تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-05-2017

ٹوٹے

ترجیحات!
اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب میں 47 ہزار سے زائد سکولوں میں 46 ہزار اساتذہ کی تقرری فنڈز دستیاب نہ ہونے کے باعث موخر کر دی گئی ہے۔ اس کا مطلب خدانخواستہ یہ نہیں ہے کہ حکومت تعلیم کو اہمیت نہیں دیتی بلکہ اس شعبے کو حکومت نے اپنی 700 ترجیحات میں باقاعدہ شامل کر رکھا ہے اور اس کا مزید خوش آئند پہلو یہ ہے کہ یہ معاملہ حکومت کی 100 ترجیحاتِ اوّل میں بطور خاص شامل ہے‘ چنانچہ جونہی ننانوے ترجیحات اپنی تکمیل کو پہنچیں گی فوری طور پر اس پر بھی کام شروع کر دیا جائے گا۔ اس لیے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حکومت جو بھی وعدہ کرتی ہے‘ اُسے پورا کرتی ہے اور اگر پورا نہ بھی کر سکے تو اسے پورا کرنے کی کوشش ضرور کرتی ہے جیسا کہ وہ جملہ وعدوں کی صورت میں کر رہی ہے۔
دو حکومتیں؟
ڈان لیکس پر حالیہ ہنگامہ خیزی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک معزز صحافی نے کہا ہے کہ پاکستان میں دو حکومتیں ہیں‘ جبکہ اصل صورتحال تو یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ہی حکومت ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک اصلی اور ایک جعلی حکومت ہے۔ اصلی حکومت بااختیار ہے اور بڑے فیصلے وہی کرتی ہے جس کے سامنے جعلی حکومت محض بے بس ہے‘ حالانکہ یہی جعلی حکومت کبھی اصلی ہوا کرتی تھی لیکن یہ اپنی کرپشن‘ نااہلی اور غیر حکومتی مصروفیات کی بناء پر رفتہ رفتہ پیچھے ہٹتی اور اپنے اختیارات سے خود ہی دستبردار ہوتی گئی جبکہ اس نے اپنے لچھن اب بھی نہیں بدلے اور بظاہر حکومت ہوتے ہوئے بھی بیک فٹ پر ہی کھیلتی دکھائی دیتی ہے۔ آئی ایس پی آر کا حکومتی نوٹیفکیشن کو مسترد کرنا یقینی طور پر حکومت کے لیے توہین آمیز ہے‘ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے تھے کہ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے لیکن یہاں وہی کچھ ہوا جو جیسا منہ ویسی چپیڑ کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی ذمہ دار خود حکومت ہے یعنی ع
اے باد صبا ایں ہمہ آوردۂ تست
دوستی؟
وزیراعظم نے اوکاڑہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دیگر کئی دلچسپ باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ وہ جس سے دوستی کرتے ہیں وہ عمر بھر کے لیے ہوتی ہے۔ انہوں نے بالکل درست کہا ہے کیونکہ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ان کی دوستی ایک زندہ مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ فوج مبینہ طور پر اسے سخت ناپسند کرتی ہے لیکن اصولی طور پر بھی کسی کو کسی کی دوستی پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت کا ذکر بھی کیا جاتا ہے اور پاکستان میں بھارتی دہشت گردی اور اسے غیر مستحکم کرنے کی اعلانیہ کارروائیاں اس کا کھُلا ثبوت بھی ہیں‘ تاہم اس کا دوستی کے ساتھ کیا تعلق ہے‘ یہ دونوں حضرات اکثر و بیشتر آپس میں تحائف بھی تبدیل کرتے اور ایک دوسرے کی خاندانی تقریبات میں شامل بھی ہوتے ہیں جبکہ ہمارے وزیراعظم جو خود بھی کشمیری ہیں‘ کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ ان سے زیادہ ہمدردی کسے ہو سکتی ہے؟ ہیں جی؟
مرکزی کردار؟
زیادہ تر لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ نیوز لیکس کے مرکزی کردار کو بچانے کے لیے ہی یہ ساری بھاگ دوڑ ہو رہی ہے۔ اس وقوعہ کی فوج کے پاس مبینہ طور پر مکمل اطلاعات اور ریکارڈ موجود ہے جس پر وہ اس کی تفتیش خود کرنے کے بارے میں غور کر رہی ہے تاکہ مکمل سچ قوم کے سامنے لایا جا سکے‘ حکومت جس پر پردہ ڈالنے کے لیے سرگرم ہے۔ وزیراعظم کی اصل پریشانی بھی یہی ہے اگرچہ اُس کے حقائق ظاہر ہونے پر بھی اُنہیں کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی فوج صاحب موصوف کو اس میں خوامخواہ ملوث کر کے اور کوئی انتہائی اقدام اٹھا کر انہیں سیاسی شہید بننے کا موقعہ دے سکتی ہے کیونکہ وزیراعظم کے لیے‘ سب یہ سمجھتے ہیں کہ پانامہ لیکس ہی کافی ہے۔ تاہم اگر نوازشریف پاناما کیس میں بچ بھی جاتے ہیں تو مذکورہ مرکزی کردار کے ظاہر ہونے اور اس وقوعہ کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے نتیجے میں وزیراعظم کا زیادہ نقصان ہو سکتا ہے!
سزا !
حکومت نے اپنی طرف سے پورا انصاف کرتے ہوئے اپنے جن دو بکروں کی قربانی دی ہے‘ اسے کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور جس کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اطلاعات کے مطابق طارق فاطمی کو استعفیٰ دینے کے لیے کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ دوسرے بکرے کی صورتحال زیادہ مضحکہ خیز ہے اور رائو تحسین کے خلاف اس ایکشن پر اخباری اطلاعات کے مطابق انفارمیشن گروپ کے افسران میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں اپنا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے کہ رائو تحسین نے قانون کے مطابق اپنی ذمہ داری ادا کی ہے اور اُنہیں کس جرم کی سزا دی گئی ہے اور انہوں نے قانون سے ہٹ کر کون سا کام کیا ہے؟ حکومتی حلقوں میں اس پر یہ بتایا جاتا ہے کہ رائو تحسین نے اس خبر کو روکا کیوں نہیں‘ حالانکہ کسی خبر کو روکنا اُن کے فرائض میں شامل ہی نہیں ہے! دوسرے یہ کہ اگر خبر جاری کرنے کا حکم کسی مرکزی کردار ہی کی طرف سے دیا جا رہا ہو تو اسے تو رائو تحسین کے والد صاحب بھی نہیں روک سکتے تھے‘ ویسے بھی یہ خبر چھپوانے کے لیے جاری کی گئی تھی‘ روکنے کے لیے نہیں۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
جس نے چوری کی تھی‘ سو پچاس پر چھوڑ اُسے
جو سڑک پر جا رہا تھا اُس کو اندر کر دیا
تاہم‘ رپورٹ کے مطابق انفارمیشن گروپ کے ایک سینئر آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ نیوز لیکس کی رپورٹ منظرعام پر آنی چاہیے تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ انہوں نے قانون سے ہٹ کر کون سا کام کیا ہے۔
آج کا مقطع
دراصل یہ جگہ تھی کسی اور کی‘ ظفر
اٹھے نہیں اس لیے اپنی جگہ سے ہم 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved