28 اپریل کو تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے اسلام آباد شکر پڑیاں پریڈ گرائونڈ کے عوامی اجتماع میں کشمیر کے مسئلے کا جس انداز میں ذکر کیا وہ پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے کروڑوں عوام کے دلوں کی آواز تو تھی ہی لیکن اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے دنیا بھر کے سفارتی اہلکاروں کیلئے بھی ایک پیغام تھا کہ حق خود ارادیت صرف مخصوص قوموں کیلئے ہی نہیں ہونا چاہئے ۔ 70 برسوں سے شکار چلے آنے والے کشمیریوں کی آواز کو عمران خان نے جس طرح اپنی اس تقریر میں اور کل ہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لائن آف کنٹرول پر کھڑے ہو کر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت سمیت دنیا بھر کو پیغام دے دیا ہے کہ'' مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی دہشت گردی سے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے‘‘ ان دو لیڈران کے پیغامات سے کشمیریوں کو یقین ہو گیا ہے کہ وہ اپنی جدو جہد میں اکیلئے نہیں جنرل باجوہ اور عمران خان کے ان خطابات کے بعد کشمیری بہن بھائیوں کو یقین ہو چکا ہو گاکہ پاکستان سے اٹھنے والی ان دونوں آوازوں میں سیا ست نہیں بلکہ سچا جذبہ موجود ہے۔۔۔۔غور کیجئے گا کہ ہندوستان تو ان پیغامات پرخاموش ہے لیکن ہمارے اندر کچھ چہرے میڈیا کے مختلف حصوں میں بیٹھ کر افواج پاکستان اور عمران خان کی کردار کشی میں پہلے سے زیا دہ خم ٹھونکے میدان میں کود چکے ہیں؟۔عمران خان نے یہ کہہ کر دنیا بھر کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے کہ'' کشمیری ابھی تک ا سلئے غلام چلے آ رہے ہیں وہ اس لئے ہر روز قتل کئے جا رہے ہیں ان کے ہزاروں بچوں کوا س لئے آئے روز پیلٹ گنوں سے اندھا کیا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں جن سے مغرب اور امریکہ کو کوئی ہمدردی نہیں ان کے بچوں سے ان کی عزت مآب بیٹیوں سے بھارتی سیکیورٹی فورسز کے وحشیانہ سلوک سے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی نام نہاد چیمپئن پر کسی قسم کا اثر نہیں ہوتا اس لئے کہ یہ مسلمانوں کے بچے اور بیٹیاں ہیں ورنہ کیسے بھول جائیں دہلی میں میڈیکل کی ایک طالبہ سے بس کنڈیکٹر اور ڈرائیور کی اجتماعی زیا دتی پر پورا بھارت اور ا س کی عدالتیں تو ایک طرف کونے کونے سے خواتین کے حقوق کیے نام سے لاتعداد تنظیمیں باہر نکل آئیں۔ عمران خان نے اقوام متحدہ کو جنجھوڑتے ہوئے سچ کہا ہے کہ بھارتی فوج کے قبضے میں جکڑی ہوئی کشمیر کی بیٹیاں ہر روز ان کے ظلم کا شکار رہتی ہیں لیکن ان کیلئے کسی کے دل میں کوئی درد نہیں ہوتا کسی کی انسانیت پامال نہیں ہوتی ۔۔۔ہاں اگر کشمیری غیر مسلم ہوتے وہ اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے ہوتے تو انہیںکب کی آزادی مل چکی ہوتی وہ کب کے ایک علیحدہ اور آزاد ریا ست کے شہری بن چکے ہوتے اور غلامی کا پھندہ ان کی گردن سے کب کا اتار کر کہیں دور اندھے گڑھے میں پھینک دیا گیا ہوتا ۔
اگر اقوام متحدہ کو بطور ایک معتبر ادارے کے یاد نہیں رہا اور اگر امریکہ برطانیہ سمیت اس کے اقوام متحدہ کے تمام۔رکن ممالک بھول چکے ہیں تو انہیں 1960 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظور شدہ وہ قرار داد یاد کرائے دیتا ہوں جسے سب نے متفقہ طور پر یہ تسلیم کرتے ہوئے دستخط کئے ہیں '' Granting of independence to Colonial Countries and people''۔
پھر1966 میںUNO کی منظور کی جانے والی وہ قرار داد بھی اقوام عالم کے سامنے موجود ہو گی جس میں محکوم قوموں کے حق خود اردایت کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا۔۔۔سوال یہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی مہذب قوم کے علم میں نہیں انسانی حقوق اور جمہوریت کو آسمانی صحیفہ سمجھنے والی ترقی یافتہ قوموں کو یاد نہیں کہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اپنے فیصلے میں حق خود اردایت کو قانون کا حصہ بناتے ہوئے کہا ہے'' حق خود اردایت کا اختیار چاہے کسی فرد نے چھین رکھا ہو ہا کسی حکومت نے jus cogens. It is a norm of ۔۔۔۔اور ''Jus Cogens'Norms'انٹرنیشنل قانون کی وہ سب سے بڑی اصطلاح ہے جس پر ہمہ وقت عمل در آمد لازمی قرار دیا گیا ہے۔ کشمیری مسلمان اپنے لئے Self- determination کا جو حق مانگ رہے ہیں اس کے بارے میں مغربی ممالک سمیت امریکیوں کی کیا رائے ہے اس کیلئے اگر ہم18 ویں صدی میں چلے جائیں توRousseau, Mill,Locke جیسے بڑے بڑے مانے ہوئے فلاسفر اور دانشور یہی کہتے رہے کہ انسانوں کو ان کی مرضی کے مطا بق رہنے کا حق ملنا چاہئے ان پر کوئی حکم ٹھونسا نہ جائے بلکہ انہیں اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہئے اور امریکہ کے انقلابیوں نے تو اسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی آزادی کی جنگ شروع کی تھی۔۔۔ کیا فرانسیسی قوم اس امر سے ذرا سا بھی انکار کر سکتی ہے کہ روسو کے حق خود ارادیت کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ہی انہوں نے انقلاب فرانس کی جانب قدم بڑھایا تھا۔۔۔اور پھر کون انکار کرے گا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران'' حق خودارادیت کے اسی تصور نے ہی جنم لیا تھا کہThe right of people to decide their own destiny''۔۔پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکی صدر Woodrow Wlson نے اس نظریئے کی زبردست حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قوموں کے درمیان تعلقات کا پیمانہ ہو گا اور اسے تسلیم نہ کرنے والوں کے خلاف سب کو مشترکہ طور پر قدم اٹھانے ہوں گے لیکن بد قسمتی یہ ہوئی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والی لیگ آف نیشنز میں امریکی صدر ولسن people should be free from external domination
جیسے بنیا دی اصول کواس کے منشور کا حصہ بنا نے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ وہی اقوام متحدہ ہے یہ وہی یورپی یونین ہے یہ وہی انسانی حقوق کے چیمپئن کہلانے والا امریکہ اور خود کو جمہوریت کی ماں کہلانے والی برطانوی حکومت ہے جس نے مشرقی تیمور کے عیسائیوں کی علیحدہ ریاست کیلئے انڈو نیشیا کو ناکوں چنے چبوا دیئے ادھر مشرقی تیمور میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو ساتھ ہی1999 میں اقوام متحدہ نے وہاں ریفرنڈم کروانے کے بعد2002 مٰیں اسے ایک آزاد ریاست کا درجہ دے کے کر اپنا رکن بنا لیا ۔۔۔اور پھر جنوبی سوڈان کی مثال لے لیں جب وہاں کی عیسائی آبادی نے سوڈان سے علیحدگی کیلئے مسلح جدو جہد شروع کی تو اسیUNO نے مکمل معاشی پابندیوں کے ذریعے 2011 میں جنوبی سوڈان کی شکل میں ایک علیحدہ عیسائی ریاست کا وجود سامنے رکھ دیا۔ دور نہ جائیں ابھی کل کی بات ہے جب روس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تو کیاحق خود اردایت کے اسی فلسفے اور قرارداد کی روشنی میں دنیا کے نقشے پر15 نئی آزاد اور خود مختار ریاستوں نے جنم نہیں لیا؟۔ چیکو سلوواکیہ کی جگہ جمہوریہ چیک اور سلواک سامنے نہیں آئے اور پھر تھوڑا سا اور آگے چلتے ہیں کیا ایتھوپیا کے وجود سے اریٹیریا نے جنم نہیں لیا۔۔۔اور پھر سب یہ بتاتے ہوئے کیوں بھول جاتے ہیں کہ یوگو سلاویہ سے کتنی نئی آزاد ریا ستوں نے حق خود اردایت کے ذریعے ہی جنم لیا ہے؟۔
کشمیر1947 سے ہی تقسیم ہند کے عمل میں برطانوی سرکار کا وہ نا مکمل ایجنڈہ ہے جو اب تک دس لاکھ سے زائد انسانی زندگیوں کو نگل چکا ہے اس نامکمل ایجنڈے کیلئے آج سے68 برس قبل UNO نے قرار داد منظور کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ کشمیر میںآزادانہ اور منصفانہ ریفرنڈم ہو گا جس سے کشمیری عوام اپنی مرضی سے اپنی زندگیوں کا فیصلہ کر یں گے اور ان کا فیصلہ ہر فریق کو منظور ہو گا لیکن آج 69 برسوں بعد بھی وہ ایجنڈہ نامکمل ہے اس لئے عمران خان کا یہ کہنا درست لگتا ہے کہ یہ ایجنڈہ صرف اس لئے نامکمل ہے کہ آزادی مانگنے والے یہ مظلوم کشمیری مسلمان ہیں؟