تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     30-04-2017

وہ تین فیصد لوگ

یکم مئی دنیا بھر میں مزدوروں کے عالمی دِن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جنگل کے دور کے فوراً بعد والے زمانے میں معاشرہ آقا اور غلام میں تقسیم ہوتا تھا‘ یعنی اُس وقت کا مزدور ایک غلام ہوتا تھا‘ جسے دیگر اشیا کی طرح باقاعدہ خریدا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ دور جدید تک جاری رہا۔ حتیٰ کہ آج بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں‘ جیسے Bonded Labour‘ یہ غلامی موجود ہے۔ جب دنیا میں زراعت باقاعدہ اور وسیع پیمانے پر شروع ہوئی تو اِس غلام نے مزارع (Tenant) کی شکل اختیار کر لی‘ اور اِس کی غلامی کی شدت میں قدرے کمی آ گئی۔ گزرتے وقت کے ساتھ دنیا میں دوسرا بڑا انقلاب یعنی صنعتی انقلاب یا مشین کا دور 18ویں صدی کے وسط میں شروع ہوا تو اِس غلام نے‘ جو کہ مزارع کا درجہ اختیار کر چکا تھا‘ کو مزدور کا نام دے دیا گیا۔ مختصر یہ کہ شکلیں تبدیل ہوتی رہی ہیں مگر اصلیت تبدیل نہیں ہوئی۔ مزدور آج بھی آگ کی بھٹی، دھوپ کی تپش، دھوئیں والی جگہ‘ کوئلے کی کانوں یا کسی دفتر میں ملازم کی حیثیت سے 8 سے 10 گھنٹے گزارتا ہے‘ جس کے عوض اسے محض اتنا ملتا ہے کہ وہ زندہ رہ سکے اور مزید مزدوری کرتا رہے تاکہ سرمایہ دار کی مشین کا پہیہ چلتا رہے۔ کال مارکس نے اضافی قدر (Surplus Value) کا نظریہ پیش کیا‘ جس کے مطابق ایک کارخانے میں کام کرنے والے مزدور کا استحصال کیا جاتا ہے جبکہ اضافی قدر یعنی منافع صرف فردِ واحد یعنی مالک لے جاتا ہے جس سے امیر اور غریب کا یعنی مالک اور مزدور کا معاشی فرق بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اِسی نظریہ کے مطابق مزدور False Conciousnessکا شکار ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مزدوری کی مد میں اُسے جو چند روپے دیے جاتے ہیں‘ وہی اُس کا معاوضہ بنتا ہے۔ جب بھی‘ جہاں بھی ان مزدوروں اور مزارعوں کو یہ احساس ہوا کہ اُن کو پورا معاوضہ نہیں ملتا جبکہ وہ پیداواری عمل میں برابر کے شریک ہیں‘ تو وہ انقلاب لے آئے۔ بالکل اسی طرح جیسے روس اور چین میں دنیا کے دو بڑے انقلابات آئے‘ اِن دونوں ملکوں میں مزدوروں نے جاگیردارانہ نظام سے چھٹکارا پایا اور بادشاہتوں کا خاتمہ کرتے ہوئے زرعی زمینوں پر برابری کے ساتھ قبضہ کر لیا۔ اِسی کو کمیونسٹ انقلاب بھی کہتے ہیں۔ 
آئیے ایک مثال کی مدد سے یہ گھن چکر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں فرض کریں کہ ایک سرمایہ دار 50 لاکھ روپے سے ایک کارخانہ لگاتا ہے‘ جہاں پر 20 مزدور مزدوری کے لیے رکھے جاتے ہیں جن کو دِن یا مہینے کے اختتام پر ایک مخصوص رقم دے دی جاتی ہے اور مزدوروں کا خرچہ اور دیگر لاگت نکالنے کے بعد ماہانہ 5 لاکھ روپے کا منافع بچتا ہے‘ جو فردِ واحد مالک لے جاتا ہے۔ اِسی رقم کو Surplus Value کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سرمایہ دار 50 لاکھ کی سرمایہ کاری نہ کرتا تو مزدور بے کار رہتے اور اگر 20 مزدور میسر نہ ہوتے تو وہ سرمایہ داری نہ کر پاتا۔ گویا اِس صنعتی منصوبے سے منافع حاصل کرنے کے لیے سرمایہ اور مزدور‘ دونوں کی ضرورت لازم ہے۔ اب آپ 2 منٹ کے لیے رُک جائیں اور یہ سوچیں کہ جو Surplus Value یعنی اضافی منافع 5 لاکھ روپے بچا ہے‘ اس میں زیادہ کردار سرمایہ کاری کے 50 لاکھ کا ہے یا مزدوروں کی مزدوری کا؟ اگر آپ کا جواب مزدوروں کی مزدوری ہے تو آپ سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) کے حامی ہیں اور اگر آپ کا جواب مزدوروں کی مزدوری ہے تو آپ ایک کمیونسٹ ذہن کے مالک ہیں۔ 
دنیا بھر میں ترقی یافتہ اور امیر ممالک حتیٰ کہ امریکہ میں بھی کم از کم تین فیصد لوگ بے روزگار ہی رہتے ہیں‘ اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ایک بنیادی اکائی ہے کہ اتنے لوگوں کو ہر صورت بے روزگار رکھا جائے‘ بھلے اُن کو گھر پر بیٹھے بے روزگاری الاؤنس دے دیا جائے۔ اس خفیہ اور غیر تحریری سرمایہ دارانہ نظام کے نکتے کو سمجھنے کے لیے ایک اور مثال دیتے ہیں۔ اگر آپ ایک مکان تعمیر کر رہے ہیں اور آپ کو چھ مزدوروں کی ضرورت ہے‘ تو آپ صبح کے وقت مزدوروں کی منڈی میں جائیں گے‘ جہاں وہ ماضی کے غلاموں کی طرز پر کھڑے ہوں گے اور آپ بحیثیت مالک صحت مند قسم کے مرضی کے چھ مزدوروں کو لے جائیں گے اور عین ممکن ہے کہ اگر آپ چاہیں تو مزدوروں سے Bargain کرکے اوسط مزدوری سے 50 روپے کم بھی طے کر سکتے ہیں۔ یہی صورت حال امریکہ جیسے امریکیوں میں بھی ہے، جہاں پر تین فیصد لوگوں کو بہرحال بے روزگار رکھا جاتا ہے کیونکہ اگر آپ کو مزدور چھ چاہئیں ہوں‘ مگر مزدور اس منڈی میں صرف 5 موجود ہوں تو پھر (Bargain) آپ مالک کی حیثیت سے نہیں کر سکیں بلکہ ممکن ہے کہ مزدور Bargain کریں گے اور اوسط مزدوری سے 50 سے 100 روپے زیادہ مانگیں گے کیونکہ انسانی فطرت ہے آپ روزمرہ زندگی میں کسی جگہ پر کھڑے ایک رکشہ والے سے Bargain نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تقریباً اپنی مرضی کا کرایہ لے گا۔ 
کوئی بھی ملک چاہے کتنا ہی ترقی یافتہ ہو جائے‘ اس کے عوام یعنی مزدور کتنے بھی تعلیم یافتہ ہو جائیں‘ کم از کم 3 فیصد لوگوں کو بے روزگار ہی رکھا جاتا ہے تاکہ Bargain کا ہتھیار مالک‘ سرمایہ دار یا جاگیردار کے ہاتھ ہی میں رہے۔ بھلے معاشرے میں امیر اور غریب کا فرق کتنا ہی بڑھ جائے۔ قارئین! کتنی دلچسپ بات ہے کہ دنیا کی دولت اور معاشی سرگرمیوں پر قابو رکھنے والے لوگوں کی تعداد یا شرح بھی تقریباً تین فیصد ہے‘ یعنی دنیا میں 3 فیصد لوگ ہی طے کرتے ہیں کہ پوری دنیا کی معیشت کس طرز پر چلے گی۔ بالخصوص اِس بات پر کڑی نظر ہوتی ہے کہ تین فیصد لوگوں کو کم از کم بے روزگار ہی رکھا جائے گا۔ بھلے مزدور عالمی دن منائیں یا دہائی دیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved