تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     29-04-2017

ایک کا زخم‘ سب کا زخم

دو روز بعد ایک بار پھر یومِ مئی آ رہا ہے۔ ہر سال یوم مئی ان شہید امریکی محنت کشوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہیں یکم مئی 1886ء کو امریکہ کے شہر شکاگو میں پولیس نے وحشیانہ فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔ یہ مزدور سفید جھنڈے تھامے یومیہ آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جب وہ 'ہے مارکیٹ‘ پہنچے تو پولیس نے ان پر فائرنگ کر دی اور سفید پرچم ان مزدوروں کے خون سے سرخ ہو گئے؛ تاہم اس دن کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ جولائی 1889ء میں پیرس میں دوسری انٹرنیشنل کی تاسیسی کانگریس کے موقع پر عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز کی قیادت میں کیا گیا۔ دوسری انٹرنیشنل کی کانگریس نے فیصلہ کیا کہ یہ دن پرولتاری بین الاقوامیت کی ایک علامت بنے گا۔ یوم مئی وہ واحد تہوار ہے جو رنگ، نسل، مذہب، زبان، قوم، خطے اور علاقے کے تعصبات کو چیرتے ہوئے سماج کو طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر یکجا کرتا ہے۔ اس دن کوکرہِ ارض کے کونے کونے میں محنت کش طبقات مناتے ہیں۔
یوم مئی 2017ء ایک ایسے وقت میں منایا جا رہا ہے جب پوری دنیا میں شدید عدم استحکام، انتشار اور خونیں جنگیں ہو رہی ہیں۔ 2008ء کے مالیاتی زوال کے نتیجے میں جنم لینے والا سرمایہ داری کا بحران بحالی کا نام نہیں لے رہا۔ اس بحران کے نتیجے میں پورے سیارے میں محنت کشوں پر تابڑتوڑ حملے ہو رہے ہیں۔ اگر معیشت میں ریاستی مداخلت کا سرمایہ داری کا کنیشین ماڈل ناکامی سے دوچار ہوا ہے تو آزاد منڈی کی نیولبرل معیشت اس سے کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اس نیولبرل نسخے کو ستر کی دہائی میں ناکام ہونے والے بعد از جنگ کے کنیشین معاشی ماڈل کے نعم البدل کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس ٹریکل ڈائون ماڈل سے بلند شرح نمو، سرمایہ کاری، زیادہ پیداواریت اور امیروں سے غریبوں کی طرف دولت کا بہائو ہو گا لیکن ان میں سے ایک بھی کام نہیں ہوا۔
ڈی ریگولیشن، نجکاری، ری سٹرکچرنگ، ڈائون سائزنگ اور لبرلائزیشن کی پالیسیوں نے پوری دنیا میں محنت کشوں پر قہر نازل کر دیا۔ امریکی معیشت دان جیمز مونٹیر اور فلپ پلکنگٹن کے مطابق، ''ستر کی دہائی میں ابھرنے والے نظام کی معاشی پالیسیوں کی چار اہم خصوصیات تھیں: مکمل روزگار کا خاتمہ اور اس کی جگہ افراطِ زر کا تعین کرنا، تجارت، سرمایہ اور لوگوں کے بہائو کی گلوبلائزیشن میں اضافہ، دوبارہ سرمایہ کاری اور نمو کی بجائے شیئر ہولڈرز کے منافعوں کو ترجیح دینا اور ٹریڈ یونین اور مزدوروں کی تنظیموں کو کچلنا۔‘‘
سرمایہ دارانہ معاشیات پر مبنی تمام حکومتیں ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جنہیں آئی ایم ایف جیسے سامراجی مالیاتی ادارے پاکستان جیسے ملکوں پر سخت ترین شرائط کے ساتھ لاگو کرتے ہیں۔ سیاسی افق پر حاوی تمام سیاسی پارٹیاں اور قیادتیں سرمایہ داری کے آگے سربسجود ہیں اور محکوم طبقات پر معاشی حملے کر رہی ہیں اور یونینوں اور منظم مزدوروں کو کچل رہی ہیں۔ پچھلی چار دہائیوں کی اسی سیاست اور ٹریڈ یونین اور بائیں بازو کی قیادت کی مصالحانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہی آج یونینوں میں منظم مزدوروں کی تعداد ملکی تاریخ کی سب سے نچلی سطح یعنی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ 
تضاد یہ ہے کہ عالمی سطح پر سرمایہ داری میں کسی طرح کی صحت مند نمو اور سماجی ترقی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ سامراجی آقائوں کے اعلیٰ کارپوریٹ اداروں کی بیٹھکوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر 'کیتھرن لاگارڈ‘ نے امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ میں اپنی ایک تقریر میں کہا، ''اگر پیداواریت میں کمزور نمو ایک دہائی مزید جاری رہی تو عالمی سطح پر معیارِ زندگی شدید طور پر متاثر ہو گا۔ کمزور نمو مالیاتی اور سماجی استحکام کو بھی بگاڑ دے گی‘ جس سے بے انتہا نابرابری کو اور نجی و حکومتی قرضوں کو کم کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ آرام سے بیٹھنا اور مصنوعی ذہانت یا دوسری ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداواریت کو بڑھانے کے لیے انتظار کرنا کوئی حل نہیں ہے‘‘۔
سب سے بڑی سرمایہ دارانہ معیشت 'امریکہ‘ میں سماجی نابرابری اور استحصال پچھلی چار دہائیوں سے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ 1950ء سے 1980ء کے دوران آبادی کے نچلے 90 فیصد کا امریکی آمدنی میں حصہ 66 فیصدکے آس پاس رہا۔ 1961ء سے 1969ء کے دوران سرمایہ دارانہ معاشی عروج کے سالوں میں ان 90 فیصد امریکیوں کا آمدنی میں حصہ 67 فیصد تھا؛ تاہم 1980ء کی دہائی میں رونلڈ ریگن کے دور میں ان کا حصہ 20 فیصد تک سکڑ گیا۔ گرینسپان کے 2001ء سے 2007ء کے ہائوسنگ کے بلبلے کے وقت قومی آمدنی کے ہر ایک اضافی ڈالر میں ان کا حصہ دو سینٹ تھا جبکہ باقی امیر ترین 10 فیصد کے حصے میں آئے۔ دوسرے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی استحصال اور آمدنی میں فرق کی حالت کم و بیش اسی طرح ہے۔ سابقہ نو آبادیاتی ممالک میں نسل انسان کی اکثریت بربادی اور شدید بے سروسامانی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 
اس کیفیت نے دنیا کے بیشتر حصوں میں جنگوں، دہشت گردی، غربت اور خون ریزی کو جنم دیا‘ لیکن ہر جگہ کاپوریٹ منافعوں کی ظالمانہ دوڑ میں مزدوروں کو ہی کچلا جا رہا ہے۔ انتشار اور غداریوں کے باوجود اس وحشیانہ نظام کے خلاف مزدوروں، نوجوانوں اور محکوم عوام کی متواتر تحریکیں ابھرتی رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی میں جدت، نام نہاد انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے باوجود محنت کش وجود رکھتے ہیں اور جمود کے باوجود طبقاتی جدوجہد اب بھی زندہ اور جاری ہے۔ اس وقت طبقاتی کشمکش دوسرے پُرآشوب واقعات کے ساتھ ابھر رہی ہے۔
