تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-04-2017

کیچڑ سے ڈنڈے تک

بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع گورکھ پور میں ایک ایسا سرکاری ہسپتال پایا گیا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں بھوت (جی ہاں، اصلی تے نسلی بھوت پریت) علاج کرتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ پاک بھارت سرحد کے دونوں طرف کے سرکاری ہسپتال ایک پیج پر ہیں! فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں میں براجمان بھوت لوگوں کا صرف علاج ہی نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات اُنہیں اپنی برادری میں شامل بھی کرلیتے ہیں! 
ایک زمانے سے ہم یہ سوچ کر اپنے سرکاری ہسپتالوں پر نازاں رہے ہیں کہ جس طرح یہ علاج کرتے ہیں اُس طرح دنیا کے کسی اور ملک میں کوئی اور ہسپتال نہیں کرسکتا۔ یوپی کے ضلع گورکھ پور کے قصبے رائے گنج کا ہسپتال ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ جنہیں علاج کے لیے اس ہسپتال تک لایا جاتا ہے اُنہیں باضابطہ داخل کرنے یعنی پرچی بنوانے سے قبل ہسپتال کے باہر کیچڑ سے بھرے ایک بڑے گڑھے میں اتارا جاتا ہے۔ اس علاقے میں یہ عقیدہ عام ہے کہ اس گڑھے میں بھوت قیام پذیر ہیں جو مریض کا اچھا خاصا علاج کر ڈالتے ہیں اور ہسپتال کے میڈیکل اسٹاف کو زحمتِ کار سے بچا لیتے ہیں! مریض گڑھے کے کیچڑ میں خوب لت پت ہوتے ہیں۔ اور گڑھے سے نکلنے پر بہت سوں کو لوگوں نے صحت یاب بھی ہوتے دیکھا ہے۔ ہم نے مرزا تنقید بیگ سے جب اس ہسپتال کا ذکر کیا تو انہوں نے ٹی وی کے سِکّہ بند تجزیہ کار کے مانند خاصی روانی سے رائے زنی کی ''دھنا دھنی‘‘ شروع کی ''میاں! بات یہ ہے کہ جن میں عقل ہوتی ہے وہ حالات و واقعات پر ایک نظر ڈال کر سمجھ جاتے ہیں کہ یہیں ٹھیک ہو جاؤ اور گھر کا رستہ پکڑو۔ لوگ سوچتے تو ہوں گے نا کہ جس ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے کیچڑ سے گزرنا پڑتا ہے اُس میں داخل ہوکر علاج کرانے پر خدا جانے کن کن مراحل سے گزرنا پڑے!‘‘ 
ہم نے عرض کیا کہ اگر ڈاکٹرز سے تصادم سے پہلے ہی کیچڑ میں لت پت ہو جانے سے بیماری بھاگ لے تو یہ کوئی خسارے کا سودا نہیں۔ قابلیت اور سینس آف ڈیوٹی کے معاملے میں اتر پردیش کے سرکاری ڈاکٹرز بھی ہمارے سرکاری ڈاکٹرز ہی کے ہم پلّہ ہیں۔ شاید لوگ یہ سوچتے ہوں کہ اُن کی زد میں آنے پہلے ہی کیچڑ سے دو دو ہاتھ کرکے گھر کی راہ لینے میں کیا قباحت ہے؟ مرزا بولے ''تمہاری بات درست ہے مگر ہمارے ہاں معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ وہاں لوگ کیچڑ میں لتھڑ کر بھوت پریت سے ٹاکرا کرتے ہوئے ڈاکٹرز کی 'مشقِ ناز‘ سے جان بچا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کسی بھی سرکاری ہسپتال یا ڈسپنسری کے باہر کیچڑ کا انتظام و اہتمام نہیں۔ یہاں تو ہسپتال میں داخل ہوکر چارہ گروں کے 'حسنِ طریقِ علاج‘ سے باضابطہ تعارف ہونے ہی پر جان چُھوٹتی ہے!‘‘ مرزا کہتے ہیں ''جو حال ہمارے سرکاری ہسپتالوں کا ہے وہی بھارت کے سرکاری ہسپتالوں کا بھی ہے۔ جو حالات پر نظر رکھتے ہیں وہ اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ سرکاری ہسپتال میں علاج کرانے سے بہ درجہا بہتر یہ ہے کہ انسان کسی تانترک کی چھڑی سے مار کھاکر صحت یاب ہولے اور پتلی گلی سے نکل لے! چھڑی کی مار ٹیڑھی بھی پڑے تو زخم مندمل ہوسکتے ہیں لیکن اگر سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹرز کی طبع آزمائی کا بیلنس ذرا سا بھی آؤٹ ہوا تو سمجھ لیجیے پرلوک سِدھارنے کی تیاری مکمل ہوئی! چھڑی کی مار سے پڑنے والے نیل تو دور ہوسکتے ہیں لیکن اگر سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر کی 'مہربانی‘ سے مریض کا چہرہ ایک بار سفید ہوا یعنی فق پڑا تو پھر اُس کی لالی واپس نہیں آتی!‘‘ یہ چھڑی کا معاملہ بھی خوب ہے۔ ہمارے ہاں بھی ''ڈنڈا پیر‘‘ عام ہیں۔ عامل صاحبان جب یہ دیکھتے ہیں کہ گھی سیدھی سے نہیں نکل رہا، اُن کی جھاڑ پُھونک کا بھوت پریت کچھ اثر نہیں ہو رہا تو وہ آخری حربے کے طور پر ''ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ پر اُتر آتے ہیں یعنی ڈنڈا تھام کر بیک وقت بیماری اور بیمار دونوں کو ٹھکانے لگانے کا عمل شروع کردیتے ہیں! بیمار کا ٹھکانے لگنا زیادہ سودمند ہے کیونکہ اِس صورت میں بیماری بھی مٹ ہی جاتی ہے! چھڑی کی مار میں بھگوان کی کرپا والی بات بھی خوب ہے۔ بہت سے مرد خود کو تانترک گردانتے ہوئے گھر میں یہی چھڑی اور کرپا والا نسخہ آزماتے رہتے ہیں! ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اتر پردیش کے بہت سے گھروں میں بے چاری بھولی عورتیں شوہر کی مار شاید یہی سوچ کر سہتی ہوں گی کہ اِس میں بھگوان کی کرپا چُھپی ہوئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بیشتر معاملات میں یہ کرپا خواتینِِ خانہ کے لیے ''کرپان‘‘ بن جاتی ہے! 
ویسے ہسپتال کے باہر کیچڑ میں ''ابتدائی ٹیسٹ‘‘ کا آئیڈیا کچھ زیادہ بُرا نہیں۔ ہمارے ہاں بیشتر سرکاری ہسپتالوں کی جو حالت ہے اُسے دیکھتے ہوئے باہر کیچڑ کنڈی بنانے میں کوئی ہرج نہیں۔ ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے مریض کیچڑ میں لت پت ہوکر اپنی جھجھک دور کرلیں تو ہسپتال کا ماحول اُنہیں زیادہ پریشان کن محسوس نہیں ہوگا! اِس مرحلے سے کامیاب گزر جانا بڑی بات ہے۔ علاج کا کیا ہے، وہ تو ہوتا ہی رہے گا۔ ہمارے بیشتر سرکاری ہسپتال جس انداز سے علاج کرتے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے وہ دن زیادہ دور نہیں لگتا جب ہسپتال کی حدود ہی میں مریضوں کو عامل اور ڈنڈے کی سہولت بھی میسّر ہوگی۔ یعنی میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کارکردگی مطمئن نہیں کر رہی تو اِن دنیا والوں کو چھوڑ کر ''اللہ والوں‘‘ کو خدمت کا موقع دیجیے اور غمِ دو جہاں سے ہمیشہ کے لیے نجات پا جائیے۔ مرض خواہ کوئی ہو، مریض کی زندگی تک ہی تو ہے! ؎ 
یہ سارے رنج و غم ہیں ... فریب جسم و جاں تک!

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved