بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اورRAW کے ذاتی فنانسر اور دنیا کے مشہور سٹیل ٹائیکون سجن جندال کے لاہور اورا سلام آباد وزیر اعظم ہائوس اور پھر مری یاترا پر جب میڈیا نے سوالات اٹھانا شروع کئے تو وزیر اعظم ہائوس سے اہم شخصیت نے ٹوئیٹ کیا کہ'' سجن جندال ہمارے خاندانی اور ذاتی دوست ہیں اور وہ اسی حیثیت میں ملاقات کیلئے پاکستان آئے ہوئے ہیں‘‘۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے ریکارڈ کے مطا بق ان کے پاس صرف لاہور اور اسلام آباد کی حدود کا ویزہ تھا۔ مری وہ کس طرح پہنچ گئے؟۔ اس بارے پاکستان کے وہی لوگ بہتر بتا سکتے ہیں جن کے پاس صرف دلی کا ویزہ ہوتا ہے اور غلطی سے وہ تاج محل دیکھنے آگرہ چلے جائیں تو ان سے بھارتی پولیس اور ان کی خفیہ ایجنسیاں کیا سلوک کرتی ہیں ؟۔رہی بات سجن جندال کی تو یہ جاننا ضروری ہے کہ جب پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر حملہ ہوا تو انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ یہ سب پاکستانی فوج کا کیا دھرا ہے کیونکہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف تو بھارت سے دوستی چاہتے ہیں لیکن ان کی فوج نہیں مان رہی اور وہ نان اسٹیٹ ایکٹرز سے کشمیر اور بھارت میں دہشت گردی کرواتی رہتی ہے اور اگر ڈان لیکس کی بات کی جائے تو سیرل المیدا کی لکھی جانے والی خصوصی سٹوری میں یہی کہا گیا ہے کہ'' پاکستان کی سول حکومت تو چاہتی ہے کہ دہشت گردی ختم کی جائے لیکن نان اسٹیٹ ایکٹرز جنہیں پاکستانی فوج کی مدد حاصل ہے وہ انہیں بھارت کے
خلاف اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہتی ہے‘‘۔ جس پر سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی چیف جنرل رضوان اختر نے سخت موقف اپناتے ہوئے اسے افواج پاکستان کی کردار کشی اور ان پر ذاتی حملوں سے تشبیہ دیتے ہوئے اس خبر کے ماخذ تک پہنچنے کا ارادہ کیا تاکہ پتہ چل سکے کہ وزیر اعظم کے وہ کون سے ذرائع ہیں جو سجن جندال اور بھارتی راء کے موقف کو اپنائے ہوئے ہیں۔۔۔ جس پر کئی دنوں کی کشمکش کے بعد ایک کمیشن قائم کیا گیا اور اس کی ایک ابتدائی رپورٹ کی روشنی میں اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو ان کے عہدے سے فارغ کر نے کے احکامات جا ری کر نے پڑے۔ڈان لیکس پر قائم کئے جانے والے پانچ رکنی کمیشن کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے دستخطوں سے 29 اپریل بحوالہ نوٹیفکیشن نمبر1707/M/SPM/2017 وزیر اعظم کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر رائو تحسین احمد کو آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی اور وزیر اعظم کے سپیشل اسسٹنٹ برائے امور خارجہ طارق فاطمی کے متعلق کہا گیا کہ ان سے وزارت خارجہ کی ذمہ داریاں واپس لی جا رہی ہیں یعنی رائو تحسین اور طارق فاطمی دونوں کی آئندہ تعیناتی کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا ۔۔۔اسے کہتے ہیں کہ کھودا پہار اور نکلا پلاسٹک کا چوہا۔۔۔ یعنی چار پانچ ماہ کے شور شرابے کے بعد ڈان لیکس میں مبینہ طور پر ملوث سب کیلئے صرف ہلکی سی سرزنش کوہی کافی سمجھا گیا۔جیسے ہی وزیر اعظم آفس سے یہ نوٹیفکیشن جاری ہوا پاکستان اور پاکستان سے باہر کئی ماہ سے اس آگ برساتے ہوئے موضوع پرشدید رد عمل سامنے آنا شروع ہو گیا۔ جس نے بھی اس تادیبی کارروائی کو سنا حیرت زدہ رہ گیا سننے اور دیکھنے والے سب نے اپنی اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں کہ یہ کونسا کمیشن تھا اور کیا کمیشن نے چار ماہ کا وقت اس قسم کی کاروائی کیلئے ضائع کرنا تھا؟۔ اس قسم کی سزا اور انکوائری تو کوئی ایڈیشنل سیکرٹری رتبے کا افسر بھی دے سکتا تھا۔اس نوٹیفکیشن کی سب سے حیران کن اور دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کی کاپیاں سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری ایسٹبلشمنٹ، کیبنٹ سیکرٹری
اور سیکرٹری اطلاعات و نشریات کو تو بھیج دی گئیں جبکہ ڈان لیکس کے سب سے بڑے اور اہم فریق وزارت دفاع اور جی ایچ کیو کو اس کی کاپی بھیجنے کا وزیر اعظم ہائوس کی جانب سے کسی ذمہ دار افسر نے تکلف ہی نہیںکیا !!
وزیر اعظم آفس سے جاری اس نوٹیفکیشن کے بعد شور اٹھا کہ کہیں کوئی مک مکا تو نہیں ہوا کہیں دونوں فریق مٹی ڈالنے پر تو متفق نہیں ہو گئے کیونکہ دو دن پہلے تک پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے جو کچھ بھی کہا جا رہا تھا یہ تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ؟۔ کیا وہ سب کچھ مذاق تھا یا یہ نوٹیفکیشن مذاق ہے؟۔اور پھر وزیر اعظم ہائوس کے جاری کردہ نوٹیفکیشن پر پاک فوج کا رد عمل ان کے ٹوئیٹ کی صورت میں اس طرح سامنے آیا جیسے زخموں سے چور کسی شخص نے چیخ کر سب کو اپنی جانب متوجہ کیا ہو افواج پاکستان کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل ISPR نے کہا'' ہم وزیر اعظم ہائوس کے آج کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو کلی طور پر مسترد کرتے ہیں‘‘ یہ وہ نہیں جو کہا گیا اور نہ ہی وہ کچھ ہے جس کی سفارش کی گئی اور جس پر اتفاق رائے کیا گیا؟۔
اب جو کچھ میں لکھنے جا رہا ہوں اسے نہایت غور سے پڑھنا ہوگا کیونکہ لگتا ہے کہ ملکی سیا ست میں کہیں نہ کہیں کوئی بہت بڑا قدم اٹھانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور وہ یہ کہ جیسے ہی آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹوئیٹ کی صورت میں فواد حسن فواد کے نوٹیفکیشن کے جواب میں افواج پاکستان کا شدید قسم کا رد عمل سامنے آیا تو تین مختلف طبقات کی جانب سے فوج کے خلاف کاروائی کا مطالبہ سامنے آنا شروع ہو گیا۔۔۔کیا یہ سب اچانک ہو رہا تھا یا پھر اس کے پس پردہ طاقتور لوگ ہیں ۔۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کر ے گا لیکن ہوا یہ کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے ایک بیان میں آئی ایس پی آر کے ٹوئیٹ پر معنی خیز جملہ استعمال کرتے ہوئے کہا'' اب ٹوئیٹس کے ذریعے ہمیں کنٹرول کیا جائے گا؟۔
دوسری جانب چوہدری نثار علی خان کے اس بیان کے فوری بعد ایک مضمون نگار اور مشہور قانونی ماہر نے اپنے ایک ٹویٹ میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ آئین میں آرٹیکل243(1) کو استعمال کرتے ہوئے پوری فوجی کمانڈ کو مکمل طور پر وزیر اعظم کے ماتحت کر دیا جائے‘‘۔۔۔دوسرے لفظوں میں ان کا مقصد ہے کہ فوج میں ترقیاں اور تبادلے، کسی بھی کور کمانڈر کی تعیناتی اور برخاستگی کا حق آرمی چیف کو نہیں بلکہ کسی بھی طریقے سے منتخب قرار دیئے جانے والے وزیر اعظم کے ہاتھ میں دے دیا جائے؟۔ابھی یہ ٹویٹ سامنے آیا ہی تھا کہ سوشل میڈیا پر نہ جانے کہاں کہاں سے بے نام لبرل‘ فوج کے خلاف لٹھ لے کر یہ کہتے ہوئے میدان میں اتر نا شروع ہو گئے ہیں کہ فوج کو مکمل طور پر سول حکومت کے ماتحت کر دینا چاہئے یہ کون ہوتے ہیں ڈان لیکس کی بات کرنے والے یا کسی بھی فیصلے کو مسترد کرنے والے وزیر اعظم جو چاہے کرے۔۔۔
مئی2013 کے انتخابات کے تیسرے دن لاہور بلاول ہائوس میں میڈیا کے سینئر ترین لوگوں سے بات کرتے ہوئے نگران حکومت کے گاڈ فادر صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا '' یہ انتخابی نتائج ریٹرننگ افسران کے مرہون منت ہیں۔۔۔اور جب وہ ڈیڑھ سال بعدپاکستان پہنچے تو گڑھی خد ابخش میں انہوں نے کہا میں اپنی امانت واپس لینے آیا ہوں جو ریٹرننگ افسران نے آپ کے حوالے کی تھی؟۔۔۔۔!!