سرمایہ دارانہ اصلاح پسندوں کو بھی نظام کے گہرے بحران اور سماج کی کوکھ سے جنم لینے والی بغاوتوں کو اکثر و بیشتر قبول کرنا پڑتا ہے۔ مالیاتی زوال کے چند سال بعد مشرق وسطیٰ اور وال سٹریٹ کی عوامی تحریکوں کے بارے میں 2012ء میں دی گارڈین نے لکھا تھا، ''کمیونزم صرف عوامی احتجاج کا تہوار نہیں جس میں نظام کو مفلوج کیا جاتا ہے۔ کمیونزم سب سے بڑھ کر ایک نئی طرز کی تنظیم، نظم و ضبط اور سخت محنت ہے۔ مارکس کے اہم نظریات آج پہلے سے زیادہ درست ہیں۔ ہم اپنے آپ کو اس لیے آزاد محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنی غلامی کے اظہار کے لیے وہ زبان ہی نہیں ہے۔ آج کے موجودہ تنازعات کو بیان کرنے کے لیے ہماری اصطلاحات جیسے 'دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ 'جمہوریت اور آزادی‘ 'انسانی حقوق‘ وغیرہ وغیرہ سب جھوٹی اصطلاحات ہیں جو ہمیں سوچنے کے بجائے حالات کے بارے میں ہماری سوچ کو دھندلا کرتی ہیں‘‘۔ مزید عوامی احتجاج اور پرولتاری جدوجہد ہو گی۔ محنت کش طبقہ انتقام کی آگ کے ساتھ ایسے نظام پر وار کریں گے جو ان کی زندگیوں میں اس طرح کی محرومی اور محکومی لایا ہے۔ 
لینن نے 1904ء میں یوم مئی کی اہمیت کے بارے میں ایک مضمون میں لکھا، ''مزدور ساتھیو! یوم مئی آرہا ہے۔ اس دن کو پوری دنیا کے مزدور مناتے ہیں۔ یہ دن‘ طبقاتی شعور سے آراستگی، ہر طرح کے جبر اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے خلاف مشترکہ جدوجہد، محنت کرنے والوں کو بھوک، غربت اور محکومی سے آزادی کے لیے جدوجہد کا دن ہے۔ اس عظیم جدوجہد میں دو دنیائیں آمنے سامنے ہیں: سرمایے کی دنیا اور محنت کی دنیا، استحصال اور غلامی کی دنیا اور بھائی چارے اور آزادی کی دنیا‘‘۔
پیرس میں انٹرنیشنل سوشلسٹ کانگریس کی جانب سے یوم مئی کو دنیا بھر کے محنت کشوں کے اتحاد کے دن کے طور پر مقرر کرنے کا مقصد مزدوروں کے حقوق اور استحصال سے آزادی کے لیے مزدوروں کو ایک واحد عالمی مزدور تحریک کے لیے متحد اور تیار کرنا ہے تاکہ انقلابی سوشلزم کی فتح ہو۔ آج کل کے جدید مواصلاتی ذرائع کی وجہ سے ایک خطے میں ہونے والی جدوجہد کو بیک وقت دنیا کے دوسرے حصوں میں دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یوم مئی اس طبقاتی جدوجہد میں سماج کو تبدیل کرنے کے لیے محنت کشوں کا تجدید عہد ہے۔ 'ایک کا زخم‘ سب کا زخم‘ محنت کشوں کی یکجہتی کی بنیاد ہے۔
جب سے طبقاتی سماج وجود میں آیا ہے اس وقت سے طبقاتی کشمکش اور حکمران طبقات کے استحصال، ظلم و جبر کے خلاف تحریک چلتی رہی ہے۔ کارل مارکس نے 1848ء میں کمیونسٹ مینوفیسٹو میں لکھا، ''آج تک کے تمام سماجوں کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ آزاد اور غلام، پتریشین اور پلے بین، جاگیردار آقا اور زرعی غلام، گلڈ ماسٹر اور مزدور غرضیکہ ظالم اور مظلوم تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار رہے ہیں، کبھی کھلے بندوں اور کبھی پس پردہ ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور ہر بار اس لڑائی کا انجام یہ ہوا کہ یا تو نئے سرے سے سماج کی انقلابی تعمیر ہوئی یا لڑنے والے طبقے ایک ساتھ تباہ ہو گئے‘‘۔
اب اس لڑائی کو آخر تک لڑنا ہو گا۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنس اور ٹیکنالوجی اس سطح تک ترقی کر چکی ہے کہ انسانی سماج سے تمام ضرورتوں اور محرومیوں کو ختم کرنے کے ذرائع پیدا ہو چکے ہیں۔ یہی سماج کمیونزم میں داخل ہو گا‘ یعنی انسان کی حتمی آزادی جب طبقات ختم ہو جائیں گے اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ ہو گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved