ہر بڑے شہر میں ماس ٹرانزٹ سسٹم ناگزیر ضرورت ہے۔ روزانہ لاکھوں افراد کو سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں تو بڑے شہروں میں کام پر جانا اور گھر واپس آنا خیر سے بجائے خود ایک باضابطہ کام کی شکل اختیار کرچکا ہے! اللہ کا شکر ہے کہ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں۔ ممبئی، نیو یارک، ٹوکیو اور دیگر بڑے شہروں میں بھی صورتِ حال مثالی اور اطمینان بخش نہیں۔ اس معاملے میں کراچی، ممبئی، نیو یارک، ٹوکیو، پیرس، سان فرانسسکو، دبئی، کوالالمپور... سبھی ایک پیج پر ہیں! مقامِ شکر ہے کہ کسی ایک معاملے میں تو ہم دوسرں کے یا دوسرے ہمارے ''ہم پلّہ‘‘ ہوئے!
ماس ٹرانزٹ کا نام آتے ہی ہم پتا نہیں کہاں سے کہاں نکل گئے۔ ویسے کراچی اتنا پھیل چکا ہے کہ کراچی کے متعدد علاقوں میں بولا جانے والا عمومی جملہ اِس پر صادق آتا جارہا ہے۔ جب کوئی اکڑتا ہے تو کہا جاتا ہے ''ابے کیا بات ہے؟ بہت پھیل رہا ہے!‘‘
کراچی کی دم بہ دم توسیع کو ہم پھیلنا بمعنی اکڑنا قرار نہیں دے سکتے کیونکہ اس پھیلاؤ نے بے چارے کراچی کا حال بُرا کر دیا ہے، ناک میں دم ہو گیا ہے اور اُس کی سانس اُکھڑنے لگی ہیں۔ جس کی اپنی جان پر بنی ہو وہ بھلا کسی کو کیا اکڑ دکھائے گا؟
ماس ٹرانزٹ سسٹم شہریوں کو مختلف دور افتادہ علاقوں تک لے جانے اور واپس لانے کے لیے ہوتا ہے۔ کراچی میں کوئی باضابطہ ماس ٹرانزٹ سسٹم کبھی نہیں رہا اِس لیے یہاں کے لوگ صبح جب کام پر جانے کے لیے نکلتے ہیں تو کئی دنیاؤں کی سیر کرتے ہوئے کام پر پہنچتے ہیں اور شام کو گھر واپسی کے دوران بھی کئی دنیاؤں سے گزرتے ہیں۔ اس سفر کو suffer کہنا زیادہ موزوں ہو گا! بہت سے سادہ لوح یہ گمان بھی کرتے ہیں کہ اِتنا کچھ سہنے کے بعد میدانِ حشر میں اُنہیں تھوڑی بہت رعایت تو ضرور دی جائے گی!
ماس ٹرانزٹ سسٹم اچھے خاصے انسان کو اچھی خاصی دیر کے لیے ''ٹرانزٹ لاؤنج‘‘ میں پھنسا کر رکھ دیتا ہے! کام پر جانے اور گھر واپس آنے کے دوران اہلِ کراچی کی حالت بہت حد تک ویسی ہی ہوتی ہے جیسی سیخ میں پروئے ہوئے تِکّے کی ہوتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اِس معاملے میں تِکّہ عموماً زیادہ جل جاتا ہے!
ایک زمانہ تھا جب کراچی میں بڑی بسیں بڑی تعداد میں چلا کرتی تھیں۔ اِن بسوں نے سفر کی صعوبتوں کا گراف خاصا نیچے رکھا ہوا تھا۔ سفر کے دوران لوگ خریداری بھی کر لیا کرتے تھے کیونکہ گھریلو استعمال کی بہت سی اشیا کے علاوہ اشیائے خور و نوش اور کھلونے وغیرہ بھی اِن بسوں میں مسافروں کو گھر کی دہلیز یعنی اُن کی سیٹ تک پہنچائے جاتے تھے۔ مساجد و مدارس کے علاوہ یتیم خانوں اور دیگر خیراتی اداروں کے لیے عطیات بھی بسوں ہی میں وصول کیے جاتے تھے یعنی دنیا داروں کے ساتھ ساتھ دیندار بھی عوام تک خود پہنچتے تھے!
بڑی بسوں کے دور میں چند ایک بسیں بہت ہی روایتی انداز کی حامل تھیں۔ مثلاً 60 نمبر کی بس اپنی مرضی کی چال چلا کرتی تھی یعنی اُس میں بیٹھیے اور دراز ہو جائیے، آپ کا اسٹاپ آئے گا تو کنڈکٹر جگا دے گا! اِسی بس میں لوگ بکریوں اور چارے کے ساتھ بھی سفر کرتے تھے اور اگر کوئی دکان کے لیے سامان خریدتا تھا تھا تو وہ بھی بورے لاد کر بس کو لوڈنگ ٹرک میں تبدیل کر دیتا تھا!
بیشتر بڑی بسیں شاید اس زمانے کی یادگار تھیں جب بسیں ایجاد ہوئی تھیں! حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اِن میں سے متعدد اب تک رواں ہیں! اِن کا چلتے رہنا اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے!
تقریباً سات سال قبل گرین بس متعارف کرائی گئی تب شہریوں کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ اِس میں سوار کیسے ہوں اور ٹکٹ کیسے لیں! اور جب لوگوں میں گرین بسوں میں سفر کرنے کا شعور پیدا ہوا تب تک اِس پروجیکٹ کو ہری جھنڈی دکھائی جا چکی تھی!
