تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     01-05-2017

اُلجھنا چاہتاہوں دورِ حاضر کے خداؤں سے

غریب ملکوں کے امیر حکمران غیر ملکی قرضے چڑھانے کے ماہر ہیں۔
جس طرح امیروں کی طرف سے غریبوں پر لادے گئے قرضے کبھی ختم نہیں ہو سکتے اسی طرح نظامِ سرمایہ داری میں غضب کرپشن کی عجب کہانیاں زوال پذیر نہیں ہوتیں۔ لالو پرساد اور فیصلہ ایسی ہی ایک کہانی ہے جس کی دوسری قسط مکمل تھی کہ کامریڈ ڈاکٹر لال خان کا کالم نظر سے گزرا ۔یومِ مزدور پر اس ایڈوانس کالم نے یاد دلایا سوموار کا دن یومِ مزدور ہے ۔ یہ سوچتے ہی مجھے 4 سال پہلے کی ایک گنہگار اور بُری حکومت یاد آ گئی۔ جس کے دور میں نوکریوں سے جبراََ نکالے گئے، ان گنت لوگ بحال ہوئے ۔بے نظیر انکم سٹاک آکشن سکیم کے ذریعے مزدورں کو، ملوں، کارخانوں اور کمپنیوں میں تھوڑی بہت حصہ داری دی گئی۔ فوراََ میری نظر انتہائی پرہیزگار، صاحبِ تقویٰ صاف سُتھری 4 سالہ حالیہ جمہوریت کی طرف اُٹھ گئی ۔جس کے دور میں ایک بار پھر لیبر پالیسی جیسی فرنگیانہ حرکت نہ دہرائی گئی۔ نہ ہی غیر ضروری طور پر تعلیم حاصل کرنے والے مزدوروں کے بچوں کو نوکری کی ''تکلیف ‘‘دی گئی۔ لہٰذا آج کا وکالت نامہ یومِ مزدور کے نام ہے جسے ہمارے اسلامی جمہوریہ میں یومِ مجبور کہنا زیادہ درست ہو گا ۔ بقولِ شاعر ؎
تقدیر بدلنے تک یہ درد بھی سہنا ہے 
مزدور کے بچوں کو مزدور ہی رہنا ہے ؟
پچھلی باسی جمہوریتوں سے کہیں زیادہ تازہ جمہوریت نے بے گھر مزدوروں کو چھت فراہم کرنے کے لیے اربوں روپے کے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ۔ اس اعلان کی روشنی میں سینیٹ کے ایک اجلاس کے دوران میں نے وقفہِ سوالات کے تحت ، سرکاری گھر بسانے کے ذمہ دار وزیر صاحب سے سوال کر لیا کہ کتنے گھر بن چُکے ہیں؟ موصوف پہلے سٹ پٹائے پھر زمین کی خریداری کی تفصیل دینے لگے ۔ میں نے کہا جنابِ چئیرمین فاضل وزیر کو میرا سوال سمجھا دیجیے ۔ قوم جاننا چاہتی ہے 4 سالوں میں غریب مزدوروں کے لیے کونسی بستی بسائی گئی اور کتنے کوارٹر ابھی تک تعمیر ہوئے ۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ جواب نفی میں آیا۔ شاید انویسٹرز اور ٹائیکون کی جمہوریت نے یہ شعر زبانی یاد کر رکھا ہے ؎
سو جاتا ہے فٹ پاتھ پہ، اخبار بچھا کر 
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا 
اگر وفاق اور صوبوں میں چلنے والے ہائوسنگ کے سرکاری اداروں کے فنڈز دیکھے جائیں تو اُن کی گنتی کرنا ممکن نہیں ہو گا ۔ لیکن ہر آنے والے سبز، نیلے، پیلے، رنگین کتابوں میں چھپنے والے بجٹ کے ساتھ بے گھر لوگوں کی خانہ بربادی یوںبڑھتی جا رہی ہے ؎
اس شہر میں مزدور سا ،کوئی در بدر نہیں 
جس نے سارے گھر بنائے، اُس کا گھر نہیں
2 روز پہلے ایک مزدور نے مزدوری نہ ملنے پر اپنے 5 بچوں کو چوہے مار گولیاں کِھلا کر موت کی وادی میں اُتار دیا۔ اور پھر خود بھی حلال کھانے کی تبلیغ کرنے والے سماج میں اِس مزدور نے حرام موت کا آپشن استعمال کر کے مفلسی، بھوک اور پیاس سے نجات حاصل کر لی ؎
بھوک کے ، پیاس کے خطرات سے ڈر جاتا ہے 
مار کے اپنے ہی بچوں کو، وہ مر جاتا ہے 
ہر طرف ،اُس کی ہی محنت کے مظاہر ہیںمگر
بھوک کے ہاتھ میں مزدور بکھر جاتا ہے
آپ کو یاد ہو گا 3 سال پہلے اس نظام کے اصلی خادموں میں سے خادم نمبر 2 صاحب نے چنیوٹ سے نکلنے والے سونے کا ڈنڈا ہاتھ میں پکڑ کر ٹی۔وی کیمروں کو دکھایا تھا۔ آج یکم مئی ہے ۔ یومِ مزدور ہے ۔ چنیوٹ سے نکلنے والی سونے کی کان میں سے اِس ملک ِ یا اِس شہر کے مزدوروں کو کیا ملا۔یہ سوال ہمارے سرمایہ دار اور چور بازار نظام اور جاگیردار ذہنیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔
پیتل کی بالیوں میں، بیٹی بیاہ دی
اور باپ کام کرتا تھا سونے کی کان میں
اسلام کے نام پر بننے والے ملک کا کوئی حکمران خلیفہ دوئم سیدنا عمر ابن الخطابؓ جیسا ہوتا تو مزدوری کرنے والوں کو اللہ کا دوست سمجھتا۔ اللہ کے ایسے ہی ایک دوست کے مرنے والے 5 بچوں کی لاشوں پر کھڑا ہو کر عترافِ جرم کرتا کہ اُن کی موت کا ذمہ دار میں ہوں ۔ بدبختی یہ ہے یہاں کام کرنے والے کو کم تر سمجھا جاتا ہے ۔ اس ذہنیت کا نوحہ واجد محمود واجد نے پنجابی زبان میں لکھا ؎
اَلکَاسِبُ حَبیبُ اللہ اِسلام آکھے
آکھن لوک کمین تے کی کہیے
محل ماڑیاں کرن تعمیر جہڑے
سو ون اُتے زمین تے کی کہیے
درجہ بندی کُجھ ہور اِسلام دَسی 
کرن ہور شوقین تے کی کہیے
واجدؔ تن آسانیاں دین جہڑے
او ہی مشکل وِچ جِین تے کی کہیے
مزدوروں کے نام پر گا گا کر بے سُرے حکمرانوں کے گلے بیٹھ گئے ہیں۔ بندئہ ِ مزدور کو لاہوت کا پرندہ کہنے والے ، پر کٹے بے ہُنر ہونے کے باوجود مزدوروں کا استحصال کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اُنہیں جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو اُس رزق سے موت اچھی لگتی ہے۔ ان شعبد ہ بازوں کے ایسے ڈرامے شاعر نے یوں بے نقاب کیے ؎
بندئہِ مزدور کو جا کر میرا پیغام دے 
خضر کا پیغام کیا ہے، یہ پیامِ کائنات!
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت ، تہذیب ، رنگ
خواجگی نے خوب، چُن چُن کر بنائے مُسکِرات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور، مات
کبھی غور کیجیئے گا ہماری حکومتیں مزدور کی کم از کم اُجرت 8/10 ہزار روپے ماہانہ کیوں مقرر کرتی ہیں ۔ اُس کی وجہ مزدور دوستی نہیں ہوتی بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سہولت دی جاتی ہے کہ وہ غیر منصفانہ تنخواہ دے کر مزدور کا خون قانون کے نام پر پی سکے ۔ آج کون سا محنت کش ہے جو اتنی معمولی تنخواہ پر 5/7 بچے ، بوڑھے ماں باپ کو 2 وقت کی روٹی ہی کھلا سکے ؎
دن بھر کی مشقت کا صلہ دیکھ لے صاحب 
مزدور کو اُجرت میں فْقط بھوک ملی ہے 
بادشاہِ وقت اور اُس کے درباری وطن کے خزانوں کو میگا پراجیکٹس کے نام پر آگ لگا رہے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں پیسہ بڑا ہے ۔ ترقی بڑی ہے۔ دوسری جانب قومی وسائل کو نذرِ آتش کرنے والے مزدور کی تنخواہ 1 تولہ سونے کے برابر مقرر کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں۔ یہ کیسے شغلیہ بادشاہ ہیں ؎ 
لگا کے آگ شہر کو، یہ بادشاہ نے کہا 
اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت 
جُھکا کے سر کو سبھی، شاہ پرست بول اُٹھے
حضور شوق سلامت رہے، شہر اور بہت 
شورش کاشمیری کی پیش گوئی مغرب کی سیاست میں پوری ہو رہی ہے۔ مشرق کب جاگے گا ۔ یومِ مزدور اس کے لیے بے تاب ہے ؎
حذر اے خواجگی، اِس دور کی خونیں نوائوں سے 
اُلجھنے کو ہے محنت تیری بوسیدہ قبائوں سے 
ابھی تک تیغِ استبداد کے شعلوں میں دم خم ہے
ابھی تک بوئے خوں آتی ہے سلطانی عبائوں سے 
ابھی تک داستانِ ظالم و مظلوم باقی ہے
ابھی تک کھیلتے ہیں کھیلنے والے قضائوں سے
کہاں جائوں ؟ یہاں ہے قحط میرے ہم خیالوں کا
اُلجھنا چاہتا ہوں دورِ حاضر کے خدائوں سے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved