پہلی بار شدید احساسِ جرم نے مبارک علی کے دل و دماغ پہ کب غلبہ پایا، درست طور پر اسے یہ یاد نہیں تھا۔ ہاں البتہ یہ وہ پورے یقین سے کہہ سکتا تھا کہ 48برس کی عمر تک اس احساسِ زیاں سے وہ آزاد ہی رہا۔پسِ منظر اس کا یہ تھا کہ وہ ایک دولت مند ،غیر مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔مال و اسباب کی بہتات تھی ، صحت اور شکل و صورت بہت عمدہ ۔اپنے باپ کے ساتھ دنیا کے سات چکر اس نے لگا رکھے تھے ۔ باپ کی موت کے بعد کاروبار اس نے بخوبی سنبھال لیا۔ کسی تکلیف کا شائبہ تک نہ تھا۔ شادی کا روگ اس نے پالا نہیں ۔ بہن بھائی اس کے تھے نہیں ۔ رہی ماں تو جب ایک حادثے میں وہ ہلاک ہوئی تب مبارک علی کی عمر صرف دس ماہ تھی ۔ اسے اپنی ماں کا دھندلا سا چہرہ بھی یاد نہ تھا۔
مذہب اس کے نزدیک ایک غیر دلچسپ چیز تھی ۔ اسے وہ گوارا کر سکتا تھا ، اپنانا ممکن نہ تھا۔ ایک بے حد دولت مند انسان، پانچ عشرے جو دل کھول کر دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ مال اسباب کی فراوانی میں من کی خواہشات پوری کرتے کرتے جوانی کب بیتی اورکب ادھیڑعمری بالوں کو سفید کرنے لگی ، پتہ ہی نہ چلا۔ اس کے وہ دوست ، دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے میں جو اس کا ساتھ دیا کرتے ، اب بیوی بچّوں والے تھے ۔ آہستہ آہستہ سب
سنجیدہ عائلی زندگی کی ذمہ داریوں میں مگن ہو چکے تھے ۔محبت اور فخر کے ساتھ جب وہ اپنے جگر گوشوں کی دلچسپ حرکتیں بیان کرتے تو مبارک علی بت بنا سنتا رہتا۔ یہ وہ حالات تھے، جن میں ایک روز جب اس نے اپنی زندگی کا حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ اس نے صرف خسارا کمایا ہے ۔ ہر قسم کی آسائش اس کے پاس موجود تھی ، رشتہ ایک بھی نہ تھا۔ بیمار ہوتا تو اسے دوا مل سکتی تھی ، ہمدردی اور محبت نہیں ۔
یہ وہ وقت تھا ، جب سنجیدگی سے اس نے محسوس کیا کہ اسے اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اسے رشتوں کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر اسے خدا کی ضرورت ہے ۔اس نے پلٹنا چاہا مگررک کر جب اس نے اپنے گناہوں کا حساب لگایا تو خوف زدہ ہو گیا۔نماز روزہ کبھی اس نے کیا نہ تھا ۔ اس کے بیشتر اخراجات شراب و شباب پر اٹھے تھے ۔ اس کا وجود گناہوں کی غلیظ پوٹلی کی صورت اختیار کر گیا تھا۔
وہ مذہبی لوگوں کے پاس گیا ۔ ان سے پوچھا کہ کیا خدا کی طرف پلٹنے کا حق اس کے پاس موجود ہے ۔ ان میں سے ہر ایک نے کہا ، جی ہاں ، بالکل ۔ یہ دروازہ تو بند ہوتا ہی نہیں ۔ ایک نے بتایا کہ خدا اپنی بندے سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا
ہے ۔ مبارک علی کی تسلی نہ ہوئی ۔ اس لیے کہ لوگوں کو ابھی اس کے گناہوں کی تفصیل معلوم نہ تھی ۔ اپنی تعفن زدہ زندگی پر جب ایک نظر وہ ڈالتا تو اس کا شک یقین میں بدل جاتا۔ یہ کہ اتنے گناہ وہ کر چکا ہے کہ بخشش ممکن نہیں ۔احساسِ گناہ کی شدت مسلسل توجہ کا ایک ایسا مرکزی نقطہ ، ایسی obsessionبن چکی تھی ، جس سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا، جب اسے سکون آور ادویات کی ضرورت محسوس ہونے لگی ۔ وہ بڑے بڑے ماہرینِ نفسیات کے پاس گیا۔ وہ اسے رحمتِ پروردگارِ عالم کا یقین دلانے میں ناکام رہے ۔ اسے یقین تھا کہ جسے بھی مسلسل گناہ پر مشتمل 48برس کی داستان وہ سنائے گا ،وہ اسے ناقابلِ معافی ہی قرا ر دے گا۔ہفتے کی صبح اس کے دوست جمال دین کا فون آیا۔اس کی 4سالہ بیٹی ، اس کی نورِ نظر رمشا گم ہو گئی تھی ۔خاموشی وہ گھر کا مرکزی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی تھی ۔ تین گھنٹے سے اس کی ماں دیوانہ وار اسے ڈھونڈ رہی تھی ۔ جمال دین خود اس وقت پیرس میں تھا ۔ وہ بلک بلک کے رو رہا تھا۔ مبارک علی موقع پر پہنچا۔ جمال دین دس کنال کے ایک فارم ہائوس میں رہتا تھا، جس کے سامنے درختوں کا ایک پورا جھنڈ اگا ہوا تھا۔ 2گھنٹے وہ پیدل پھر تا رہا۔ آخر رمشا کو اس نے ڈھونڈ نکالا۔ ایک درخت کے پیچھے، چھائوں میں گھاس پر وہ سکڑ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ہو ا یہ تھا کہ شیشے کی ایک بوتل سے وہ کھیل رہی تھی اور وہ ٹوٹ گئی ۔ رمشا کے دونوں ہاتھ زخمی ہوئے ۔ ان سے خون بہنے لگا۔ ''انکل ماما کو نہیں بتانا‘‘ خوفزہ بچّی نے کہا۔ اس کا خیال تھا کہ ماں اسے مارے گی ۔ کسی صورت وہ گھر جانے کو تیار نہیں تھی ۔ مبارک علی نے فون کر کے اسے بلایا۔ وہ دیوانہ وار اپنی بچّی کو چومنے لگی ۔ رمشا کو جب یقین آیا کہ اسے کچھ نہیں کہا جائے گا تواپنی ماں سے وہ چمٹ گئی ۔ اپنے زخم اسے دکھانے لگی ۔
مبارک علی دیکھتا رہا ،روتا رہا۔ اسے ماں کا پیارکبھی نہ ملا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا، جب اسے یاد آیا کہ خدا تو 70مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ پہلے تو اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ ماں ہوتی کیاہے ۔ اسے لگا کہ رمشا ہی کی طرح اپنے زخم چھپائے درخت کے پیچھے چھپا ہوا ہے ۔ رمشا ہی کی طرح اسے یقین ہے کہ ایسا جرم وہ کر چکا ہے ، جس کی معافی ممکن نہیں لیکن آسمانوں اور زمینوں پہ محیط اس کے رب کی رحمت اس کی منتظر ہے ۔اسے یوں محسوس ہوا ، جیسے 48برس کے بعد ماں کی آغوش اسے مل گئی ہے ۔ وہ بلکنے لگا۔ اپنے خدا کو اپنے زخم دکھانے لگا۔پہلی بار اسے لگا کہ ابھی کچھ نہیں بگڑا ۔ اب بھی سب کچھ صحیح ہو سکتاہے ۔
ایک طویل عرصے کے بعد بالآخر اس رات مبارک علی کو خوشگوار نیند نصیب ہوئی ۔