بڑی بسوں کا زمانہ گیا تو ویگن اور کوچ کا ''عہدِ زرّیں‘‘ شروع ہوا۔ یہ بھی کیا دور تھا۔ لوگ روزانہ موت کو بہت قریب سے دیکھتے اور اللہ کی طرف زیادہ جھکاؤ محسوس کرتے تھے۔ چھوٹے حجم کی اِن بسوں میں بیٹھنے والوں ہی کو معلوم ہو پایا کہ آن کی آن میں موت کے بالکل سامنے سے گزر جانا کیا ہوتا ہے! ویگنز اور کوچز کی ریس لگتی تھی تو مسافروں کے دل اُچھل کر حلق میں آ جایا کرتے تھے۔ اور پھر اپنے اپنے اسٹاپ پر اتر کر لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اُچھل کر حلق میں آ جانے والا دل اپنی مقررہ جگہ پر واپس آگیا ہے!
چند ایک روٹ تیز رفتاری کے لیے مشہور یعنی بدنام تھے۔ بڑی بسوں میں 7-C کی تیز رفتاری قیامت کی جھلک دکھلاتی تھی۔ آج بھی 7-C میں چَڑھنا اور اُترنا اِس بات کا متقاضی ہے کہ آپ نے لکی ایرانی سرکس یا ٹرین کی ڈائننگ کار میں کچھ وقت گزارا ہو اور اچھل کود کے ساتھ ساتھ اور پلٹنے جپٹنے کی خصوصی مہارت حاصل کی ہو!
ریس کے حوالے سے خان کوچ اور ڈبلیو گیارہ کی سی شہرت کسی کو نہیں مل سکی۔ اڈے پر جلد پہنچ کر نمبر لینے یا جرمانے سے بچنے کے لیے کسی خاص مقام پر بر وقت پہنچنے کی دُھن میں لگائی جانے والی ریس نے جانے کتنی ہی معصوم جانیں لی ہیں۔ خدا خدا کرکے اب یہ سلسلہ کچھ تھما ہے۔ ڈبلیو گیارہ ماس ٹرانزٹ سسٹم کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی کا ثقافتی ورثہ بھی رہی ہے۔ ڈبلیو گیارہ کی بسوں کو جس دل کش انداز سے سجایا جاتا رہا ہے اُسے دیکھ کر بہت سے بیوٹی پارلرز نے دلہنوں کو سجانا شروع کیا! ایک زمانہ تھا کہ ڈبلیو گیارہ کی سج دھج دیکھ کر لوگ انگشت بہ دنداں رہ جایا کرتے تھے۔ ایک بار ہم نے انٹرویو کے دوران ایک محترمہ سے پوچھا کہ آپ کا آئیڈیل کیسا ہے یا کیسا ہونا چاہیے تو ٹی وی چینلز کے کیمرے اور مائکروفون دیکھ کر اسٹارٹ ہو جانے والے سیاست دانوں کی طرح اُنہوں نے بولنا شروع کیا ''اچھا دکھائی دے، صحت مند ہو، آواز میں نرمی اور لہجے میں گرمی ہو۔ رفتار ایسی ہو کہ کہیں سے گزرے تو لوگ دیکھتے، سوچتے رہ جائیں اور پانے کی تمنا کریں۔ اس کے ساتھ بیٹھنا نصیب ہو تو لوگ دیکھیں اور رشک کریں۔ آرائش عمدہ ہو، زیبائش لاجواب ہو۔‘‘ ہم نے ان کی خود کلامی کے گھوڑے کو لگام دینے کی کوشش کرتے ہوئے استفسار کیا بی بی! گستاخی معاف، کیا تم W-11 سے شادی کرنا چاہتی ہو!
کراچی کے بعض علاقوں میں آج بھی چھوٹی ویگنیں چلائی جارہی ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ 10 افراد کی گنجائش ہوتی ہے مگر اس میں پائیدان پر لٹکنے والوں سمیت 20 افراد سفر کرتے ہیں! ایسی ویگنوں میں Z اور N-1 نمایاں ہیں۔ جب اِن میں مسافروں کو ٹھونسا جارہا ہوتا ہے تب ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں! ان گاڑیوں کو دیکھ کر ساٹھ گز کے وہ مکانات یاد آتے ہیں جن میں چار پانچ بھائی اپنی اپنی فیملی کے ساتھ رہ لیتے ہیں!
چند برس کے دوران ماس ٹرانزٹ سسٹم کی رونق بڑھانے میں چنچی یعنی موٹر سائیکل رکشوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ رکشے ''دل میں جگہ ہونی چاہیے‘‘ کے اصول کی بنیاد پر کام کرتے ہیں! سڑکوں پر یہ رکشے ننھی سی جان پر درجن بھر مسافروں کا کو بوجھ اٹھائے دندناتے نظر آتے ہیں گویا کوزے میں دریا بند کرنے کا ہنر اپنی معراج کو چُھو رہا ہے!
گرین لائن بس منصوبے کے ذریعے کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کی بنیاد ڈالی جارہی ہے۔ زہے نصیب، مگر ہم کہیں موجودہ ''سسٹم‘‘ کی بدولت میسر ''ڈیلی پلیژر ٹرپ‘‘ سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں!