجہد برابر جاری ہے‘ حتیٰ کہ سرکار نے انٹرنیٹ پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے، لیکن ان اقدامات سے کشمیری نوجوانوں کی جائز جدوجہد کو دبایا نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ وہ کسی عہدے یا لالچ کے لیے جدوجہد نہیں کر رہے بلکہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ایک حالیہ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ یہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس ملاقات میں دونوں رہنمائوں کو کشمیر پر تمام فریقین کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے مذاکرات کو واحد حل قرار دیتے ہوئے‘ فاروق عبداللہ نے کہا کہ مذاکرات کا مطالبہ کوئی نیا نہیں‘ خود بھارتی سرکار بھی اس کی حمایت کر چکی ہے‘ لیکن ان کے لیے سازگار ماحول کی شرط عائد کی جا رہی ہے۔ فاروق عبداللہ نے وزیر اعظم نریندر مودی پر زور دیا کہ وہ ''ایک سازگار ماحول‘‘ کا انتظار چھوڑیں اور فوری طور پر مذاکرات کا آغازکریں‘ اگر اس سے قبل نہ صرف پاک بھارت بلکہ کشمیری رہنمائوں کے ساتھ بھی بھارت کی مرکزی سرکار کے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو اب ان کے انعقاد میں کون سی رکاوٹ ہے؟ بلکہ ان مذاکرات میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے‘ ورنہ حالات اور بھی خراب ہو جائیں گے۔ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیشِ نظر شیخ فاروق عبداللہ کی طرف سے مذاکرات کے فوری انعقاد کا مطالبہ پہلی دفعہ نہیں کیا گیا‘ اس سے قبل بھی وہ اپنی اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔ نہ ہی مذاکرات کے حق میں فاروق عبداللہ کی اکیلی آواز ہے۔ بھارت میں صحافتی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے بھی کشمیر پر بھارت کی موجودہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ اور مذاکرات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ خود ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی بھارتی حکومت پر زور دے چکی ہیں کہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کو کنٹرول میں لانے کے لیے طاقت کے استعمال کی جگہ مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے‘ اور اس سلسلے میں انہوں نے سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور کے پاک بھارت مذاکرات کا حوالہ دیا۔ یہ مذاکرات 2004ء میں شروع ہوئے تھے اور 2008ء تک بلا تعطل جاری رہے۔ ان مذاکرات کے چار رائونڈز میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر مسائل کے علاوہ کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے بھی مختلف تجاویز کا تبادلہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ نومبر 2008 میں ممبئی حملوں کی وجہ سے یہ مذاکرات تین برس تک معطل رہے لیکن پاکستان‘ بھارت اور کشمیر میں بھی ان مذاکرات کو کشمیر سمیت پاکستان اور بھارت کے مابین دیگر تنازعات و مسائل کے حل کے لیے واحد راستہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ان مذاکرات کو پذیرائی حاصل ہے اور اس وقت جبکہ کشمیر کی صورت حال تشویشناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے‘ ان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت پر ہر طرف سے دائو ڈالا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ مذاکرات کے اس عمل‘ جسے کمپوزٹ ڈائیلاگ بھی کہتے ہیں‘ سے پاکستان اور کشمیری عوام کو کچھ شکایتیں بھی ہیں کیونکہ مذاکرات کے پانچ رائونڈز کے باوجود مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف کوئی ٹھوس اور نمیاں پیش قدمی نہیں ہو سکی‘ اس کے باوجود ان مذاکرات سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی آئی‘ کشمیری لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے معاہدے (2003ء) پر عمل درآمد کا آغاز ہوا‘ جس سے سرحد کے دونوں طرف شہری آبادی نے سکھ کا سانس لیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت میں کئی گناہ اضافہ ہوا۔ لاہور امرتسر کے درمیان دو نئے زمینی راستوں کے علاوہ منابائو تھرپارکر کے پرانے ریل کے راستے کو بحال کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مظفر آباد سری نگر کے درمیان بس سروس شروع کی گئی‘ جس کی وجہ سے منقسم کشمیری خاندانوں کے افراد کو ملنے جلنے میں آسانی پیدا ہوئی۔ اس کے علاوہ 2008ء میں لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کا آغاز ہوا۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورت حال اور پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت کشیدگی اور لائن آف کنٹرول پر آئے دن جھڑپوں کے باوجود نہ صرف مظفر آباد سری نگر بس سروس بلکہ لائن آف کنٹرول کے آر پار ریاست کے دونوں حصوں کے درمیان بارٹر ٹریڈ بھی جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اقدامات سے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہتے ہوئے کشمیریوں کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ پاک بھارت مذاکرات کے تعطل اور سرحد پر کشیدہ صورت حال سے یہ دونوں اہم اقدامات متاثر نہیں ہوئے بلکہ ان کے جاری رہنے سے اس دلیل کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ 2004ء میں شروع کئے گئے امن مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی ہو گی‘ بلکہ مختلف شعبوں مثلاً تجارت‘ سپورٹس‘ ثقافت‘ سیاحت اور قومی سطح پر رابطوں میں اضافہ ہو گا۔ اور اگر یہ عمل بغیر کسی تعطل کے جاری رہا تو اس کے نتیجے میں ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر پیچیدہ مسائل‘ جن میں کشمیر سرفہرست ہے‘ کے حتمی حل کی راہ ہموار ہو گی۔ کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام مسائل کے حل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اعتماد کا فقدان ہے۔ مذاکرات کی بحالی اور اعتماد سازی کے اقدامات سے ہی یہ اعتماد پیدا کیا جا سکتا ہے۔ انہی کے نتیجے میں کشمیر جیسے مشکل اور پیچیدہ مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اگر کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات‘ جن میں کشمیری عوام کے بھی نمائندے شامل ہوں‘ پر علاقائی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور انہیں بلا تاخیر شروع کرنے پر زور دیا جا رہا ہے‘ تو آخر اس کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے؟ پاکستان‘ بھارت اور کشمیر کے عوام کی خواہش کے برعکس یہ مذاکرات کیوں نہیں ہو رہے؟ اس سلسلے میں پاکستان کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک سے زائد دفعہ ان مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بھارت پر اس سلسلے کو دوبارہ وہیں سے شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے‘ جہاں جولائی 2014ء میں بھارت کی طرف سے انہیں منسوخ کیا گیا تھا۔ اس طرح اصولی طور پر بھی بھارت کو ان مذاکرات کے احیا پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وزیر خارجہ سشما سوراج نے متعدد بیانات میں دونوں ملکوں کے درمیان امن مذاکرات شروع کرنے میں بھارت کی دلچسپی کا اظہار کیا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ بات خواہش اور ارادے کے اظہار سے آگے کیوں نہیں بڑھی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے ان مذاکرات کے انعقاد کو چند مطالبات کی منظوری سے مشروط کیا جا رہا ہے۔ بھارت کا مطالبہ ہے کہ مذاکرات سے قبل پاکستان ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ فوجی اڈے پر حملہ کرنے والوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس کے علاوہ بھارت کی طرف سے پاکستان پر کشمیر میں جہادی بھیجنے کا بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے نہ صرف ان الزامات کی تردید کی جا رہی ہے بلکہ مذاکرات کے انعقاد پر بھی پاکستان کا اب یہ موقف ہے کہ بھارت سے مذاکرات صرف اسی صورت ہو سکتے ہیں جب ان مذاکرات میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کی تلاش کو بھی شامل کیا جائے گا‘ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا سابق ریکارڈ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دونوں طرف سے پیشگی شرائط عائد کرنے کی ڈپلومیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات جب بھی ہوں گے غیر مشروط ہوں گے۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے کمپوزٹ ڈائیلاگ میں یہ مسئلہ شامل ہے‘ اس لیے اگر پاکستان کا یہ مطالبہ ہے کہ دیگر مسائل کے علاوہ کشمیر پر بات چیت بھی مذاکرات کے عمل کا حصہ ہو تو کمپوزٹ ڈائیلاگ‘ جسے اب کمپری ہینسو ڈائیلاگ کیا جاتا ہے‘ میں کشمیر بھی شامل ہے۔ جہاں تک بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا سوال ہے تو اس سلسلے میں بھارت پر واضح ہونا چاہیے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ اس لیے دونوں طرف سے ان شرائط سے ہٹ کر فوری طور پر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ کشمیر کے حل اور جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کا یہ واحد راستہ ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved