تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-05-2017

اَلیس منکم رَجل رشید؟

ٹویٹ کی سیاست‘ کاتا اور لے دوڑی!... نہیں‘ جناب قرینہ یہ نہیں‘ قرینہ کچھ اور ہے۔
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
قابلِ فہم تو چوہدری نثار علی خاں کا اندازِ فکر بھی نہیں کہ بیک وقت وزیر اعظم اور عسکری قیادت سے نالاں ہیں‘ لیکن رانا ثناء اللہ؟ شاعر فردوسی نے کہا تھا: جو یاد رکھتا ہے‘ اس کے زخم ہرے رہتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق اور جاوید ہاشمی کی طرح‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے ساتھ بھی بہیمانہ سلوک کیا گیا۔ رانا صاحب آزاد کر دیے گئے تھے اور واویلا کرنے کا موقعہ انہیں ملا؛ چنانچہ ہیرو بن گئے۔ 
جنرل اشفاق پرویز کیانی آ گئے اور پھر وزیرِ اعظم کی پسند کے جنرل راحیل شریف۔ رانا صاحب کا لب و لہجہ نہ بدلا۔ ان کی جگہ نرم گفتار جنرل قمر جاوید باجوہ نے لے لی۔ اب رانا صاحب ان کے بھی درپے ہیں۔ جو اپنے زخم...
کبھی پاکستانی فلمیں ہی تفریح کا بڑا ذریعہ ہوا کرتیں۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے بقول گھر والوں سے چھپ کر دیکھی جاتیں۔ ٹکٹ لینے کے لیے کھڑکیوں پر یلغار کی جاتی۔ ایک جسیم آدمی نے اگلی صف میں بیٹھے نحیف و نزار کے سر پر چپت جمائی کہ اس کی اُٹھک بیٹھک سے بے زار تھا۔ برہم ہو کر وہ اٹھا، دیو ہیکل کو دیکھ کر سہم گیا۔ ''میں سنجیدہ ہوں‘‘ پہلوان نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گمبھیر آواز میں کہا۔ ''پھر کوئی بات نہیں۔ میں سمجھا آپ مذاق کرتے ہیں۔ ایسا مذاق میں برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔ رانا صاحب کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہا کہ فوج سنجیدہ ہے۔
ٹویٹ جنرل آصف غفور نے نہیں‘ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا ہے۔ پس منظر سے قدرے زیادہ واقف ہونے کی وجہ سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ معاملہ وہی ہے‘ اس یکتائے روزگار اسداللہ خان غالبؔ نے جسے زبان دی تھی:
دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
فیض احمد فیضؔ کہا کرتے تھے۔ زندگی کے سب تیور غالبؔ نے بیان کر ڈالے۔ پسماندگان کے لیے کچھ نہ چھوڑا۔ 
پے در پے چھائونیوں کے دورے کرنے والے جنرل باجوہ کو اپنے افسروں کے دبائو کا سامنا تھا۔ وزیر اعظم سے وہ کہہ چکے تھے کہ ان کا بھی ایک حلقہئِ انتخاب ہے۔ ارزاہ کرم ان کی مشکل کو وہ ملحوظ رکھیں۔ میاں صاحب پہ بادشاہ بننے کا خبط سوار رہتا ہے۔ 
بحث کی شدّت میں گزرے کل کے منظر اکثر دھندلا جاتے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہی نہیں‘ صریح کذب بیانی ہو گی کہ افواج پاکستان کی قیادت نے افہام و تفہیم سے گریز کیا۔ سب سے بڑی رعایت تو اول روز ہی دی تھی۔ سراغ یہ لگانا تھا کہ مشکوک اخبار نویس کو خبر کس نے دی؟ سزا ملی بھی تو ان لوگوں کو خبر رکوانے میں جو ناکام رہے تھے۔ اس آدمی کا تو تعین ہی نہیں کیا گیا‘ سازش کا تانا بانا جس نے بُنا تھا۔
ایسا کیوں ہوا؟ ایک ممتاز اور باخبر جنرل سے پوچھا گیا۔ ''ہم نے نہیں‘ یہ رعایت اس شخص نے دی تھی‘ جو فیلڈ مارشل بننے کا آرزو مند تھا... اور اس نے، ایک اہم منصب پر جو ایک سال کی توسیع کا خواہش مند تھا‘‘ انہوں نے کہا‘ صورتِ حال کو ہم نے قبول کر لیا کہ مصالحت کے آرزو مند تھے۔
اتفاق سے میرے پاس کچھ زیادہ معلومات ہیں۔ ڈرتا ہوں کہ سب نہ اگل دوں۔ ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر لکھتا ہوں۔ ٹیلی ویژن پر معتبر اخبار نویسوں کے جب تبصرے سنتا ہوں تو بعض اوقات میری ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ ان میں سے بعض میرے قابل احترام دوست ہیں۔ معلومات جب نہ ہوں تو ہم بھی اسی طرح شاعری کیا کرتے ہیں۔ خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے ہیں۔ 
اس کے باوجود کہ آئی ایس پی آر کا پریس ریلیز دھماکہ خیز تھا‘ عرض کیا تھا کہ مصالحت کا امکان زیادہ ہے۔ ماضی کی تلخیاں بھلا دینے میں جنرل باجوہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اتنی لچک ان میں پائی جاتی ہے کہ آدمی حیران رہ جائے۔ میاں محمد نواز شریف نے دوسروں کو نظر انداز کرکے انہیں سپہ سالاری کا وہ منصب سونپا ہے‘ دنیا بھر کے جنرل جس پہ رشک کرتے ہیں۔ ان کی بات وہ کیوں نہ سنیں گے؟ دوسرے کی بھی مگر سننا پڑتی ہے۔
جان ہے تو جہان ہے۔ مزاج میاں صاحب کا نہیں مگر ان کی ضرورت ہے کہ مصالحت کریں۔ پاناما لیکس نے اخلاقی پوزیشن ان کی اجاڑ کے رکھ دی ہے۔ مجروح پہلوان ایک اور کڑے مقابلے کا متحمل نہیں۔ آزاد اخبار نویس مصالحت میں ان کی مدد کریں گے اور کرنی بھی چاہئے مگر محاذ آرائی میں ہرگز نہیں۔ رہے ان کے سائے میں سرگرم صحافی یا نوکریاں دے کر پالے گئے مفکرین کرام تو رائے عامہ ان پہ ہنستی ہے۔ لوگ رئوف کلاسرا کی سنتے ہیں‘ پپّو کی نہیں، اب جسے کالم میں شعر لکھنے پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔ کیوں بھائی پپّو!
