تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     28-04-2017

راحیل اور مسلم اتحاد کا ریاض

جنرل (ر) راحیل شریف پاک فوج کی تین سالہ کمان سے ریٹائر ہوئے تو 41مسلم ملکوں کی مشترکہ افواج کے سالار بن گئے یعنی ایک جانب سے ریٹائر ہوئے تو دوسری جانب سالار بن گئے۔ جی ہاں! میں کہوں گا امت کے سالار بن گئے۔ ان کا لقب کچھ یوں بھی ہو سکتا ہے ''امتِ مسلمہ کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف‘‘۔ سوچتا ہوں پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر عزت و رفعت سے ہمکنار فرمایا کہ امت مسلمہ کے آرمی چیف کا ''این او سی‘‘ راولپنڈی کے جی ایچ کیو سے جاری ہوا۔ پاک فوج کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دستخط ہوئے۔ وزیراعظم ہائوس سے میاں محمد نوازشریف کے ہاتھوں سے پروانۂ اجازت جاری ہوا اور جناب راحیل شریف لاہور کے ایئرپورٹ پر اس طیارے میں تشریف فرما ہوئے جو ان کو لینے کے لئے حضرت محمد کریمﷺ کے دیس سے آیا۔ ملت اسلامیہ کے مرکز سے آیا۔ راحیل شریف پرواز کر گئے اور سیدھے مدینہ منورہ پہنچے۔ منزل ان کی ریاض تھی۔ ریاض کا معنی باغ ہے۔ یہ مملکت سعودیہ کا دارالحکومت ہے مگر اب امت مسلمہ کی مشترکہ کمان کا بھی مرکز بن چکا ہے۔ راحیل شریف جب پاک آرمی کے چیف تھے تو وہ سعودیہ کے دورے پر تشریف لے گئے۔ سعودی پرچم لہرایا گیا کہ جس پر دو تلواروں کے اوپر ''لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا ہے۔ راحیل شریف اس پرچم کو بار بار محبت و عقیدت سے دیکھ رہے تھے، ان کا دیکھنا بھی دنیا والوں کے لئے اک خبر بن گیا۔ آج وہ اس دیس پاکستان سے گئے جس کی بنیاد ''لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے۔یعنی وہ کلمے والے دیس سے گئے اور کلمے والے دیس میں پہنچ گئے۔ یہاں بھی آرمی چیف تھے وہاں بھی آرمی چیف بن کر گئے۔ 
ریاض سے پہلے ''ریاض الجنۃ‘‘ میں گئے وہاں انہوں نے اپنے اللہ سے کیا مانگا؟ ظاہر ہے جو مانگا ہو گا امت کے لئے مانگا ہو گا، میرے خیال میں کچھ یوں کہا ہو گا ''اے میرے پالنہار مولا کریم! میں ریاض جانے سے پہلے ''ریاض الجنۃ‘‘ میں اس لئے آیا کہ امت کے اتحاد کا کام میرے لئے آسان فرما دے۔ پوری امت کو ریاض سے ایسا جوڑ دے کہ سارا عالم اسلام امن کا ریاض بن جائے۔‘‘ ایسی دعا کے بعد راحیل شریف اب ریاض میں ہیں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ مدینہ منورہ میں دوبارہ آئیں تو حضور عالیشانﷺ کے مبارک قدموں کے نشانات پر آئیں۔ مدینہ منورہ میں واقع ''مسجد اجابہ‘‘ میں دو رکعتیں پڑھ کر ''ریاض الجنۃ‘‘ میں آئیں اور اتحاد امت کے نبوی سبق پر غور فرمائیں۔ قارئین کرام! اب میں راحیل شریف صاحب اور پوری امت کو چودہ سو سال قبل مسجد اجابہ میں لے چلتا ہوں جب وہاں حضرت محمد کریمﷺ اپنے رب کے حضور سجدے میں پڑے تھے اور اللہ کے حضور امت کے تحفظ اور اتحاد کی درخواستیں کر رہے تھے۔ 
مدینہ منورہ میں تین ''رنگ روڈز‘‘ ہیں۔ ایک روڈ مسجد نبوی سے ذرا ہٹ کر ہے۔ دوسرا رنگ روڈ مدینہ شہر کے درمیان میں ہے، تیسرا رنگ روڈ پھیلتے مدینہ منورہ کے گرد ہے اور یہ آخری رنگ روڈ ہے۔ ہم آپ کو مدینہ منورہ کے پہلے رنگ روڈ پر لے چلتے ہیں، اسے عربی میں ''الطریق الدائری الاول‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس روڈ پر ایک مقام ہے ... حضورﷺ کے زمانے میں ہی یہاں ایک مسجد تھی۔ چونکہ یہاں بنو معاویہ کا قبیلہ آباد تھا جو ''اوس‘‘ قبیلے کی شاخ ہے۔ اس ''بنو معاویہ‘‘ قبیلے ہی کے لوگوں نے یہاں اپنے محلے کی مسجد بنا رکھی تھی... پھر کیا ہوا؟ ملاحظہ ہو!
حضرت عامر بن سعید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز اللہ کے رسولﷺ عالیہ (مدینہ منورہ کے بلند علاقے قباء) کی طرف سے تشریف لائے۔ آپ کا گزر بنو معاویہ قبیلے کی مسجد کے پاس سے ہوا تو آپؐ مسجد میں تشریف لے گئے۔ وہاں دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ صحابہؓ نے بھی آپؐ کے ساتھ نماز ادا فرمائی، صحابہؓ کہتے ہیں جب آپﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد اپنا چہرئہ مبارک ہماری طرف کیا تو فرمایا! ''میں نے اپنے اللہ کے دربار میں تین درخواستیں پیش کیں، دو تو اللہ نے مان لیں جب کہ ایک بات نہیں مانی۔ پہلی گزارش تو میں نے اپنے رب کریم سے یہ کی کہ میری امت کو قحط سالی سے ہلاک نہ کیا جائے۔ اللہ نے یہ درخواست قبول فرما لی۔ دوسری درخواست میں نے یہ کی کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے۔ اللہ نے یہ بات بھی مان لی، تیسری درخواست یہ کی کہ ! 
ان لا یجعل بأسھم بینھم
''ان کے درمیان آپس میں لڑائی نہ ہو۔‘‘ (مسلم 289)۔ تو یہ بات اللہ نے نہیں مانی۔ قارئین کرام! امام مسلم اس حدیث کو ''کتاب الفتن‘‘ میں لائے ہیں اور جس باب میں لائے ہیں اس کا نام ہے 
''ہلک ھذہ الامۃ بعضھم ببعض‘‘ 
یعنی اس امت کے ایک حصے کی بربادی ایک حصے کے ہاتھوں سے ہو گی۔
فتنوں سے متعلق دیگر احادیث کو بھی سامنے رکھیں تو بات کچھ یوں واضح ہوتی ہے کہ ایسی قدرتی آفت جس سے پوری یا بیشتر امت ہلاک و برباد ہو جائے ایسا نہ ہو گا۔ اسی طرح طبرانی وغیرہ کے مطابق ساری دنیا کے دشمن بھی درپے ہو جائیں تو ختم نہ کر سکیں گے... ہاں بربادی ہو گی تو آپس کی لڑائی سے ہو گی... یہ بھی واضح ہوا کہ قدرتی آفات کا ذمہ تو اللہ نے اٹھا لیا... ہاں اس میں اس قدر استثناء ہے کہ چھوٹے موٹے جھٹکے آتے رہیں گے تاکہ مسلمان اللہ کی طرف پلٹیں اور توبہ کرتے رہیں لیکن ایسا قدرتی جھٹکا نہ ہو گا کہ امت مٹ جائے... باقی آپس کی جو لڑائی ہے اس کی ذمہ داری امت کے لوگوں پر ہے کہ وہ آپس میں نہ لڑیں اور اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کرتے رہیں، محبت و پیار اور الفت کا رنگ پیدا کرتے رہیں۔
جناب راحیل شریف صاحب! یہ ہے وہ ذمہ داری جو آپ کے کندھوں پر آ گئی ہے۔ وزیراعظم ہائوس اسلام آباد نے واضح کر دیا ہے کہ مسلم فورسز کا اتحاد کسی مسلک کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے اور امت مسلمہ کو جوڑنے کے لئے ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی یہی بات کہی ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے بھی اسی بات کو دہرایا ہے۔ حکومت پاکستان نے ایران کے ساتھ بھی سفارتکاری شروع کر رکھی ہے، کوشش یہی ہے کہ ایران، عراق اور شام کو بھی اس اتحاد میں شامل کر لیا جائے اور مل بیٹھ کر تمام مسائل کا حل نکالا جائے۔ آغاز ہو چکا اگلی منزلیں بھی ان شاء اللہ آسان ہوتی چلی جائیں گی۔ جنرل حمید گل مرحوم کا درجہ جنت میں ان شاء اللہ اونچا ہوا ہو گا کہ مذکورہ خواب انہوں نے دیکھا تھا۔ دفاع پاکستان کے لانگ مارچ میں جو لاہور سے اسلام آباد تک ہوا ہم نے ایک گاڑی میں سفر کیا۔ جہلم میں رات بھی اکٹھے ایک گھر میں گزاری۔ جنرل حمید گل رحمہ اللہ کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت ہوتی رہی وہ فرماتے تھے جس طرح نیٹو کا ملٹری اتحاد ہے اسی طرح مسلمانوں کا بھی ہونا چاہئے اور مسلمان ممالک میں دوسری قوتوں کے بجائے مسلم فورسز کو وہاں کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس خواب کی تعبیر کا آغاز ہو گیا ہے۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے مشرق وسطیٰ کے گمبھیر حالات میں امت مسلمہ کو آواز دی ہے۔ پاکستان کو کلیدی کردار ادا کرنے کی اپیل کی جس کا پاکستان نے مثبت جواب دیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز مذکورہ منصوبے کے چیف پیٹرن ہیں۔ 
حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کے نام سے جو نیا ملک بننے جا رہا ہے اس کا دستور کیا ہو گا انہوں نے فرمایا تھا وہی دستور ہو گا جو مدینہ کی ریاست کا تھا۔ آج سعودیہ کا دستور بھی کتاب و سنت ہے اور پاکستان کا دستور بھی کتاب و سنت ہے یعنی فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ سب کلمہ پڑھنے والے مسلمان ہیں۔ دہشت گردی اور خارجی دماغ کی انتہا پسندانہ سوچ کے لئے کوئی برداشت نہیں ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام ''طابہ‘‘ رکھا ہے (مسلم) دوسری حدیث میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں مدینہ کا نام ''طیبہ‘‘ رکھ دوں (معجم کبیر طبرانی) جی ہاں! طابہ اور طیبہ کا معنی پاک مقام ہے۔ اگر عربی کے ان الفاظ کا ترجمہ فارسی میں کیا جائے تو ''پاکستان‘‘ بنتا ہے اور اگر پاکستان یعنی پاک جگہ کا ترجمہ عربی زبان میں کیا جائے تو طابہ اور طیبہ بن جاتا ہے۔
قارئین کرام! مدینہ منورہ میں مسلمان تو تھے ہی، یہودی، عیسائی اور مسیحی بھی رہا کرتے تھے۔ ریاست مدینہ کے حکمران حضرت محمد کریمؐ ان سب کی جان، مال، عزت، ان کی مذہبی عبادت گاہوں اور ان کی مقدس کتابوں کی حفاظت کے ذمہ دار اور نگہبان تھے۔ میں کہتا ہوں آج پاکستان میں بھی ان سب کی حفاظت کا نظام موجود ہے۔ سارے عالم اسلام میں موجود ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے ہم کلمہ پڑھنے والے مسلمان مسلکی اختلاف پر کیوں باہم لڑتے ہیں، کیوں غیروں کی فوجیں ہمارے علاقوں اور ملکوں میں آتی ہیں، کیوں ان کے بم ہماری سرزمین پر گرتے ہیں۔ بموں کی ماں کا تجربہ ہم مسلمانوں پر ہی کیوں ہوتا ہے؟ آج امت مسلمہ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ہم اب امن اور اتحاد کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ اے اللہ کریم! اس منزل کو آسان کر دے۔ راستے ہموار فرما دے۔ جس طرح ہماری مساجد کے رخ کعبہ کی جانب ہیں ہمارے اقتدار کے ایوانوں کی سمت بھی امن کے مرکز کعبہ کی طرف کر دے۔ (آمین یا رب العالمین)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved