تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-04-2017

ٹوٹے

نقل بمطابق اصل
کراچی اور سکھر وغیرہ میں امتحانات کے دوران پرچے قبل ازوقت آئوٹ ہونے اور کھُل کھُلا کر نقل کرنے کی اطلاعات کچھ نئی نہیں ہیں بلکہ یہ معاملہ ایک روٹین کی شکل اختیار کر چکا ہے جس پر میڈیا میں بہت شور شرابا بھی جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ممتحن حضرات بھی نقل سے روکنے کی بجائے طلباء کی مدد تک کرتے پائے جاتے ہیں اور تعلیمی انحطاط کی بھی سنائونی سنائی جا رہی ہے‘ یعنی ع
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس مقولے کے مطابق کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے‘ ان طلباء کے عقلمند اور ذہین و فطین ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور پھر اس میں محنت بھی کرنی پڑتی ہے اور اگر طلباء سارا سال کسی مصروفیت کی وجہ سے محنت نہیں کر سکے تو یہاں بھی تو وہی کچھ کر رہے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے پرچے وقت سے پہلے ہی ویب سائٹ اور فوٹو سٹیٹ کی دکانوں پر دستیاب تھے۔ یہ بھی ایک صحت مند پہلو ہے کیونکہ اس سے فوٹو سٹیٹ وغیرہ کرنے والوں کا کام ذرا زیادہ تیزی سے چلنے لگتا ہے جو کہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں بیحد ضروری بھی ہے۔
ایک معمول کی بات
ڈاکہ تو نہیں ڈالا‘ چوری تو نہیں کی ہے
ہنگامہ ہے کیوں برپا‘ تھوڑی سی جو پی لی ہے
یہ شعر ہمیں ان خبروں سے یاد آیا ہے جس کے مطابق حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر عمران خان کو پانامہ کیس میں خاموش رہنے کے عوض دس ارب روپے کی پیشکش کی گئی ہے‘ جبکہ اب تو عمران خان نے کہا ہے کہ دس ارب کی پیشکش تو ابتدائی تھی اور اس میں اضافہ بھی کرنے کی آفر کی گئی تھی۔ وزیراعظم نے اس پر عمران خان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت خواہ مخواہ جذباتی ہونے جا رہی ہے ورنہ سیاست میں لو اور دو تو ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے‘ اس لیے اسے رشوت قرار دے کر خواہ مخواہ رائی کا پہاڑ بنایا جا رہا ہے کیونکہ پچھلے دنوں حکومت اور پی پی پی میںجو ڈیل کی خبریں آتی رہیں‘ اس کی تو نہ کسی نے تردید کی اور نہ کسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی بات ہوئی۔ اے کمال افسوس ہے‘ تجھ پر کمال افسوس ہے۔
دو دو پلاٹ؟
سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کو دوسرا رہائشی پلاٹ دیئے جانے پر‘ اگرچہ اسے ایک روٹین کا معاملہ سمجھا جا رہا تھا‘ سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ نے اس پر آئینی اعتراض اٹھایا ہے اور آئین کے حوالے دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جج حضرات کو اس طرح کی مراعات لینا منع ہے کیونکہ انہی نے تو حکومت کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنا ہوتی ہے تو وہ اتنی بڑی بڑی مراعات حاصل کر کے حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ پہلے ہی ان کو ملنے والی مراعات کچھ کم نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ جسٹس موصوف نے دو تو کیا‘ حکومت سے ایک بھی پلاٹ لینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ بالعموم جج صاحبان کو دو دو پلاٹ دینا حکومت کی پالیسی ہی کا حصہ ہے جو کہ حقیقتاً آئین کے خلاف ہے۔ لُطف یہ ہے کہ اس پالیسی پر اب تک کسی جج نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ دو دو پلاٹ حاصل کئے جاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے یعنی ع
جو آئے آئے سو یاں دل کشادہ رکھتے ہیں
کرپشن؟
ایک اخباری اطلاع کے مطابق وزارت ہائوسنگ میں 24 ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے جبکہ پی اے سی کے مطابق نیب مجرموں کو پناہ دے رہا ہے۔ ابھی کل ہی سپریم کورٹ کے ایک معزز جج نے کرپشن کے ایک مقدمہ میں ریمارکس دیئے ہیں کہ کرپشن خود حکومت کروا رہی ہے حالانکہ کرپشن کو تو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے‘ اس لیے کرپشن کی افواہیں کسی سازش کے تحت اڑائی جاتی ہیں اور یہ سب پانامہ لیکس کا کیا دھرا ہے کیونکہ جب سے اس کا ہنگامہ شروع ہوا ہے جس کا جی چاہتا ہے‘ کرپشن کی کوئی کہانی گھڑ کر لے آتا ہے اور بیچاری حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے اور جہاں تک نیب کا تعلق ہے تو وہ خود کہہ چکی ہے کہ وہ اپنے ریگولیٹر کی اجازت اور مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی‘ اس لیے اسے کسی ایسی بات کا ذمہ دار قرار دینا سراسر زیادتی ہے!
ذاتی دوست 
مری میں بھارتی تاجر جندال کی آمد اور وزیراعظم سے ملاقات پر بھی اپوزیشن نے ایک طوفان کھڑا کر رکھا ہے‘ حالانکہ وہ وزیراعظم صاحب کے ذاتی دوست ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم بھارت نریندر مودی بھی صاحب موصوف کے ذاتی دوست ہیں لیکن اس پر بھی طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں حالانکہ آئین پاکستان کے مطابق دوست بنانے پر ہرگز کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ دوستی اور بھائی چارے کی پالیسی کو تو دُنیا بھر میں نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ اس کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ ملاقات مری جیسے دور افتادہ مقام پر ہوئی ہے لیکن کیا کیا جائے‘ یہ میڈیا کے جاسوس ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں اور چُغل خوری سے باز نہیں آتے جو کہ اپنی جگہ پر نہایت افسوسناک ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے نامساعد حالات میں ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے لیکن آفرین ہے حکومت پر کہ ایسی بڑی رکاوٹوں کے باوجود تیزرفتار ترقی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ حکومت کے اپنے میڈیا سیل کے ہوتے ہوئے اس شرانگیز میڈیا کی ضرورت ہی کیا ہے حتیٰ کہ حکومت کو اس بے لگام میڈیا کی خوشامد بھی کرنا پڑتی ہے‘ لہٰذا...
آج کا مقطع
ہم اپنے کنارے پہ ظفرؔ خوش ہیں‘ وگرنہ
اُس پار کے جو رنگ تھے اِس پار نہیں تھے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved