کرارا ٹویٹ‘ پُھسپھسیا جواب
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ہم محاذ آرائی نہیں چاہتے‘ اس سے زیادہ نحیف و نزار بیان اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور ‘اس کی ایک وجہ ہے، یہ وہی نواز شریف ہیں جو اس سے پہلے ایک سے زیادہ آرمی چیفس کے ساتھ محاذ آرائی کر چکے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جو تندیاں اور تیزیاں وہ اپنی تقریروں میں دکھا رہے ہیں اس کا عشیر عشیر بھی وہ اپنے ردِّ عمل میں ظاہر نہیں کر سکے ورنہ وہ اگر ایکشن لے لیتے تو نہ صرف ان کی کھوئی ہوئی حکومتی رّٹ بحال ہوتی بلکہ ملک کے اندر اور باہر ان کے وقار میں اضافہ ہوتا کیونکہ آئی ایس پی آر کی جانب سے ان کے نوٹیفکیشن کو مسترد کر دینا ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے سے کسی طور کم نہیں تھا۔ ہم اُنہیں اُکسا نہیں رہے بلکہ اُن کی اندرونی صورتِ حال کی وضاحت مقصود تھی ع
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
آغاز۔ ؟
وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ کے استعفے کو ابھی چند ہی روز گزرے ہیں اور اگرچہ وہ کسی دوسری جماعت میں شامل تو نہیں ہوئے ہیں اور اُنہیں منانے کی کوششیں بھی بعض زعماء کے ذریعے شروع کر دی گئی ہیں لیکن فضا میں کچھ مزید ارتعاشات بھی محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق پارٹی کے ایم این اے اور سابق وفاقی وزیر میاں یٰسین وٹو مرحوم کے برادرِ خورد میاں معین وٹو کو بھی پارٹی ورکروں نے (ن) لیگ چھوڑنے کا مشورہ دے دیا ہے، رپورٹ کے مطابق سینکڑوں کارکنوں نے میاں معین وٹو سے کہا ہے کہ آپ ایک اچھے اور ایماندار سیاستدان ہیں مگر شریف برادران اینڈ کمپنی جُھوٹوں کا ٹولا ہے اور اگر آپ (ن) لیگ کو نہیں چھوڑیں گے تو آپ کے ووٹرز اور سپورٹرز نواز شریف کے نامزد اُمیدوارکو ہرگز ووٹ نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ نواز لیگ کے بزرگ ترین رہنما سابق گورنر پنجاب ذوالفقار کھوسہ نے بھی ایک بیان میں نواز شریف کو استعفے کا مشورہ دیا ہے۔اس کے علاوہ جنوبی پنجاب سے سات لیگی ممبران کی بغاوت کے خطرے کے پیش نظر ریاض پیرزادہ کا استعفیٰ منظور نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر بس نہیں‘ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔
رائو تحسین
جیسا کہ کل خدشہ ظاہر کیا گیا تھا‘ وزیر اعظم کے (سابق) پرنسپل انفارمیشن آفیسر رائو تحسین نے اپنی برطرفی کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے: اس کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ بعض اطلاعات کے مطابق لیگی قیادت نے خود رائو تحسین کو عدالت جانے کا کہا‘ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ برطرفی کا فیصلہ محض گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑنے اور دوسرے فریق کو مطمئن اورراضی کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور اب اس متنازع فیصلے سے جان چھڑوانے کے لیے عدالت کا سہارا لینے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ بلکہ حکم امتناعی پر باقی فریقین بھی عدالت سے رجوع کریں گے جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کیسی بد حواسی میں فیصلے کر رہی ہے اور اسے بحران سے نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی جبکہ حکومت نے کوئی محاذ آرائی نہ کرنے کا اعلان کر کے پہلے ہی اپنی بے بسی اور لاچارگی کا اظہار کر دیا ہے یعنی ''جنہاں کھاہدیاں گاجراں ڈھڈ اوہناں دے پیڑ‘‘
ایک اور فیصلہ
اخباری اطلاع کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنمائوں فردوس عاشق اعوان‘ نذر محمد گوندل اور ندیم افضل چن کی تحریک انصاف میں شمولیت متوقع ہے اور پی پی پی کی سابق وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان نے اس کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے جو 7مئی کو سیالکوٹ میں ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسے میں اس کا باضابطہ اعلان کر دیں گی جبکہ چند روز میں ان تینوں افراد کی عمران خاں سے ملاقات بھی متوقع ہے، چن اور گوندل بھی جلسے میں شرکت کریں گے، اصل وجہ یہ ہے کہ نواز لیگ اور پی پی پی کے حوالے سے اس قدر بدنام ہو چکی ہیں کہ آئندہ انتخابات میں انہیں متوقع پذیرائی حاصل کرنے کی کچھ زیادہ امید نہیں ہے کیونکہ ایک بڑی تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں کرپشن کی ریل پیل نہ صرف واضح ہو چکی ہے بلکہ عوام الناس میں کرپشن کے خلاف ایک نفرت بھی پھیل چکی ہے جس کا کریڈٹ صرف اور صرف عمران خاں کو جاتا ہے ع
ایں کا راز تو آیدو مرداں چُنیں کُنند
دلچسپ!
ایک دلچسپ صورت حال یہ بھی اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ اتنی شورا شوری اور اپوزیشن کے متفقہ مطالبے کے باوجود جے آئی ٹی رپورٹ کو پبلک کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا جا رہا ہے، زیادہ سے زیادہ اس کا امکان ہے کہ حکومت کوئی نظر ثانی شدہ رپورٹ پیش کرے گی‘ اس میں بھی پوری رپورٹ شائع کئے جانے کا کوئی ذکر نہیں ہے جبکہ یہ تلوار سر پر مزید لٹک رہی ہے کہ فوج اس معاملے کی خود تفتیش کرے گی اور نہ ہی حکومت کی جانب سے کوئی متبادل لائحہ عمل پیش کیا جا رہا ہے اور یہ ایسا ہی رویّہ ہے جیسا کہ اس قدر دبائو کے باوجود وزیر اعظم کا استعفیٰ نہ دینے کا فیصلہ جبکہ پاکستان بار کونسل بھی اس مسئلے پر خم ٹھونک کر سامنے آ گئی ہے اور وزیر اعظم پر استعفیٰ دینے پر دبائو ڈالنے کے لیے اس نے بھی اپنی صف آرائی شروع کر دی ہے بلکہ اس نے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (لاہور) سے شکایت کا اظہار کیا ہے کہ اس نے انہیں اعتماد میں لیے بغیر اکیلے استعفیٰ مانگنے کا فیصلہ کیوں کر لیا تھا۔ اور یہ بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ فوج سے تعلقات زیادہ خراب ہونے پر حکومت قُربانی کا ایک اور بکرا پیش کر دے تاکہ اصل بکرا یا بکری بچ رہے!
آج کا مقطع
سادگی دیکھیے‘ وہ اب بھی سمجھتے ہیں ظفر
وقت رُک جائے گا رفتار بدل دینے سے
نوٹ: کل والا مقطع اس طرح پڑھا جائے:
دراصل یہ جگہ تھی کسی اور کی ظفر
اُٹھتے نہیں اسی لیے اپنی جگہ سے ہم