چوہدری نثار علی خاں پہ حیرت ہے۔ ان کے تین مثبت نکات ہیں‘ وہ ان معدودے چند سیاستدانوں میں سے ایک ہیں، کرپشن کا جن پر الزام نہیں۔ ثانیاً سیاست کی باریکیاں وہ سمجھتے ہیں‘ ثالثاً اظہار خیال پہ غیر معمولی قدرت۔ کمزوری یہ ہے کہ تنقید کی تاب نہیں رکھتے، برہم ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم سے ان کے مراسم برسوں سے کمزور ہیں۔ اب عسکری قیادت پہ یلغار سے وہ کیا حاصل کریں گے؟ رابطہ سہل ہوتا تو ان سے بات کئے بغیر میں یہ عبارت نہ لکھتا۔ مسئلہ ان کا یہ ہے کہ الگ تھلگ رہتے ہیں۔ اگلی بار ملے تو انشاء اللہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول‘ کسی اچھے خوش نویس سے لکھوا کر لے جائوں گا۔ ''گھل مل کر رہنا‘ تمام دانائی کا نصف ہے۔‘‘
وہ خود اور رانا ثناء اللہ‘ بارہا‘ اپوزیشن لیڈروں کو تخریب کاری کے خطرے سے متنبہ کر چکے۔ ہائے افسوس! کس کا ذکر نثار علی خاں کے ساتھ کرنا پڑا۔ ایجنسیوں نے اب انہی سے کہا تو بدگمانی کیا لازم ہے؟ واہ کی حدود میں کئی بار دہشت گردی کے واقعات کیا نہیں ہو چکے؟ ابھی چند روز پہلے ہی؟ 
ناچیز اب بھی یہ کہتا ہے کہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور اس طرح کہ مکمل طور پہ زخم مندمل ہو جائے۔ فوج مارشل لا لگائے گی‘ ان کے کسی سیاسی حریف کی مدد کرنا پسند کرے گی اور نہ سپریم کورٹ پہ اثرانداز ہونے کی کوشش۔ اس لیے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز تباہ کن ہو گی۔ میاں صاحب کے عقاب اگر نہ ٹلے، جو عقاب نہیں، اصل میں کوّے ہیں، تو نوبت کاکڑ فارمولے کی البتہ آ سکتی ہے؛ اگرچہ اس کے لیے سرکاری پارٹی کے لیڈروں کو کچھ مزید حماقتوں کا ارتکاب کرنا ہو گا اور وہ بھی ڈٹ کر۔ اب یہ غور کرنے والوں پہ ہے کہ 2017ء کے غلام اسحٰق خاں کا تعین کریں۔ خان صاحب ایسا نجیب اطوار وہ بہرحال نہیں۔
وزیر اعظم کو صرف یہ کرنا ہو گا کہ طفیلوں کو احتیاط کا حکم صادر کریں... اور ظاہر ہے کہ عسکری قیادت کو بھی یہی کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کی ایک ملاقات سے بحران ٹل سکتا ہے۔ ایک نہیں تو دوسری سے۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔ دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت معاملے کو الجھا تو سکتی ہے‘ سلجھا نہیں سکتی۔ نثار علی خاں‘ فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے اہل تھے‘ مگر اب نہیں۔ ان کے اپنے گھر نون لیگ میں اتفاق رائے موجود نہیں۔ سلمان غنی نے کہا کہ انہی کو مشن سونپا جائے گا، فوراً ہی محترمہ مریم نواز نے تردید کر دی۔ کیوں کر دی؟ ٹویٹ کی سیاست‘ کاتا اور لے دوڑی!... نہیں‘ جناب قرینہ یہ نہیں‘ قرینہ کچھ اور ہے۔
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved